سنن ابن ماجه
كتاب الأطعمة
کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل
13. بَابُ : اللُّقْمَةِ إِذَا سَقَطَتْ
باب: ہاتھ سے لقمہ گر جائے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 3278
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ ، قَالَ: بَيْنَمَا هُوَ يَتَغَدَّى , إِذْ سَقَطَتْ مِنْهُ لُقْمَةٌ , فَتَنَاوَلَهَا فَأَمَاطَ مَا كَانَ فِيهَا مِنْ أَذًى فَأَكَلَهَا، فَتَغَامَزَ بِهِ الدَّهَاقِينُ، فَقِيلَ: أَصْلَحَ اللَّهُ الْأَمِيرَ، إِنَّ هَؤُلَاءِ الدَّهَاقِينَ يَتَغَامَزُونَ مِنْ أَخْذِكَ اللُّقْمَةَ وَبَيْنَ يَدَيْكَ هَذَا الطَّعَامُ، قَالَ: إِنِّي لَمْ أَكُنْ لِأَدَعَ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِهَذِهِ الْأَعَاجِمِ،" إِنَّا كُنَّا نَأْمُرُ أَحَدُنَا , إِذَا سَقَطَتْ لُقْمَتُهُ , أَنْ يَأْخُذَهَا فَيُمِيطَ مَا كَانَ فِيهَا مِنْ أَذًى وَيَأْكُلَهَا، وَلَا يَدَعَهَا لِلشَّيْطَانِ".
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دوپہر کا کھانا کھانے کے دوران ایک لقمہ ان سے گر گیا، تو انہوں نے اسے اٹھایا، اور اس میں لگے کچرے کو صاف کیا، پھر اسے کھا لیا (یہ دیکھ کر) عجمی کسان ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارے کرنے لگے، لوگوں نے کہا: اللہ امیر کا بھلا کرے، آپ کے سامنے یہ کھانا موجود ہوتے ہوئے اس لقمے کو آپ کے اٹھانے پر یہ کسان لوگ آنکھوں سے باہم اشارے کر رہے ہیں، وہ بولے: ان عجمیوں کی (چہ مہ گوئیوں اور اشارے بازیوں کی) وجہ سے میں اس بات کو ترک کرنے والا نہیں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، ہم میں سے جب کسی کا لقمہ گر جاتا تو ہم اس سے کہتے کہ وہ اسے اٹھا لے اور اس میں لگی گندگی کو صاف کر لے پھر اسے کھا لے، اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑ دے ا؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11469، ومصباح الزجاجة: 1126)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الأطعمة 8 (2072) (ضعیف الإسناد)» (حسن بصری کا سماع معقل بن یسار سے نہیں ہے، اس لئے انقطاع کی وجہ سے یہ ضعیف ہے، لیکن مرفوع حدیث جابر و انس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے)
وضاحت: ۱؎: یہ حدیثیں جن میں شیطان کے کھانے کا ذکر ہے اپنے ظاہری معنوں پر ہیں، اور مجازی معنی مراد نہیں ہے، اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو علم اپنے نبی کو دیا تھا، اس میں یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرشتوں اور شیاطین کا حال بھی جانتے تھے، اور ان کا پھرنا زمین میں ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد والمرفوع منه صحيح من حديث جابر وأنس م
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قال البوصيري: ”منقطع،قال أبو حاتم: الحسن لم يسمع من معقل بن يسار“
والحديث الآتي في سنن ابن ماجه (الأصل:3279) يُغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 493
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3278 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3278
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے جیسا کہ ہمارے فاضل محقق نے اس طرف اشارہ کیا ہے اور مزید کہا ہے کہ درج ذیل روایت اس کی شاہد ہے لہٰذا مذکورہ روایت ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت اور قابل عمل ہے۔
علاوہ ازیں صحیح مسلم میں حضرت جابر کی حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
جب تم میں کسی سےلقمہ گر پڑے تو اسے چاہیے کہ اسے جو گردوغبار لگا ہو اسے دور کرے پھر اس (لقمے)
کو کھا لے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے .....، (صحيح مسلم، الأشربة، باب استحباب لعق الأصابع والقصعة وأكل اللقمة الساقطة بعد مسح ما يصيبها من أذى.......، حديث: 2033)
حضرت انس کی حدیث میں بھی رسول اللہ ﷺ کا ارشاد انھی الفاظ میں روایت کیا گیا ہے۔ (مسلم۔
حوالہ مذکورہ)
(2)
اگر ہاتھ سے گرا ہوا لقمہ اٹھایا نہ جائے تو شیطان اسے کھا لیتا ہے یا شیطان کو اس سے کھانے کوملتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3278