ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص لوگوں کا قاضی (فیصلہ کرنے والا) بنایا گیا تو وہ بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشراف: 12955)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأقضیة 1 (3571)، سنن الترمذی/الأحکام 1 (1325)، مسند احمد (2/365) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی بن مارے اس کی موت ہوئی، مطلب یہ ہے کہ قضا کا عہدہ بڑے خطرے اور مواخذے کا کام ہے، اور اس میں عاقبت کے خراب ہونے کا ڈر ہے مگر جس کو اللہ تعالیٰ بچائے، اور اسی واسطے اکثر اسلاف نے تکلیفیں برداشت کیں اور ذلت کو گوارا کیا، لیکن قضا کا عہدہ نہ قبول کیا، چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو خلیفہ منصور نے مارا پیٹا اور قید کیا، لیکن انہوں نے قاضی بننا قبول نہ کیا، تاکہ اپنے آپ کو حدیث میں وارد وعید سے بچا سکیں، اورجن علماء نے یہ ذمہ داریاں قبول کیں انہوں نے ایک دینی فریضہ پورا کیا، ان کو اللہ کے فضل سے اپنے اوپر اعتماد تھا کہ وہ اس عہدے کے ذریعے سے ملک اور عوام کی خدمت کریں گے، اور اللہ رب العزت کے یہاں اجر کے مستحق ہوں گے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے عہدہ قضاء کا مطالبہ کیا، وہ اپنے نفس کے حوالہ کر دیا جاتا ہے، اور جو اس کے لیے مجبور کیا جائے تو اس کے لیے ایک فرشتہ اترتا ہے جو اسے درست بات کی رہنمائی کرتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأقضیة 1 (3578)، سنن الترمذی/الأحکام 1 (1323)، (تحفة الأشراف: 256)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/118، 220) (ضعیف)» (سند میں عبدالأعلی ضعیف راوی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (3578) ترمذي (1323،1324) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 462
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا يعلى ، وابو معاوية ، عن الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي البختري ، عن علي ، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، فقلت: يا رسول الله تبعثني وانا شاب اقضي بينهم ولا ادري ما القضاء، قال: فضرب بيده في صدري ثم قال:" اللهم اهد قلبه وثبت لسانه"، قال: فما شككت بعد في قضاء بين اثنين. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْلَى ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تَبْعَثُنِي وَأَنَا شَابٌّ أَقْضِي بَيْنَهُمْ وَلَا أَدْرِي مَا الْقَضَاءُ، قَالَ: فَضَرَبَ بِيَدِهِ فِي صَدْرِي ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ اهْدِ قَلْبَهُ وَثَبِّتْ لِسَانَهُ"، قَالَ: فَمَا شَكَكْتُ بَعْدُ فِي قَضَاءٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے (قاضی بنا کر) یمن بھیج رہے ہیں، اور میں (جوان) ہوں، لوگوں کے درمیان مجھے فیصلے کرنے ہوں گے، اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ فیصلہ کیا ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا پھر فرمایا: ”اے اللہ! اس کے دل کو ہدایت فرما، اور اس کی زبان کو ثابت رکھ“، پھر اس کے بعد مجھے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں کبھی کوئی تردد اور شک نہیں ہوا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10113)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأقضیة 6 (3582)، سنن الترمذی/الأحکام 5 (1331)، مسند احمد (1/83، 149) (صحیح)» (سند میں ابو البختری سعید بن فیروز کا سماع علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر حسن یا صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 2600، ابوداود: 3582)
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم ﷺ نے محبت سے علی رضی اللہ عنہ کے سینے پر جب ہلکی سی ضرب لگائی اور دعا فرمائی تو اس معجزے کا ظہور ہوا اور دعا کی قبولیت کی مثال سامنے آئی، یہ محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے ساتھی کے سینے پر ہاتھ رکھا اور دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے سینے کو علم قضا کے لیے کھول دیا، ایسا ہی معجزہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سینے کو علم حدیث کے لیے کھول دیا، اور خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے حدیث بھول جانے کی شکایت کی تو