(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح ، انبانا ابو بكر بن عياش ، عن عاصم ، عن زر ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لعلكم ستدركون اقواما يصلون الصلاة لغير وقتها، فإن ادركتموهم فصلوا في بيوتكم للوقت الذي تعرفون، ثم صلوا معهم، واجعلوها سبحة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، أَنْبَأَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَعَلَّكُمْ سَتُدْرِكُونَ أَقْوَامًا يُصَلُّونَ الصَّلَاةَ لِغَيْرِ وَقْتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكْتُمُوهُمْ فَصَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ لِلْوَقْتِ الَّذِي تَعْرِفُونَ، ثُمَّ صَلُّوا مَعَهُمْ، وَاجْعَلُوهَا سُبْحَةً".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید تم لوگ ایسے لوگوں کو پاؤ گے، جو نماز بے وقت پڑھیں گے، اگر تم ایسے لوگوں کو پاؤ تو نماز اپنے گھر ہی میں وقت مقررہ پر پڑھ لو، پھر ان کے ساتھ بھی پڑھ لو اور اسے نفل (سنت) بنا لو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی دوسری نماز کو کیونکہ وہ بے وقت ہے گو جماعت سے ہے، اور بعضوں نے کہا ہے کہ اول نماز نفل ہو جائے گی اور یہ فرض، اور بعضوں نے کہا اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے جس کو چاہے فرض کر دے اور جس کو چاہے نفل کر دے۔ اب یہ حدیث عام ہے اور ہر ایک نماز کو شامل ہے کہ جماعت کے ساتھ اس کو دوبارہ پڑھ سکتے ہیں، اور بعضوں نے کہا ہے کہ صرف ظہر اور عشاء کو دوبارہ پڑھے، بقیہ کو دوبارہ نہ پڑھے۔ «واللہ اعلم» ۔
It was narrated that ‘Abdullah bin Mas’ud said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘You may come across people who offer a prayer at the wrong time. If you meet them, then perform prayer in your houses at the time that you know, then pray with them and make that voluntary.”
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز اس کے وقت پر پڑھو، اگر امام کو پاؤ کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا رہا ہے تو ان کے ساتھ نماز پڑھ لو، اگر تم نے نماز نہیں پڑھی ہے تو یہ تمہاری فرض نماز ہو گئی، ورنہ پھر یہ تمہارے لیے نفل (سنت) ہو جائے گی“۔
It was narrated from Abu Dharr that the Prophet (ﷺ) said:
“Offer prayer on time, and if you reached the Imam leading them in prayers (on time), then perform it with them, and you will be safe with your prayer, otherwise it will be voluntary for you.”
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب کچھ ایسے حکمران ہوں گے جو کاموں میں مشغول رہیں گے، اور وہ نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کریں گے (تو تم وقت پہ نماز پڑھ لو) اور ان کے ساتھ اپنی نماز کو نفل بنا لو“۔
It was narrated from ‘Ubadah bin Samit that the Prophet (ﷺ) said:
“There will be leaders who will be distracted by matters and they will delay the prayer until after its proper time. So make your prayer with them voluntary.”
(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح ، انبانا جرير ، عن عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة الخوف:" ان يكون الإمام يصلي بطائفة معه فيسجدون سجدة واحدة، وتكون طائفة منهم بينهم وبين العدو، ثم ينصرف الذين سجدوا السجدة مع اميرهم، ثم يكونون مكان الذين لم يصلوا، ويتقدم الذين لم يصلوا فيصلوا مع اميرهم سجدة واحدة، ثم ينصرف اميرهم وقد صلى صلاته، ويصلي كل واحد من الطائفتين بصلاته سجدة لنفسه، فإن كان خوف اشد من ذلك فرجالا او ركبانا"، قال: يعني بالسجدة: الركعة. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْخَوْفِ:" أَنْ يَكُونَ الْإِمَامُ يُصَلِّي بِطَائِفَةٍ مَعَهُ فَيَسْجُدُونَ سَجْدَةً وَاحِدَةً، وَتَكُونُ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ الَّذِينَ سَجَدُوا السَّجْدَةَ مَعَ أَمِيرِهِمْ، ثُمَّ يَكُونُونَ مَكَانَ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا، وَيَتَقَدَّمُ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا فَيُصَلُّوا مَعَ أَمِيرِهِمْ سَجْدَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ يَنْصَرِفُ أَمِيرُهُمْ وَقَدْ صَلَّى صَلَاتَهُ، وَيُصَلِّي كُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ بِصَلَاتِهِ سَجْدَةً لِنَفْسِهِ، فَإِنْ كَانَ خَوْفٌ أَشَدَّ مِنْ ذَلِكَ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا"، قَالَ: يَعْنِي بِالسَّجْدَةِ: الرَّكْعَةَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف کی (کیفیت) کے بارے میں فرمایا: ”امام اپنے ساتھ مجاہدین کی ایک جماعت کو نماز پڑھائے، اور وہ ایک رکعت ادا کریں، اور دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان متعین رہے، پھر جس گروہ نے ایک رکعت اپنے امام کے ساتھ پڑھی وہ ہٹ کر اس جماعت کی جگہ چلی جائے جس نے نماز نہیں پڑھی، اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے وہ آئیں، اور اپنے امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں، اب امام تو اپنی نماز سے فارغ ہو جائے گا، اور دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک اپنی ایک ایک رکعت پڑھیں، اگر خوف و دہشت اس سے بھی زیادہ ہو، (صف بندی نہ کر سکتے ہوں) تو ہر شخص پیدل یا سواری پر نماز پڑھ لے“۱؎۔ راوی نے کہا کہ ”سجدہ“ سے مراد ”رکعت“ ہے۔
وضاحت: ۱؎: گو منہ قبلہ کی طرف نہ ہو اور سجدہ اور رکوع اشارے سے کرے، ابن عمر رضی اللہ عنہما سے معلوم ہوا کہ منہ قبلہ کی طرف ہو یا نہ ہو، جاننا چاہئے کہ خوف کی نماز کا ذکر قرآن مجید میں ہے پر وہ مجمل ہے، اور احادیث میں اس کی تفصیل کئی طرح سے وارد ہے، صحیحین میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہر گروہ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھے، تو امام کی چار رکعتیں ہوں گی اور مقتدیوں کی دو دو رکعتیں۔
It was narrated that Ibn ‘Umar said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said concerning the fear prayer: “The Imam should lead one group in prayer, and they should perform one prostration, and there should be another group between them and the enemy (guarding them). Then those who did the prostration with their leader should move away, and take the place of those who have not yet prayed. Then those who have not yet prayed should come forward and perform one prostration with their leader. Then their leader should move away, and his prayer will be complete. Then each group should perform one prostration by itself. If the fear is too great, then (they should pray) on foot or riding.’” He said: What is meant by prostration here is a Rak’ah.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نماز خوف کے بارے میں کہا: امام قبلہ رو کھڑا ہو، اور ایک جماعت اس کے ساتھ کھڑی ہو، اور ایک جماعت دشمن کے سامنے اس طرح کھڑی ہو کہ ان کے رخ صف کی جانب ہوں، امام انہیں ایک رکعت پڑھائے، پھر وہ اسی جگہ میں امام سے علیحدہ اپنے لیے ایک ایک رکوع اور دو دو سجدے کر کے دوسری رکعت پوری کریں، پھر یہ لوگ دوسری جماعت کی جگہ چلے جائیں، اب وہ جماعت آئے اور امام ان کو ایک رکوع اور دو سجدے سے نماز پڑھائے، امام کی نماز دو رکعت ہوئی، اور دوسری جماعت کی ابھی ایک ہی رکعت ہوئی، لہٰذا وہ لوگ ایک رکوع اور دو سجدے الگ الگ کر کے نماز پوری کر لیں ۱؎۔ محمد بن بشار کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن سعید القطان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھ سے «شعبة عن عبدالرحمٰن بن القاسم عن أبيه عن صالح بن خوات عن سهل بن أبي حثمة» کے طریق سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً ً یحییٰ بن سعید کی روایت کے مثل بیان کیا۔ محمد بن بشار کہتے ہیں کہ یحییٰ القطان نے مجھ سے کہا کہ اسے بھی اس کے پاس ہی لکھ لو اور مجھے تو حدیث یاد نہیں، لیکن یہ یحییٰ کی حدیث کے ہم مثل ہے۔
وضاحت: ۱ ؎: اور اتنی دیر تک کہ دوسرا گروہ اس رکعت سے فارغ ہو امام خاموش بیٹھا رہے، جب یہ دوسری رکعت سے فارغ ہوں تو امام سلام پھیرے اور دونوں گروہ سلام پھیر دیں، کیونکہ دونوں کی نماز ختم ہو گئی، اور پہلے گروہ کو لازم ہے کہ چپکے سے دشمن کے سامنے کھڑے رہیں بات نہ کریں یہاں تک کہ سلام پھیر دیں۔
It was narrated from Sahl bin Abu Hathmah that he said concerning the fear prayer:
“The Imam should stand facing the Qiblah, and a group of them should stand with him, and another group should stand in the direction of the enemy, facing towards the row (of worshippers). He should lead them in one Rak’ah, then they should bow and do two prostrations by themselves where they are. Then they should go and take the place of the others, and the others should come and pray one Rak’ah, bowing and prostrating with the leader. Then he will have prayed two Rak’ah and they will have prayed one; then they should perform another Rak’ah, bowing and performing two prostrations.”
