عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں جانے کے لیے درج کر لیا گیا ہے، اور میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”جاؤ اس کے ساتھ حج کرو“۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا عورتوں پر بھی جہاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، لیکن ان پر ایسا جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں ہے اور وہ حج اور عمرہ ہے“۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حج ہر ناتواں اور ضعیف کا جہاد ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18211، ومصباح الزجاجة: 1023)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الحج 4 (2629)، مسند احمد (2/21، 6/294، 303، 314) (حسن)» (ابوجعفر الباقر کا سماع ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں ہے، لیکن شواہد و متابعات سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 3519)۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو «لبیک عن شبرمہ»”حاضر ہوں شبرمہ کی طرف سے“ کہتے ہوئے سنا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”شبرمہ کون ہے“؟ اس نے بتایا: وہ میرا رشتہ دار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم نے کبھی حج کیا ہے“؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اس حج کو اپنی طرف سے کر لو، پھر (آئندہ) شبرمہ کی طرف سے کرنا“۱؎۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا: کیا میں اپنے والد کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اپنے والد کی طرف سے حج کرو، اگر تم ان کی نیکی نہ بڑھا سکے تو ان کی برائی میں اضافہ مت کرو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی باپ کے بڑے احسانات ہیں، آدمی کو چاہئے کہ اپنے والد کی طرف سے خیر خیرات اور اچھے کام کرے، جیسے صدقہ اور حج وغیرہ، اگر یہ نہ ہو سکے تو اتنا ضروری ہے کہ والد کے ساتھ برائی نہ کرے، وہ برائی یہ ہے دوسرے لوگوں سے لڑ کر والد کو گالیاں دلوائے یا برا کہلوائے یا ان کے والد کو برا کہہ کر، جیسے دوسری حدیث میں آیا ہے کہ بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کو گالی دے، لوگوں نے عرض کیا: اپنے والد کو کون گالی دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طرح سے کہ دوسرے کے والد کو گالی دے وہ اس کے والد کو گالی دے“۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سفيان الثوري عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 483
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا عثمان بن عطاء ، عن ابيه ، عن ابي الغوث بن حصين ، رجل من الفرع انه استفتى النبي صلى الله عليه وسلم عن حجة كانت على ابيه مات ولم يحج، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" حج عن ابيك"، وقال النبي صلى الله عليه وسلم:" وكذلك الصيام في النذر، يقضى عنه". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي الْغَوْثِ بْنِ حُصَيْنٍ ، رَجُلٌ مِنَ الْفُرْعِ أَنَّهُ اسْتَفْتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَجَّةٍ كَانَتْ عَلَى أَبِيهِ مَاتَ وَلَمْ يَحُجَّ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" حُجَّ عَنْ أَبِيكَ"، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَكَذَلِكَ الصِّيَامُ فِي النَّذْرِ، يُقْضَى عَنْهُ".
مقام فرع کے ایک شخص ابوالغوث بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے حج کی ادائیگی کے بارے میں سوال کیا جو ان کے والد پر فرض تھا، اور وہ بغیر حج کیے مر گئے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے والد کی جانب سے حج کرو“، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”اسی طرح کا معاملہ نذر مانے ہوئے صیام کا بھی ہے کہ ان کی قضاء اس کی طرف سے کی جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12077، ومصباح الزجاجة: 1025) (ضعیف الإسناد)» (سند میں عثمان بن عطاء خراسانی ضعیف ہیں، بلکہ بعضوں کے نزدیک متروک، حدیث کے پہلے جملہ کے لئے آگے کی حدیث (2906) دیکھیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عطاء الخراساني لم يسمع من أبي الغوث رضي اللّٰه عنه كما في التقريب (8304) والسند ضعفه البيهقي (335/3) والبوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 483
ابورزین عقیلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں جو نہ حج کرنے کی طاقت رکھتے ہیں نہ عمرہ کرنے کی، اور نہ سواری پر سوار ہونے کی (فرمائیے! ان کے متعلق کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرو“۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ بہت ناتواں اور ضعیف ہو گئے ہیں، اور اللہ کا بندوں پر عائد کردہ فرض حج ان پر لازم ہو گیا ہے، وہ اس کو ادا کرنے کی قوت نہیں رکھتے، اگر میں ان کی طرف سے حج ادا کروں تو کیا یہ ان کے لیے کافی ہو گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“۔
حصین بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد پر حج فرض ہو گیا ہے لیکن وہ حج کرنے کی سکت نہیں رکھتے، مگر اس طرح کہ ا نہیں کجاوے کے ساتھ رسی سے باندھ دیا جائے؟ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے پھر فرمایا: ”تم اپنے والد کی طرف سے حج کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3417، ومصباح الزجاجة: 1026) (ضعیف الإسناد)» (سند میں محمد بن کریب منکر الحدیث ہیں، لیکن صحیح و ثابت احادیث ہی ہمارے لئے کافی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف محمد بن كريب:ضعيف (تقريب: 6256) والسند ضعفه البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 483
عبداللہ بن عباس اپنے بھائی فضل رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ وہ یوم النحر کی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کے بندوں پر عائد کیے ہوئے فریضہ حج نے میرے والد کو بڑھاپے میں پایا ہے، وہ سوار ہونے کی بھی سکت نہیں رکھتے، کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اس لیے کہ اگر تمہارے باپ پر کوئی قرض ہوتا تو تم اسے چکاتیں نا“؟ ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جب والد نے قرض کی ادائیگی کے لیے مال نہ چھوڑا ہو، تو باپ کا قرض ادا کرنا بیٹے پر لازم نہیں ہے، لیکن اکثر نیک اور صالح اولاد اپنی کمائی سے ماں باپ کا قرض ادا کر دیتے ہیں، ایسا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے بھی پوچھا کہ تم اپنے والد کا قرض ادا کرتی یا نہیں؟ جب اس نے کہا کہ میں ادا کرتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حج بھی اس کی طرف سے ادا کر دو، وہ اللہ کا قرض ہے“۔