(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا عبد الوهاب الثقفي , عن حميد , عن انس , قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبقيع , فنادى رجل رجلا يا ابا القاسم , فالتفت إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: إني لم اعنك , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تسموا باسمي , ولا تكنوا بكنيتي". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ , عَنْ حُمَيْدٍ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَقِيعِ , فَنَادَى رَجُلٌ رَجُلًا يَا أَبَا الْقَاسِمِ , فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: إِنِّي لَمْ أَعْنِكَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَسَمَّوْا بِاسْمِي , وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقبرہ بقیع میں تھے کہ ایک شخص نے دوسرے کو آواز دی: اے ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جانب متوجہ ہوئے، تو اس نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو مخاطب نہیں کیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے نام پر نام رکھو، لیکن میری کنیت پر کنیت نہ رکھو“۔
حمزہ بن صہیب سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے صہیب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اپنی کنیت ابویحییٰ کیوں رکھتے ہو؟ حالانکہ تمہیں کوئی اولاد نہیں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری کنیت ابویحییٰ رکھی ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4959، ومصباح الزجاجة: 1307)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/16) (حسن)» (سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل منکر الحدیث ہے، لیکن عمر رضی اللہ عنہ کے ابوداود کے شاہد سے یہ حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 33)
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ اولاد ہونے سے پہلے بھی آدمی کنیت رکھ سکتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن عقيل ضعيف وللحديث شواھد ضعيفة عند أحمد (4/ 333،6/ 16) والحاكم (3 /398) وغيرهما انوار الصحيفه، صفحه نمبر 511
(مرفوع) حدثنا ابو بكر , حدثنا وكيع , عن هشام بن عروة , عن مولى للزبير , عن عائشة , انها قالت للنبي صلى الله عليه وسلم: كل ازواجك كنيته غيري , قال:" فانت ام عبد الله". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ مَوْلًى لِلزُّبَيْرِ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ أَزْوَاجِكَ كَنَّيْتَهُ غَيْرِي , قَالَ:" فَأَنْتِ أُمُّ عَبْدِ اللَّهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ نے اپنی تمام بیویوں کی کنیت رکھی، صرف میں ہی باقی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم «ام عبداللہ» ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17817)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأدب 78 (4970) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا ابو بكر , حدثنا عبد الله بن إدريس , عن داود , عن الشعبي , عن ابي جبيرة بن الضحاك , قال: فينا نزلت معشر الانصار ولا تنابزوا بالالقاب سورة الحجرات آية 11،" قدم علينا النبي صلى الله عليه وسلم , والرجل منا له الاسمان والثلاثة , فكان النبي صلى الله عليه وسلم ربما دعاهم ببعض تلك الاسماء" , فيقال: يا رسول الله , إنه يغضب من هذا , فنزلت ولا تنابزوا بالالقاب سورة الحجرات آية 11. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ , عَنْ دَاوُدَ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ أَبِي جَبِيرَةَ بْنِ الضَّحَّاكِ , قَالَ: فِينَا نَزَلَتْ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ سورة الحجرات آية 11،" قَدِمَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالرَّجُلُ مِنَّا لَهُ الِاسْمَانِ وَالثَّلَاثَةُ , فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُبَّمَا دَعَاهُمْ بِبَعْضِ تِلْكَ الْأَسْمَاءِ" , فَيُقَالُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّهُ يَغْضَبُ مِنْ هَذَا , فَنَزَلَتْ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ سورة الحجرات آية 11.
ابوجبیرہ بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ «ولا تنابزوا بالألقاب» ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے پاس (مدینہ) تشریف لائے تو ہم میں سے ہر ایک کے دو دو، تین تین نام تھے، بسا اوقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ان کا کوئی ایک نام لے کر پکارتے، تو آپ سے عرض کیا جاتا: اللہ کے رسول! فلاں شخص فلاں نام سے غصہ ہوتا ہے، تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: «ولا تنابزوا بالألقاب»”کسی کو برے القاب سے نہ پکارو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی برے القاب جن سے آدمی ناخوش ہو، اس سے مت پکارو کیونکہ یہ اپنے مسلمان بھائی کو ایذا دینا ہے، بعضوں نے کہا یہ آیت صفیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں اتری، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں، اور عرض کیا: یا رسول اللہ! لوگ مجھ کو کہتے ہیں: اے یہودیہ، یہودیوں کی بیٹی، آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے یہ کیوں نہیں کہا: میرے باپ ہاروں علیہ السلام ہیں، اور میرے چچا موسیٰ علیہ السلام، اور میرے شوہر محمد ﷺ ہیں، اللہ کی رحمت اترے ان پر اور سلام ہو سب پر۔
معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم آپس میں ایک دوسرے کی منہ پر مدح و تعریف کرنے سے بچو، کیونکہ اس طرح تعریف کرنا گویا ذبح کرنا ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11441، ومصباح الزجاجة: 1308)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/92، 93، 98، 99) (حسن)» (سند میں معبد الجہنی ضعیف ہے، صحیحین میں ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ جب کسی کی منہ پر تعریف اور خوشامد کی جائے گی تو احتمال ہے کہ آدمی میں غرور تکبر پیدا ہو جائے، اور اپنے عیب کو ہنر سمجھے اور دوسرے مسلم بھائی کو حقیر جانے۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر , حدثنا شبابة , حدثنا شعبة , عن خالد الحذاء , عن عكرمة، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة , عن ابيه , قال: مدح رجل رجلا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ويحك قطعت عنق صاحبك مرارا" , ثم قال:" إن كان احدكم مادحا اخاه , فليقل احسبه , ولا ازكي على الله احدا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , حَدَّثَنَا شَبَابَةُ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ , عن عكرمة، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: مَدَحَ رَجُلٌ رَجُلًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَيْحَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ مِرَارًا" , ثُمَّ قَالَ:" إِنْ كَانَ أَحَدُكُمْ مَادِحًا أَخَاهُ , فَلْيَقُلْ أَحْسِبُهُ , وَلَا أُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا: ”افسوس! تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی“، اس جملہ کو آپ نے کئی بار دہرایا، پھر فرمایا: ”تم میں سے اگر کوئی آدمی اپنے بھائی کی تعریف کرنا چاہے تو یہ کہے کہ میں ایسا سمجھتا ہوں، لیکن میں اللہ تعالیٰ کے اوپر کسی کو پاک نہیں کہہ سکتا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی میں یہ نہیں جانتا کہ حقیقت میں اللہ کے نزدیک یہ کیسا ہے؟ میرے نزدیک تو اچھا ہے، حدیثوں کا یہی مطلب ہے کہ منہ پر کسی کی تعریف نہ کرے، یہ بھی اس وقت جب اس شخص کے غرور میں پڑ جانے کا اندیشہ ہو، ورنہ صحیحین کی کئی حدیثوں سے منہ پر تعریف کرنے کا جواز نکلتا ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے احد پہاڑ سے فرمایا: تھم جا، تیرے اوپر کوئی نہیں ہے مگر نبی اور صدیق اور شہید اور اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ حاضر تھے، اور بعضوں نے کہا: کراہت اس وقت ہے جب مدح میں مبالغہ کرے اور جھوٹ کہے، اور بعضوں نے کہا اس وقت مکروہ ہے جب اس سے دنیاوی کام نکالنا منظور ہو، اور یہ تعریف غرض کے ساتھ ہو، «واللہ اعلم» ۔