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة ، حدثنا عبد الوارث بن سعيد ، حدثنا ايوب ، عن ابي الزبير ، عن جابر بن عبد الله ، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" صلى باصحابه صلاة الخوف، فركع بهم جميعا، ثم سجد رسول الله صلى الله عليه وسلم والصف الذين يلونه والآخرون قيام حتى إذا نهض، سجد اولئك بانفسهم سجدتين، ثم تاخر الصف المقدم حتى قاموا مقام اولئك، وتخلل اولئك حتى قاموا مقام الصف المقدم، فركع بهم النبي صلى الله عليه وسلم جميعا، ثم سجد رسول الله صلى الله عليه وسلم والصف الذي يلونه، فلما رفعوا رءوسهم سجد اولئك سجدتين، فكلهم قد ركع مع النبي صلى الله عليه وسلم، وسجدت طائفة بانفسهم سجدتين، وكان العدو مما يلي القبلة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلَّى بِأَصْحَابِهِ صَلَاةَ الْخَوْفِ، فَرَكَعَ بِهِمْ جَمِيعًا، ثُمَّ سَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالصَّفُّ الَّذِينَ يَلُونَهُ وَالْآخَرُونَ قِيَامٌ حَتَّى إِذَا نَهَضَ، سَجَدَ أُولَئِكَ بِأَنْفُسِهِمْ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ تَأَخَّرَ الصَّفُّ الْمُقَدَّمُ حَتَّى قَامُوا مُقَامَ أُولَئِكَ، وَتَخَلَّلَ أُولَئِكَ حَتَّى قَامُوا مُقَامَ الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ، فَرَكَعَ بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمِيعًا، ثُمَّ سَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالصَّفُّ الَّذِي يَلُونَهُ، فَلَمَّا رَفَعُوا رُءُوسَهُمْ سَجَدَ أُولَئِكَ سَجْدَتَيْنِ، فَكُلُّهُمْ قَدْ رَكَعَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَجَدَت طَائِفَةٌ بِأَنْفُسِهِمْ سَجْدَتَيْنِ، وَكَانَ الْعَدُوُّ مِمَّا يَلِي الْقِبْلَةَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو صلاۃ خوف پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کے ساتھ رکوع کیا، پھر سجدہ کیا، اور اس صف نے سجدہ کیا جو آپ سے قریب تھی، اور دوسرے لوگ کھڑے رہے، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے تو ان لوگوں نے اپنے طور سے دو سجدے کئے، پھر پہلی صف پیچھے آ گئی اور وہاں جا کر کھڑی ہو گئی، جہاں یہ لوگ تھے، اور درمیان ہی سے یہ لوگ آگے بڑھ گئے اور ان لوگوں کی جگہ کھڑے ہو گئے، اور پچھلی صف ہٹ کر اگلی کی جگہ کھڑی ہو گئی، اب پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب لوگوں کے ساتھ رکوع کیا، اور آپ نے اور آپ سے قریبی صف نے سجدہ کیا، جب یہ صف سجدے سے فارغ ہو گئی تو دوسری صف نے اپنے دو سجدے کئے، اس طرح سب نے ایک رکوع اور دو سجدے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئے، اور ہر جماعت نے دو سجدے اپنے اپنے طور پر کئے، اور دشمن قبلہ کے سامنے تھا ۱؎۔
وضاحت: ۱ ؎: پس یہاں اس کی ضرورت نہ تھی کہ ایک گروہ جائے اور دوسرا آئے صرف یہ ضروری تھا کہ سب لوگ ایک ساتھ سجدہ نہ کریں ورنہ احتمال ہے کہ دشمن غفلت میں کچھ کر بیٹھے، لہذا سجدہ میں تفریق ہوئی، باقی ارکان سب نے ایک ساتھ ادا کئے، اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ جیسا موقع ہو اسی طرح سے صلاۃ خوف پڑھنا اولیٰ ہے، اور ہر ایک صورت جائز ہے۔
It was narrated from Jabir bin ‘Abdullah that the Prophet (ﷺ) led his Companions in the fear prayer. He led them all in bowing, then the Messenger of Allah (ﷺ) and the row nearest him prostrated, and the others stood up, then when he stood up, they prostrated twice by themselves. Then the front row moved back and took their place, and they moved forward until they formed the front row. Then the Prophet (ﷺ) led them all in bowing, then the Messenger of Allah (ﷺ) and the row nearest to him prostrated, and when they raised their heads, the others prostrated twice. So all of them bowed with the Prophet (ﷺ) and some of them prostrated by themselves, and the enemy was in the direction of the Qiblah.
