جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ کو صاف نہ کرے یہاں تک کہ اسے چاٹ لے، اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأشربة 18 (2033)، (تحفة الأشراف: 2745)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/301، 331، 337، 365، 393) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ سنت ہے گو اس زمانہ میں بعض متکبر دنیا دار اس کو تہذیب کے خلاف سمجھتے ہیں، وہ خود بے تہذیب ہیں، جب آدمی پاک صاف ہو، اور ہاتھ دھو کر کھانا کھائے، تو انگلیاں چاٹنے میں کیا قباحت ہے، البتہ ہاتھ نجس ہو اور چمچہ سے کھانا کھائے تو نہ چاٹے، اس سے پہلا ادب یہ بتلایا گیا ہے کہ «بسم اللہ» پڑھ کر کھانے یا پینے کا آغاز کیا جائے، دوسرا ادب یہ کہ داہنے ہاتھ سے کھایا جائے، اور تیسرا ادب یہ ہے کہ اپنے سامنے اور اپنے قریب سے کھایا جائے،اس صورت میں ہے کہ جب کھانا کسی بڑے برتن (طباق سینی یا تھالی وغیرہ) میں ہو اور بیک وقت کئی افراد مل کر کھا رہے ہوں، اور کھانا بھی ایک ہی قسم کا ہو اگر مختلف اقسام کی چیزیں ہوں، تو پھر دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی ہاتھ بڑھا کر چیز لینا جائز ہو گا۔
ام عاصم بیان کرتی ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام نبیشہ رضی اللہ عنہ آئے، اس وقت ہم ایک بڑے پیالے میں کھانا کھا رہے تھے، انہوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”جو شخص کسی بڑے پیالے میں کھاتا ہے پھر چاٹ کر صاف کرتا ہے، اس کے لیے یہ پیالہ استغفار کرتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأطعمة 11 (1804)، (تحفة الأشراف: 11588)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/76)، سنن الدارمی/الأطمة 7 (2070) (ضعیف)» (سند میں ام عاصم مجہول الحال ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف [3271۔3272] إسناده ضعيف ترمذي (1804) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 493
معلی بن راشد ابوالیمان بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے میری دادی نے ہذیل کے نبیشہ الخیر نامی شخص سے نقل کیا کہ ایک بار جب ہم اپنے ایک بڑے پیالے میں کھا رہے تھے نبیشہ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو شخص کسی پیالے میں کھائے، اور اسے چاٹ کر صاف کر لے تو یہ پیالہ اس کے لیے استغفار کرے گا“۔
تخریج الحدیث: «أنظر ما قبلہ (ضعیف)» (سند میں ام عاصم مجہول الحال ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ۔3272] إسناده ضعيف ترمذي (1804) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 493
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دستر خوان لگایا جائے تو ہر شخص کو اس جانب سے کھانا چاہیئے جو اس سے قریب ہو، وہ اپنے ساتھی کے سامنے سے نہ کھائے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7327، ومصباح الزجاجة: 1124) (ضعیف جدا)» (عبدالاعلی بن اعین نے ابن ابی کثیر سے منکر احادیث روایت کی ہے، نیز ملاحظہ ہو: المشکاة: 4254)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديث الآتي (3295) عبد الأعلي بن أعين: ضعيف (تقريب: 3729) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 493
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا العلاء بن الفضل بن عبد الملك بن ابي السوية ، حدثني عبيد الله بن عكراش ، عن ابيه عكراش بن ذؤيب ، قال: اتي النبي صلى الله عليه وسلم بجفنة كثيرة الثريد والودك , فاقبلنا ناكل منها، فخبطت يدي في نواحيها، فقال:" يا عكراش كل من موضع واحد، فإنه طعام واحد"، ثم اتينا بطبق فيه الوان من الرطب، فجالت يد رسول الله صلى الله عليه وسلم في الطبق، وقال:" يا عكراش كل من حيث شئت، فإنه غير لون واحد". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي السَّوِيَّةِ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِكْرَاشٍ ، عَنْ أَبِيهِ عِكْرَاشِ بْنِ ذُؤَيْبٍ ، قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَفْنَةٍ كَثِيرَةِ الثَّرِيدِ وَالْوَدَكِ , فَأَقْبَلْنَا نَأْكُلُ مِنْهَا، فَخَبَطْتُ يَدِي فِي نَوَاحِيهَا، فَقَالَ:" يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ مَوْضِعٍ وَاحِدٍ، فَإِنَّهُ طَعَامٌ وَاحِدٌ"، ثُمَّ أُتِينَا بِطَبَقٍ فِيهِ أَلْوَانٌ مِنَ الرُّطَبِ، فَجَالَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّبَقِ، وَقَالَ:" يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ حَيْثُ شِئْتَ، فَإِنَّهُ غَيْرُ لَوْنٍ وَاحِدٍ".