آپ نے ان کو ایک چادر دی جسے انہوں نے اپنے جسم سے لپیٹ لیا، اور نبی اکرم ﷺ نے آپ کے حافظے کے تیز ہونے کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ ظاہر کیا اور اپنے محبوب نبی کی ایسی دعا قبول کی کہ ابوہریرہ صحابہ کرام میں احادیث شریفہ کے سب سے بڑے حافظ قرار پائے، جب کہ آپ کو نبی اکرم ﷺ کی مصاحبت کا شرف بہت مختصر ملا کہ آپ غزوہ خیبر کے وقت محرم سن ۷ ہجری کو مدینہ آئے، اس طرح سے تقریباً سوا چار سال کی مدت آپ نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ گزاری،اور پھر اللہ کا فضل ان پر اور اہل اسلام پر یہ ہوا کہ وہ یکسوئی کے ساتھ پوری زندگی حدیث کی خدمت کرتے رہے، یہاں تک کہ ۵۷ یا ۵۸ ہجری میں آپ کی وفات ہوئی رضی اللہ عنہ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو البختري سعيد بن فيروز لم يسمع من علي رضي اللّٰه عنه ولم يدركه،قاله أبو حاتم الرازي (المراسيل ص 74) فالسند منقطع وللحديث شاھد ضعيف عند أبي داود (3582) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 462
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو حاکم بھی لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ ایک فرشتہ اس کی گدی پکڑے ہوئے ہو گا، پھر وہ فرشتہ اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے گا، اگر حکم ہو گا کہ اس کو پھینک دو، تو وہ اسے ایک ایسی کھائی میں پھینک دے گا جس میں وہ چالیس برس تک گرتا چلا جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9566، ومصباح الزجاجة: 813)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/430) (ضعیف)» (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف مجالد: ضعيف والسند ضعفه البو صيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 462
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی مدد قاضی (فیصلہ کرنے والے) کے ساتھ اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے، جب وہ ظلم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے“۔
وضاحت: ۱؎: رشوت لینے والے پر تو ظاہر ہے کہ وہ رشوت لے کر ضرور اس فریق کی رعایت کرے گا جس سے رشوت کھائے گا، اور رشوت دینے والے پر اس واسطے کہ وہ رشوت دے کر اس کو ظلم اور ناحق پر مائل کرے گا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر اس کا مقدمہ حق ہو اور کوئی حاکم بغیر رشوت لئے حق فیصلہ نہ کرتا ہو تو ظلم کو دفع کرنے کے لئے اگر رشوت دے تو گناہ گار نہ ہو گا، پس ضروری ہے کہ آدمی رشوت دینے اور لینے والے دونوں برے کاموں سے پرہیز کرے، اسی طرح رشوت دلانے اور اس کی دلالی کرنے سے بھی دور رہے کیونکہ ان امور سے ڈر ہے کہ وہ اللہ کی لعنت کامستحق ہو گا، «نسأل الله العافية» ۔
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جب حاکم فیصلہ اجتہاد سے کرے اور صحیح بات تک پہنچ جائے تو اس کو دہرا اجر ملے گا، اور جب فیصلہ کی کوشش کرے اور اجتہاد میں غلطی کرے، تو اس کو ایک اجر ملے گا“۔ یزید بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو ابوبکر بن عمرو بن حزم سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: اسی طرح اس کو مجھ سے ابوسلمہ نے بیان کیا ہے، اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن توبة ، حدثنا خلف بن خليفة ، حدثنا ابو هاشم ، قال: لولا حديث ابن بريدة ، عن ابيه ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" القضاة ثلاثة: اثنان في النار، وواحد في الجنة رجل علم الحق فقضى به فهو في الجنة ورجل قضى للناس على جهل فهو في النار ورجل جار في الحكم فهو في النار لقلنا إن القاضي إذا اجتهد فهو في الجنة". (مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ تَوْبَةَ ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو هَاشِمٍ ، قَالَ: لَوْلَا حَدِيثُ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ: اثْنَانِ فِي النَّارِ، وَوَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ رَجُلٌ عَلِمَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ وَرَجُلٌ قَضَى لِلنَّاسِ عَلَى جَهْلٍ فَهُوَ فِي النَّارِ وَرَجُلٌ جَارَ فِي الْحُكْمِ فَهُوَ فِي النَّارِ لَقُلْنَا إِنَّ الْقَاضِيَ إِذَا اجْتَهَدَ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ".