ابومسعود رضی اللہ عنہ سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک سورج و چاند کسی کے موت کی وجہ سے نہیں گہناتے ۱؎، لہٰذا جب تم اسے گہن میں دیکھو تو اٹھو، اور نماز پڑھو“۔
وضاحت: ۱؎: بلکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، یعنی اس کی قدرت کی نشانی ہے، اور سچی حکمت تھی جو آپ ﷺ نے لوگوں کو بتائی، اور ان کے غلط خیال کی تردید کہ گرہن کسی بڑے کی موت کی وجہ سے لگتا ہے، اگر ایسا ہو تو گرہن سورج اور چاند کا اپنے مقررہ اوقات پر نہ ہوتا بلکہ جب دنیا میں کسی بڑے کی موت کا حادثہ پیش آتا اس وقت گرہن لگتا حالانکہ اب علمائے ہئیت نے سورج اور چاند کے گرہن کے اوقات ایسے معلوم کر لیے ہیں کہ ایک منٹ بھی ان سے آگے پیچھے نہیں ہوتا، اور سال بھر سے پہلے یہ لکھ دیتے ہیں کہ ایک سال میں سورج گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت میں ہو گا، اور چاند گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت میں، اور یہ بھی بتلا دیتے ہیں کہ سورج یا چاند کا قرص گرہن سے کل چھپ جائے گا یا اس قدر حصہ، اور یہ بھی دکھلا دیتے ہیں کہ کس میں کتنا گرہن ہو گا، ان کے نزدیک زمین اور چاند کے گرہن کی علت حرکت ہے اور زمین کا سورج اور چاند کے درمیان حائل ہونا ہے۔ «واللہ اعلم» ۔
It was narrated that Abu Mas’ud said:
The Messenger of Allah (ﷺ) said: “The sun and the moon do not become eclipsed for the death of anyone among mankind. If you see that, then stand and perform prayer.”
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى ، واحمد بن ثابت ، وجميل بن الحسن ، قالوا: حدثنا عبد الوهاب ، حدثنا خالد الحذاء ، عن ابي قلابة ، عن النعمان بن بشير ، قال: انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم،" فخرج، فزعا يجر ثوبه حتى اتى المسجد، فلم يزل يصلي حتى انجلت"، ثم قال:" إن اناسا يزعمون ان الشمس والقمر لا ينكسفان إلا لموت عظيم من العظماء، وليس كذلك، إن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا تجلى الله لشيء من خلقه خشع له". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَأَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ ، وَجَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَخَرَجَ، فَزِعًا يَجُرُّ ثَوْبَهُ حَتَّى أَتَى الْمُسْجِدَ، فَلَمْ يَزَلْ يُصَلِّي حَتَّى انْجَلَتْ"، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ أُنَاسًا يَزْعُمُونَ أَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ إِلَّا لِمَوْتِ عَظِيمٍ مِنَ الْعُظَمَاءِ، وَلَيْسَ كَذَلِكَ، إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا تَجَلَّى اللَّهُ لِشَيْءٍ مِنْ خَلْقِهِ خَشَعَ لَهُ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج میں گہن لگا تو آپ گھبرا کر اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے مسجد میں آئے اور سورج روشن ہونے تک برابر نماز پڑھتے رہے، پھر فرمایا: ”کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سورج اور چاند کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے گہن لگتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، بیشک سورج اور چاند کو کسی کی موت و پیدائش کی وجہ سے نہیں گہناتے، بلکہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز پر اپنی تجلی کرتا ہے تو وہ عاجزی سے جھک جاتی ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 268 (1193)، سنن النسائی/الکسوف 16 (1486)، (تحفة الأشراف: 11631)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/267، 269، 271، 277) (منکر) (''اس میں فَإِذَا تَجَلَّى اللَّهُ لِشَيْئٍ مِنْ خَلْقِهِ خَشَعَ لَهُ'' کا ٹکڑا منکر ہے، سابقہ حدیث ملاحظہ ہو جو کافی ہے)»
وضاحت: ۱؎: اور دوسری حدیثوں میں دعا اور تکبیر اور صدقہ اور استغفار بھی وارد ہے، جب تک گرہن ختم نہ ہو جائے۔
It was narrated that Nu’man bin Bashir said:
“The sun was eclipsed at the time of the Messenger of Allah (ﷺ), and he came out alarmed, dragging his lower garment, until he reached the mosque. He continued to perform prayer until the eclipse was over, then he said: ‘Some people claim that the sun and moon only become eclipsed because of the death of a great leader. That is not so. The sun and the moon do not become eclipsed for the death or birth of anyone. When Allah manifests Himself to anything in His creation, it humbles itself before Him.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (1193) نسائي (1486) مختصرًا انوار الصحيفه، صفحه نمبر 421
