جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے بچے کو حج کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرتے ہوئے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اس کا بھی حج ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”ہاں اور اجر و ثواب تمہارے لیے ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نابالغ لڑکے کا حج صحیح ہے، چونکہ اس کا ولی اس کی جانب سے کم عمری کی وجہ سے حج کے ارکان ادا کرتا ہے اس لیے وہ ثواب کا مستحق ہو گا، البتہ یہ حج اس بچے سے حج کی فرضیت کو ساقط نہیں کرے گا، بلوغت کے بعد استطاعت کی صورت میں اسے حج کے فریضے کی ادائیگی کرنی ہو گی، اور بچپن کا حج نفل قرار پائے گا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو مقام شجرہ میں نفاس آ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اسماء سے کہیں کہ ”وہ غسل کر کے تلبیہ پکاریں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: شجرہ: ذوالحلیفہ میں ایک درخت تھا جس کی مناسبت سے اس جگہ کا نام شجرہ پڑ گیا۔ اس وقت عوام میں یہ مقام «بئر علی» کے نام سے مشہور ہے۔ صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب انہیں حیض آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ ”ہر ایک کام کرو جو حاجی کرتے ہیں، فقط بیت اللہ (خانہ کعبہ) کا طواف نہ کرو جب تک کہ غسل نہ کر لو“۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا خالد بن مخلد ، عن سليمان بن بلال ، حدثنا يحيى بن سعيد ، انه سمع القاسم بن محمد ، يحدث عن ابيه ، عن ابي بكر :" انه خرج حاجا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه اسماء بنت عميس، فولدت بالشجرة محمد بن ابي بكر، فاتى ابو بكر النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره، فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم: ان يامرها ان تغتسل، ثم تهل بالحج، وتصنع ما يصنع الناس، إلا انها لا تطوف بالبيت". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ :" أَنَّهُ خَرَجَ حَاجًّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، فَوَلَدَتْ بِالشَّجَرَةِ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَتَى أَبُو بَكْرٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ يَأْمُرَهَا أَنْ تَغْتَسِلَ، ثُمَّ تُهِلَّ بِالْحَجِّ، وَتَصْنَعَ مَا يَصْنَعُ النَّاسُ، إِلَّا أَنَّهَا لَا تَطُوفُ بِالْبَيْتِ".
ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے نکلے، ان کے ساتھ (ان کی بیوی) اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا تھیں، ان سے مقام شجرہ (ذوالحلیفہ) میں محمد بن ابی بکر کی ولادت ہوئی، ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ کو اس کی اطلاع دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسماء سے کہیں کہ ”وہ غسل کریں، پھر تلبیہ پکاریں اور احرام باندھیں، اور وہ تمام کام انجام دیں، جو دوسرے لوگ کریں البتہ وہ بیت اللہ کا طواف نہ کریں“۱؎۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو محمد بن ابی بکر کی (ولادت کی) وجہ سے نفاس (کا خون) آیا، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غسل کرنے، اور کپڑے کا لنگوٹ کس کر احرام باندھ لینے کا حکم دیا۔
(مرفوع) حدثنا ابو مصعب ، حدثنا مالك بن انس ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" يهل اهل المدينة من ذي الحليفة، واهل الشام من الجحفة، واهل نجد من قرن"، فقال عبد الله: اما هذه الثلاثة، فقد سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبلغني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" ويهل اهل اليمن من يلملم". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَأَهْلُ الشَّامِ مِنْ الْجُحْفَةِ، وَأَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ"، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَمَّا هَذِهِ الثَّلَاثَةُ، فَقَدْ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل مدینہ ذو الحلیفہ سے تلبیہ پکاریں اور احرام باندھیں، اہل شام جحفہ سے، اور اہل نجد قرن سے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رہیں یہ تینوں (میقاتیں) تو انہیں میں نے (براہ راست) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، اور مجھے یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل یمن یلملم سے تلبیہ پکاریں، (اور احرام باندھیں)“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حاجی یا معتمر کو احرام باندھنا اور تلبیہ پکارنا ضروری ہوتا ہے، البتہ حاجی یا معتمر مکہ میں یا میقات کے اندر رہ رہا ہو تو اس کے لیے گھر سے نکلتے وقت احرام باندھ لینا ہی کافی ہے میقات پر جانا ضروری نہیں۔ اور یلملم ایک پہاڑی ہے جو مکہ سے دو منزل پر ہے، برصغیر (ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) سے بحری جہاز سے آنے والے لوگ اس کے «محاذاۃ» سے احرام باندھتے اورتلبیہ پکارتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا إبراهيم بن يزيد ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" مهل اهل المدينة من ذي الحليفة، ومهل اهل الشام من الجحفة، ومهل اهل اليمن من يلملم، ومهل اهل نجد من قرن، ومهل اهل المشرق من ذات عرق، ثم اقبل بوجهه للافق، ثم قال: اللهم اقبل بقلوبهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" مُهَلُّ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الشَّامِ مِنْ الْجُحْفَةِ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ، وَمُهَلُّ أَهْلِ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْمَشْرِقِ مِنْ ذَاتِ عِرْقٍ، ثُمَّ أَقْبَلَ بِوَجْهِهِ لِلْأُفُقِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ أَقْبِلْ بِقُلُوبِهِمْ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب کیا اور فرمایا: ”اہل مدینہ کے تلبیہ پکارنے (اور احرام باندھنے) کا مقام ذو الحلیفہ ہے، اہل شام کا جحفہ، اہل یمن کا یلملم اور اہل نجد کا قرن ہے، اور مشرق سے آنے والوں کے احرام کا مقام ذات عرق ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ آسمان کی طرف کیا اور فرمایا: ”اے اللہ! ان کے دل ایمان کی طرف لگا دے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2652، ومصباح الزجاجة: 1027)، وقد أخر جہ: صحیح مسلم/الحج 2 (1183)، مسند احمد (2/181، 3/333، 336) (صحیح)» (اس سند میں ابراہیم الہجری ضعیف ہے، لیکن متن صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 4؍ 176، تراجع الألبانی: رقم: 526)
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مشرق کی طرف کفر کا غلبہ تھا، اس وجہ سے وہاں کے لوگوں کے لیے دعا کی، اللہ تعالیٰ نے مشرق والوں کو مسلمان کر دیا، کروڑوں مسلمان ہندوستان میں گزرے جو مکہ سے مشرق کی جانب ہے، بعض کہتے ہیں کہ دوسری حدیث میں ہے کہ مشرق سے فتنہ نمودار ہو گا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لیے ہدایت کی دعا کی۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنا پاؤں رکاب میں رکھتے اور اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہو جاتی، تو آپ ذو الحلیفہ کی مسجد کے پاس سے لبیک پکارتے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: تلبیہ پکارنے کے سلسلے میں صحیح اور درست بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی الحلیفہ میں نماز ظہرکے بعد تلبیہ پکارا، اور اونٹنی پر سوار ہوئے تو دوبارہ تلبیہ پکارا، اسی طرح جب آپ مقام بیدا میں پہنچے تو وہاں بھی تلبیہ پکارا، آپ کے ساتھ حج کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت تھی ہر صحابی ہر جگہ موجود نہیں رہا، اس لیے جس نے جیسا سنا روایت کر دیا لیکن دوسرے کی نفی نہیں کی۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مقام شجرہ (ذو الحلیفہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے پاؤں کے پاس تھا، جب اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپ نے کہا: «لبيك بعمرة وحجة معا»”میں عمرہ و حج دونوں کی ایک ساتھ نیت کرتے ہوئے حاضر ہوں“، یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 452، ومصباح الزجاجة: 1029)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/183، 225) (صحیح الإسناد)»
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا ابو معاوية ، وابو اسامة ، وعبد الله بن نمير ، عن عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: تلقفت التلبية من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو يقول:" لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة، لك والملك، لا شريك لك"، قال: وكان ابن عمر يزيد فيها، لبيك لبيك لبيك وسعديك، والخير في يديك، لبيك والرغباء إليك، والعمل". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَأَبُو أُسَامَةَ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: تَلَقَّفْتُ التَّلْبِيَةَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ:" لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ"، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَزِيدُ فِيهَا، لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ، وَالْعَمَلُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے تلبیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا، آپ فرماتے تھے: «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك»”حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، حمد و ثنا، نعمتیں اور فرماں روائی تیری ہی ہے، تیرا (ان میں) کوئی شریک نہیں“۔ راوی کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اس میں یہ اضافہ کرتے: «لبيك لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك لبيك والرغباء إليك والعمل»”حاضر ہوں، اے اللہ! تیری خدمت میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، نیک بختی حاصل کرتا ہوں، خیر (بھلائی) تیرے ہاتھ میں ہے، تیری ہی طرف تمام رغبت اور عمل ہے“۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا: «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك»”حاضر ہوں اے اللہ! تیری خدمت میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، حمد و ثناء، نعمتیں اور فرماں روائی تیری ہی ہے، ان میں کوئی شریک نہیں“۔