عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے سنا (ہشام نے اپنی روایت میں ”منبر پر“ کا اضافہ کیا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے تہ بند میسر نہ ہو تو وہ پاجامہ پہن لے، اور جسے جوتے نہ مل سکیں وہ موزے پہن لے“، ہشام اپنی روایت میں کہتے ہیں: ”وہ پاجامے پہنے جب تہ بند نہ ہو“۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو جوتے نہ پائے تو وہ موزے پہن لے، اور انہیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کر لے“۔
تخریج الحدیث: «حدیث نافع تقدم تخریجہ، (2929)، وحدیث عبد اللہ بن دینار تقدم تخریجہ، (2930)، (تحفة الأشراف: 2930) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن إدريس ، عن محمد بن إسحاق ، عن يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير ، عن ابيه ، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت:" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كنا بالعرج نزلنا، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم وعائشة إلى جنبه، وانا إلى جنب ابي بكر، فكانت زمالتنا وزمالة ابي بكر واحدة، مع غلام ابي بكر، قال: فطلع الغلام وليس معه بعيره، فقال له: اين بعيرك؟، قال: اضللته البارحة، قال: معك بعير واحد تضله؟، قال: فطفق يضربه، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: انظروا إلى هذا المحرم ما يصنع؟". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعَرْجِ نَزَلْنَا، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَائِشَةُ إِلَى جَنْبِهِ، وَأَنَا إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَانَتْ زِمَالَتُنَا وَزِمَالَةُ أَبِي بَكْرٍ وَاحِدَةً، مَعَ غُلَامِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: فَطَلَعَ الْغُلَامُ وَلَيْسَ مَعَهُ بَعِيرُهُ، فَقَالَ لَهُ: أَيْنَ بَعِيرُكَ؟، قَالَ: أَضْلَلْتُهُ الْبَارِحَةَ، قَالَ: مَعَكَ بَعِيرٌ وَاحِدٌ تُضِلُّهُ؟، قَالَ: فَطَفِقَ يَضْرِبُهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: انْظُرُوا إِلَى هَذَا الْمُحْرِمِ مَا يَصْنَعُ؟".
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کے لیے) نکلے، جب مقام عرج میں پہنچے تو ہم نے پڑاؤ ڈال دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس بیٹھ گئیں، اور میں (اپنے والد) ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس، اس سفر میں میرا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سامان اٹھانے والا اونٹ ایک تھا جو ابوبکر کے غلام کے ساتھ تھا، اتنے میں غلام آیا، اس کے ساتھ اونٹ نہیں تھا تو انہوں نے اس سے پوچھا: تمہارا اونٹ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا: کل رات کہیں غائب ہو گیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: تمہارے ساتھ ایک ہی اونٹ تھا، اور وہ بھی تم نے گم کر دیا، پھر وہ اسے مارنے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”دیکھو اس محرم کو کیا کر رہا ہے“؟ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 30 (1770)، (تحفة الأشراف: 15715) (حسن)» (سند میں محمد اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، نیزملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 1595)
وضاحت: ۱؎: یعنی مار پیٹ، لڑائی جھگڑا احرام کی حالت میں یہ باتیں منع ہیں۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (1818) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 483
(مرفوع) حدثنا ابو مصعب ، حدثنا مالك ، عن زيد بن اسلم ، عن إبراهيم بن عبد الله بن حنين ، عن ابيه : ان عبد الله بن عباس، والمسور بن مخرمة اختلفا بالابواء، فقال عبد الله بن عباس: يغسل المحرم راسه، وقال المسور: لا يغسل المحرم راسه، فارسلني ابن عباس إلى ابي ايوب الانصاري اساله عن ذلك، فوجدته يغتسل بين القرنين، وهو يستتر بثوب فسلمت عليه، فقال: من هذا؟، قلت: انا عبد الله بن حنين، ارسلني إليك عبد الله بن عباس، اسالك: كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغسل راسه، وهو محرم؟، قال: فوضع ابو ايوب يده على الثوب، فطاطاه حتى بدا لي راسه، ثم قال لإنسان يصب عليه: اصبب فصب على راسه، ثم حرك راسه بيديه، فاقبل بهما وادبر، ثم قال: هكذا رايته صلى الله عليه وسلم يفعل". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ اخْتَلَفَا بِالْأَبْوَاءِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ، وَقَالَ الْمِسْوَرُ: لَا يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ، فَأَرْسَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ إِلَى أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ أَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ بَيْنَ الْقَرْنَيْنِ، وَهُوَ يَسْتَتِرُ بِثَوْبٍ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟، قُلْتُ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُنَيْنٍ، أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، أَسْأَلُكَ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ، وَهُوَ مُحْرِمٌ؟، قَالَ: فَوَضَعَ أَبُو أَيُّوبَ يَدَهُ عَلَى الثَّوْبِ، فَطَأْطَأَهُ حَتَّى بَدَا لِي رَأْسُهُ، ثُمَّ قَالَ لِإِنْسَانٍ يَصُبُّ عَلَيْهِ: اصْبُبْ فَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ حَرَّكَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ، فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ".