عکراش بن ذویب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک لگن لایا گیا جس میں بہت سا ثرید اور روغن تھا، ہم سب اس میں سے کھانے لگے، میں اپنا ہاتھ پیالے میں ہر طرف پھرا رہا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عکراش! ایک جگہ سے کھاؤ، اس لیے کہ یہ پورا ایک ہی کھانا ہے“، پھر ایک طبق لایا گیا جس میں مختلف اقسام کی تازہ کھجوریں تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ طبق میں چاروں طرف گھومنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عکراش! جہاں سے جی چاہے کھاؤ، اس لیے کہ اس میں کئی طرح کی کھجوریں ہیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأطعمة 41 (1848)، (تحفة الأشراف: 10016) (ضعیف)» (علاء بن فضل ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 5098)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1848) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 493
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پیالا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے اطراف سے کھاؤ، اور اس کی چوٹی یعنی درمیان کو چھوڑ دو کہ اس میں برکت ہوتی ہے“۔
واثلہ بن اسقع لیثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثرید کے اونچے حصہ پر ہاتھ رکھا، اور فرمایا: ”بسم اللہ کہہ کر اس کے اطراف سے کھاؤ، اور اس کے اونچے حصہ کو چھوڑ دو، اس لیے کہ برکت اس کے اوپر والے حصے سے ہی آتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11743، ومصباح الزجاجة: 1125)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/490) (صحیح)»
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کھانا رکھ دیا جائے تو اس کے کنارے سے لو، اور درمیان کو چھوڑ دو، اس لیے کہ برکت اس کے درمیان میں نازل ہوتی ہے“۔
(مرفوع) حدثنا سويد بن سعيد ، حدثنا يزيد بن زريع ، عن يونس ، عن الحسن ، عن معقل بن يسار ، قال: بينما هو يتغدى , إذ سقطت منه لقمة , فتناولها فاماط ما كان فيها من اذى فاكلها، فتغامز به الدهاقين، فقيل: اصلح الله الامير، إن هؤلاء الدهاقين يتغامزون من اخذك اللقمة وبين يديك هذا الطعام، قال: إني لم اكن لادع ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم لهذه الاعاجم،" إنا كنا نامر احدنا , إذا سقطت لقمته , ان ياخذها فيميط ما كان فيها من اذى وياكلها، ولا يدعها للشيطان". (مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ ، قَالَ: بَيْنَمَا هُوَ يَتَغَدَّى , إِذْ سَقَطَتْ مِنْهُ لُقْمَةٌ , فَتَنَاوَلَهَا فَأَمَاطَ مَا كَانَ فِيهَا مِنْ أَذًى فَأَكَلَهَا، فَتَغَامَزَ بِهِ الدَّهَاقِينُ، فَقِيلَ: أَصْلَحَ اللَّهُ الْأَمِيرَ، إِنَّ هَؤُلَاءِ الدَّهَاقِينَ يَتَغَامَزُونَ مِنْ أَخْذِكَ اللُّقْمَةَ وَبَيْنَ يَدَيْكَ هَذَا الطَّعَامُ، قَالَ: إِنِّي لَمْ أَكُنْ لِأَدَعَ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِهَذِهِ الْأَعَاجِمِ،" إِنَّا كُنَّا نَأْمُرُ أَحَدُنَا , إِذَا سَقَطَتْ لُقْمَتُهُ , أَنْ يَأْخُذَهَا فَيُمِيطَ مَا كَانَ فِيهَا مِنْ أَذًى وَيَأْكُلَهَا، وَلَا يَدَعَهَا لِلشَّيْطَانِ".
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دوپہر کا کھانا کھانے کے دوران ایک لقمہ ان سے گر گیا، تو انہوں نے اسے اٹھایا، اور اس میں لگے کچرے کو صاف کیا، پھر اسے کھا لیا (یہ دیکھ کر) عجمی کسان ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارے کرنے لگے، لوگوں نے کہا: اللہ امیر کا بھلا کرے، آپ کے سامنے یہ کھانا موجود ہوتے ہوئے اس لقمے کو آپ کے اٹھانے پر یہ کسان لوگ آنکھوں سے باہم اشارے کر رہے ہیں، وہ بولے: ان عجمیوں کی (چہ مہ گوئیوں اور اشارے بازیوں کی) وجہ سے میں اس بات کو ترک کرنے والا نہیں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، ہم میں سے جب کسی کا لقمہ گر جاتا تو ہم اس سے کہتے کہ وہ اسے اٹھا لے اور اس میں لگی گندگی کو صاف کر لے پھر اسے کھا لے، اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑ دے ا؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11469، ومصباح الزجاجة: 1126)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الأطعمة 8 (2072) (ضعیف الإسناد)» (حسن بصری کا سماع معقل بن یسار سے نہیں ہے، اس لئے انقطاع کی وجہ سے یہ ضعیف ہے، لیکن مرفوع حدیث جابر و انس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے)
وضاحت: ۱؎: یہ حدیثیں جن میں شیطان کے کھانے کا ذکر ہے اپنے ظاہری معنوں پر ہیں، اور مجازی معنی مراد نہیں ہے، اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو علم اپنے نبی کو دیا تھا، اس میں یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرشتوں اور شیاطین کا حال بھی جانتے تھے، اور ان کا پھرنا زمین میں ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد والمرفوع منه صحيح من حديث جابر وأنس م
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ”منقطع،قال أبو حاتم: الحسن لم يسمع من معقل بن يسار“ والحديث الآتي في سنن ابن ماجه (الأصل:3279) يُغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 493
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کے ہاتھ سے لقمہ گر جائے، تو اسے چاہیئے کہ اس پر جو گندگی لگ گئی ہے اسے پونچھ لے اور اسے کھا لے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأشربة 18 (2033)، سنن الترمذی/الأطعمة 11 (1802)، (تحفة الأشراف: 2305)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/315) (صحیح)»