ابوہاشم کہتے ہیں کہ اگر ابن بریدہ کی یہ روایت نہ ہوتی جو انہوں نے اپنے والد (بریدہ رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ہے، اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قاضی تین طرح کے ہیں: ان میں سے دو جہنمی ہیں اور ایک جنتی، ایک وہ جس نے حق کو معلوم کیا اور اسی کے مطابق فیصلہ دیا، تو وہ جنت میں جائے گا، دوسرا وہ جس نے لوگوں کے درمیان بغیر جانے بوجھے فیصلہ دیا، تو وہ جہنم میں جائے گا، تیسرا وہ جس نے فیصلہ کرنے میں ظلم کیا (یعنی جان کر حق کے خلاف فیصلہ دیا) تو وہ بھی جہنمی ہو گا“(اگر یہ حدیث نہ ہوتی) تو ہم کہتے کہ جب قاضی فیصلہ کرنے میں اجتہاد کرے تو وہ جنتی ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف اجتہاد کافی نہیں ہے بلکہ حق کا علم یعنی یقین ضروری ہے، علماء کے نزدیک یہ حدیث تہدید و تشدید پر محمول ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ قضا کے لئے صرف اجتہاد یعنی غلبہ ظن کافی ہے، اس میں غلطی کا احتمال رہتا ہے، اور دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ مجتہد اگر خطا بھی کرے گا تو اسے ایک اجر ملے گا، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قاضی کا مجتہد ہونا ضروری ہے، اور مقلد کا قاضی ہونا صحیح نہیں ہے کیونکہ کتاب و سنت کے علم کا اطلاق صرف مجتہد پر ہوتا ہے، اور مقلد تو کتاب و سنت اور دلیل سے بےخبر ہوتا ہے، صرف اپنے امام کا قول معلوم کر لیتا ہے، لہذا مجتہد کتاب و سنت کی روشنی میں اس بات کا فیصلہ کرے گا جو اللہ تعالی اس کو دکھائے ہیں، مقلد تو اپنے امام کی رائے کے مطابق فیصلہ کرے گا، اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ»(سورة المائدة: 44) «وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ»(سورة المائدة 45) «وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ»(سورة المائدة:47) اور اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کرنا مجتہد کی شان ہے مقلد کی نہیں، اور معاذ رضی اللہ عنہ کی رائے سے متعلق مشہور حدیث جس کی صحت میں بعض علماء نے کلام کیا ہے، میں ان کا قول ہے کہ (میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا، اگر اس میں نہ ملے گا تو حدیث سے اور اگر اس میں نہ ملے گا تو پھر اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا) یہ بھی مجتہد کی شان ہے، مقلد تو نہ قرآن کو دیکھتا ہے نہ حدیث کو، صرف درمختار، کنز اور وقایہ پر عمل کرتا ہے، اور اس کو یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ یہ حکم کتاب وسنت میں موجود بھی ہے یا نہیں۔ (ملاحظہ ہو: الروضۃ الندیۃ)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (3573) ترمذي (1322ب) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 462
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قاضی غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے“۱؎۔ ہشام کی روایت کے الفاظ ہیں: ”حاکم کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرے“۔
وضاحت: ۱؎: نبی کریم ﷺ نے جو غصہ کی حالت میں زبیر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ایک انصاری کے ساتھ کیا تو یہ آپ ﷺ کی خصوصیت تھی کیونکہ آپ حالت غضب اور رضا دونوں میں معصوم تھے، اور ظاہر یہ ہے کہ ممانعت تحریمی ہے، اس پر جمہور علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر کوئی غصہ کی حالت میں فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ حق ہو تو صحیح ہو گا، علامہ ابن القیم کہتے ہیں کہ مفتی سخت غصہ، یا زیادہ بھوک، یا زیادہ قلق، یا پریشان کن خوف و ڈر، یا نیند کا غلبہ، یا پاخانہ پیشاب کی حاجت میں فتوی نہ دے، اسی طرح جب دل اور طرف لگا ہوا ہو، بلکہ جب آدمی یہ محسوس کرے کہ مذکورہ امور کی وجہ سے وہ اعتدال کی حالت سے باہر چلا گیا ہے، اور اس کی تحقیق و جستجو کی قدرت متاثر ہو گئی ہے، تو اس کو فتویٰ سے رک جانا چاہئے، اس پر بھی اگر وہ ان حالتوں میں فتویٰ دیتا ہے تو اس کا فتویٰ صحیح ہے لیکن اگر ایسی حالت میں فیصلہ کرتا ہے، تو کیا اس کا فیصلہ نافذ ہو گا، یا نہیں نافذ ہو گا؟ اس بارے میں امام احمد کے مذہب میں تین اقوال ہیں: پہلا یہ کہ نافذ ہو گا، دوسرا یہ کہ نافذ نہیں ہو گا، تیسرا یہ کہ مسئلہ کو سمجھنے کے بعد اگر غصہ ہو تو اس میں نافذ ہو گا، اور اگر مسئلہ کے سمجھنے سے پہلے غصہ ہو تو نافذ نہیں ہو گا۔ (ملاحظہ ہو: الروضۃ الندیۃ۳/۲۳۳)
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن زينب بنت ام سلمة ، عن ام سلمة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنكم تختصمون إلي وإنما انا بشر ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض وإنما اقضي بينكم على نحو مما اسمع منكم فمن قضيت له من حق اخيه شيئا فلا ياخذه فإنما اقطع له قطعة من النار ياتي بها يوم القيامة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ وَإِنَّمَا أَقْضِي بَيْنَكُمْ عَلَى نَحْوٍ مِمَّا أَسْمَعُ مِنْكُمْ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْهُ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ يَأْتِي بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے پاس جھگڑے اور اختلافات لاتے ہو اور میں تو ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چالاک ہو، اور میں اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں جو تم سے سنتا ہوں، لہٰذا اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں تو وہ اس کو نہ لے، اس لیے کہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا دلاتا ہوں جس کو وہ قیامت کے دن لے کر آئے گا“۔