عبداللہ بن حنین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم کے درمیان مقام ابواء میں اختلاف ہوا تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: محرم اپنا سر دھو سکتا ہے، اور مسور رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں دھو سکتا، چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، تاکہ میں ان سے اس سلسلے میں معلوم کروں، میں نے انہیں کنویں کے کنارے دو لکڑیوں کے درمیان ایک کپڑے کی آڑ لیے ہوئے نہاتے پایا، میں نے سلام عرض کیا، تو انہوں نے پوچھا: کون ہے؟ میں نے کہا: میں عبداللہ بن حنین ہوں، مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ میں آپ سے معلوم کروں کہ حالت احرام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر کو کیسے دھوتے تھے، ابوایوب رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا اور اسے جھکایا یہاں تک کہ مجھے ان کا سر دکھائی دینے لگا، پھر ایک شخص سے جو پانی ڈال رہا تھا، کہا: پانی ڈالو، تو اس نے آپ کے سر پر پانی ڈالا، پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے سر کو ملا، اور دونوں ہاتھ سر کے آگے سے لے گئے، اور پیچھے سے لائے، پھر بولے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: حالت احرام میں سر کا دھونا صرف پانی سے جائز ہے کسی بھی ایسی چیز سے پرہیز ضروری ہے جس سے جوؤں کے مرنے کا خوف ہو اسی طرح سر دھوتے وقت اتنا زور سے سے نہ رگڑیں کہ بال گریں۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام کی حالت میں تھے، جب ہمیں کوئی سوار ملتا تو ہم اپنا کپڑا اپنے سروں کے اوپر سے لٹکا لیتے، اور جب سوار آگے بڑھ جاتا تو ہم اسے اٹھا لیتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 34 (1833)، (تحفة الأشراف: 17577)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/30) (حسن)» (سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف ہیں، لیکن اسماء رضی اللہ عنہا سے یہ ثابت ہے، اس لیے اس سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم: 433)
وضاحت: ۱؎: احرام کی حالت میں عورتوں کو اپنے چہرے پر ”نقاب“ لگانا منع ہے، مگر حدیث میں جس نقاب کا ذکر ہے وہ اس وقت ایسا ہوتا تھا جو چہرے پر باندھا جاتا تھا، برصغیر ہند و پاک کے موجودہ برقعوں کا ”نقاب“ چادر کے آنچل کی طرح ہے جس کو ازواج مطہرات مردوں کے گزرنے کے وقت چہرے پرلٹکا لیا کرتی تھیں، (دیکھئے حدیث رقم ۱۸۳۳) اس لیے اس نقاب کو بوقت ضرورت عورتیں چہرے پر لٹکا سکتی ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (1833) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 483
ابوبکر بن عبداللہ بن زبیر اپنی جدّہ (دادی یا نانی) سے روایت کرتے ہیں (راوی کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ وہ اسماء بنت ابی بکر ہیں یا سعدیٰ بنت عوف) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضباعہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور فرمایا: ”پھوپھی جان! حج کرنے میں آپ کے لیے کون سی چیز رکاوٹ ہے“؟ انہوں نے عرض کیا: میں ایک بیمار عورت ہوں اور مجھے اندیشہ ہے کہ میں پہنچ نہیں سکوں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپ احرام باندھ لیں اور شرط کر لیں کہ جس جگہ بہ سبب بیماری آگے نہیں جا سکوں گی، وہیں حلال ہو جاؤں گی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15892، ومصباح الزجاجة: 1033)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/349) (صحیح)» (سند میں ابوبکر بن عبد اللہ مستور ہیں، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 4 / 187)
ضباعہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں اس وقت بیمار تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا امسال آپ کا ارادہ حج کرنے کا نہیں ہے“؟ میں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں بیمار ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حج کرو اور یوں (نیت میں) کہو: اے اللہ جہاں تو مجھے روک دے گا میں وہیں حلال ہو جاؤں گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15914، ومصباح الزجاجة: 1034)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/360) (صحیح)»
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: میں ایک بھاری بھر کم عورت ہوں، اور میں حج کا ارادہ بھی رکھتی ہوں، تو میں تلبیہ کیسے پکاروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم تلبیہ پکارو اور (اللہ سے) شرط کر لو کہ جہاں تو مجھے روکے گا، میں وہیں حلال ہو جاؤں گی“۱؎۔