(مرفوع) حدثنا احمد بن عمرو بن السرح المصري ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني عروة بن الزبير ، عن عائشة ، قالت: كسفت الشمس في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم،" فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المسجد، فقام فكبر فصف الناس وراءه، فقرا رسول الله صلى الله عليه وسلم قراءة طويلة، ثم كبر، فركع ركوعا طويلا، ثم رفع راسه، فقال: سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ثم قام فقرا قراءة طويلة هي ادنى من القراءة الاولى، ثم كبر فركع ركوعا طويلا هو ادنى من الركوع الاول، ثم قال: سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ثم فعل في الركعة الاخرى مثل ذلك، فاستكمل اربع ركعات واربع سجدات، وانجلت الشمس قبل ان ينصرف، ثم قام فخطب الناس، فاثنى على الله بما هو اهله"، ثم قال:" إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا ينكسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا رايتموهما، فافزعوا إلى الصلاة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ ِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقَامَ فَكَبَّرَ فَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً، ثُمَّ كَبَّرَ، فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا هُوَ أَدْنَى مِنَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، فَاسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَانْجَلتَ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ، ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ النَّاسَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ"، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا، فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد گئے، اور کھڑے ہو کر «الله أكبر» کہا، لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے صف لگائی، آپ نے لمبی قراءت کی، پھر «الله أكبر» کہا، اور دیر تک رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا، اور «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد» کہا، پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قراءت کی جو پہلی قراءت سے کم تھی، پھر «الله أكبر» کہا، اور لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد» کہا، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا، اور چار رکوع اور چار سجدے مکمل کئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرنے سے پہلے سورج روشن ہو چکا تھا، پھر آپ کھڑے ہوئے، خطبہ دیا، اور اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی جس کا وہ مستحق ہے، پھر فرمایا: ”بیشک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، وہ کسی کی موت و پیدائش کی وجہ سے نہیں گہناتے، لہٰذا جب تم ان کو گہن میں دیکھو تو نماز کی طرف دوڑ پڑو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الکسوف 4 (1046)، 5 (1047)، 13 (1058)، العمل في الصلاة 11 (1212)، بدأالخلق 4 (3203)، صحیح مسلم/الکسوف 1 (901)، سنن ابی داود/الصلاة 262 (1180)، سنن النسائی/الکسوف 11 (1476)، (تحفة الأشراف: 16692)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الکسوف 1 (1)، مسند احمد (6/76، 87، 164، 168)، سنن الدارمی/الصلاة 187 (1570) (صحیح)»
It was narrated that ‘Aishah said:
“The sun was eclipsed during the life of the Messenger of Allah (ﷺ). The Messenger of Allah (ﷺ) went out to the mosque and stood and said the Takbir, and the people formed rows behind him. The Messenger of Allah (ﷺ) recited for a long time, then he said the Takbir and bowed for a long time. Then he raised his head and said: ‘Sami’ Allahu liman hamidah, Rabban was lakal-hamd.’ Then he stood and recited for a long time, but shorter than the first recitation. Then he said the Takbir and bowed for a long time, but less than the first bowing. Then he said: ‘Sami’ Allahu liman hamidah, Rabbana wa lakal-hamd.’ Then he did the same in the next Rak’ah, and he completed four Rak’ah and four sets of prostration, and the eclipse ended before he finished. Then he stood and addressed the people. He praised Allah as He deserves to be praised, then he said: ‘The sun and the moon are two of the signs of Allah. They do not become eclipsed for the death or birth of anyone. If you see that then seek help in prayer.’”