عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے اور جس کی زیادہ مقدار نشہ لانے والی ہو اس کا تھوڑا بھی حرام ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7089، ومصباح الزجاجة: 1177) (صحیح)» (سند میں زکریا بن منظور ضعیف ہیں، لیکن دوسرے شواہد سے یہ صحیح ہے)
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی زیادہ مقدار نشہ لانے والی ہو، اس کا تھوڑا بھی حرام ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الأشربة 25 (5610)، (تحفة الأشراف: 8760)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/167، 179) (حسن صحیح)»
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور اور انگور کو ملا کر، اور کچی کھجور اور تر کھجور کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأشربة 11 (1986)، سنن النسائی/الأشربة 8 (5564)، (تحفة الأشراف: 2916)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/389) (صحیح)»
لیث بن سعد کہتے ہیں کہ مجھ سے عطاء بن ابی رباح مکی نے بیان کیا، وہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے اور وہ مرفوعاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پکی اور کچی کھجوریں ملا کر نبیذ نہ بناؤ، بلکہ ان میں سے ہر ایک کا الگ الگ نبیذ بناؤ“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأشربة 5 (1989)، سنن النسائی/الأشربة 17 (5573)، (تحفة الأشراف: 14842)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/526) (صحیح)»
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”تر اور کچی کھجوروں کو نہ ملاؤ، اور نہ ہی انگور اور کھجور کو، بلکہ ان میں سے ہر ایک کا الگ الگ نبیذ بناؤ“۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک مشک میں نبیذ تیار کرتے اس کے لیے ہم ایک مٹھی کھجور یا ایک مٹھی انگور لے لیتے، پھر اسے مشک میں ڈال دیتے، اس کے بعد اس میں پانی ڈال دیتے، اگر ہم اسے صبح میں بھگوتے تو آپ اسے شام میں پیتے، اور اگر ہم شام میں بھگوتے تو آپ اسے صبح میں پیتے۔ ابومعاویہ اپنی روایت میں یوں کہتے ہیں: ”دن میں بھگوتے تو رات میں پیتے اور رات میں بھگوتے تو دن میں پیتے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17824)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الأشربة 9 (2005)، سنن ابی داود/الأشربة 10 (3711)، سنن الترمذی/الأشربة 7 (1871)، مسند احمد (6/46، 124) (صحیح)» (سند میں نبانة بنت یزید غیر معروف ہیں، لیکن یہ حدیث ابن عباس کی حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف بنانة (أوتبالة) لا تعرف (تقريب: 8545) و للحديث شواھد ضعيفة عند أبي داود (3706،3707) و غيره و حديث مسلم (2005) و أبي داود (3711) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 499
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نبیذ تیار کی جاتی تو آپ اسے اسی دن پیتے، پھر اگلے دن، پھر تیسرے دن، اور اگر اس کے بعد بھی اس میں سے کچھ بچ جاتا تو اسے بہا دیتے یا کسی کو حکم دیتے تو وہ بہا دیتا۔
وضاحت: ۱؎: نبیذ یعنی انگور، کھجور یا کسی پھل کا شربت پینا صحیح ہے، بشرطیکہ اس میں جوش پیدا نہ ہوا، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے جو آگے آئے گی کہ نبیذ میں جو ش آ گیا تھا، تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اس کو دیوار پر مار، یہ تو وہ پیئے گا جو اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان نہ رکھتا ہو“(ابوداود، اور نسائی)، اور مسند احمد میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبیذ کو پیو جب تک شیطان اس کو نہ لے لے، کہا گیا: کتنے دن میں اس کو شیطان لیتا ہے؟ کہا: تین دن میں۔ (ملاحظہ ہو: الروضۃ الندیۃ)