سنن ابن ماجه
كتاب المناسك
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
22. بَابُ : الْمُحْرِمِ يَغْسِلُ رَأْسَهُ
باب: محرم اپنا سر دھو سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 2934
حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ اخْتَلَفَا بِالْأَبْوَاءِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ، وَقَالَ الْمِسْوَرُ: لَا يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ، فَأَرْسَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ إِلَى أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ أَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ بَيْنَ الْقَرْنَيْنِ، وَهُوَ يَسْتَتِرُ بِثَوْبٍ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟، قُلْتُ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُنَيْنٍ، أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، أَسْأَلُكَ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ، وَهُوَ مُحْرِمٌ؟، قَالَ: فَوَضَعَ أَبُو أَيُّوبَ يَدَهُ عَلَى الثَّوْبِ، فَطَأْطَأَهُ حَتَّى بَدَا لِي رَأْسُهُ، ثُمَّ قَالَ لِإِنْسَانٍ يَصُبُّ عَلَيْهِ: اصْبُبْ فَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ حَرَّكَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ، فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ".
عبداللہ بن حنین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم کے درمیان مقام ابواء میں اختلاف ہوا تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: محرم اپنا سر دھو سکتا ہے، اور مسور رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں دھو سکتا، چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، تاکہ میں ان سے اس سلسلے میں معلوم کروں، میں نے انہیں کنویں کے کنارے دو لکڑیوں کے درمیان ایک کپڑے کی آڑ لیے ہوئے نہاتے پایا، میں نے سلام عرض کیا، تو انہوں نے پوچھا: کون ہے؟ میں نے کہا: میں عبداللہ بن حنین ہوں، مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ میں آپ سے معلوم کروں کہ حالت احرام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر کو کیسے دھوتے تھے، ابوایوب رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا اور اسے جھکایا یہاں تک کہ مجھے ان کا سر دکھائی دینے لگا، پھر ایک شخص سے جو پانی ڈال رہا تھا، کہا: پانی ڈالو، تو اس نے آپ کے سر پر پانی ڈالا، پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے سر کو ملا، اور دونوں ہاتھ سر کے آگے سے لے گئے، اور پیچھے سے لائے، پھر بولے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/جزاء الصید 14 (1840)، صحیح مسلم/الحج 13 (1205)، سنن ابی داود/الحج 38 (1840)، سنن النسائی/الحج 27 (2666)، (تحفة الأشراف: 3463)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 2 (4)، مسند احمد (5/416، 418، 421)، سنن الدارمی/المناسک 6 (1834) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حالت احرام میں سر کا دھونا صرف پانی سے جائز ہے کسی بھی ایسی چیز سے پرہیز ضروری ہے جس سے جوؤں کے مرنے کا خوف ہو اسی طرح سر دھوتے وقت اتنا زور سے سے نہ رگڑیں کہ بال گریں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2934 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2934
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
کسی علمی مسئلے میں اختلاف رائے مذموم نہیں بلکہ اپنی رائے کی غلطی واضح ہو جانے کے بعد اس پر اصرار کرنا برا ہے۔
(2)
اختلاف ہوجانے کی صورت میں اپنے سے بڑے عالم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
(3)
عالم کو چاہیے کہ مسئلے کے ساتھ دلیل بھی ذکر کردے تاکہ سائل مطمئن ہوجائے۔
(4)
کپڑا پہن کر نہاتے وقت بھی دوسروں سے پردہ کرنا بہتر ہے۔
(5)
جن اعضاء کو دیکھنا ممنوع ہے ان کے علاوہ باقی جسم دیکھنا جائز ہے جیسے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے ساتھ دوسرا آدمی موجود تھا جو انھیں غسل میں مدد دے رہا تھا اور ظاہر ہے کہ صحابی نے نہانے کے لیے اوڑھنے والی چادر اتاری ہوئی ہوگی۔
(6)
وضو کرنے اور نہانے میں دوسرے سے مدد لینا جائز ہے۔
(7)
احرام کی حالت میں نہانا اور سر دھونا جائز ہے لیکن خوشبودار صابن استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(8)
سر دھوتے وقت بالوں کو حرکت دینا جائز ہے تاکہ اچھی طرح صفائی ہوجائے اس طرح اگر کوئی بال ٹوٹ جائے تو وہ بال کاٹنے کے حکم میں نہیں لہٰذا کوئی فدیہ وغیرہ واجب نہیں ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2934