سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
151. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ الْخَوْفِ
باب: ڈر کی حالت میں نماز پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1258
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْخَوْفِ:" أَنْ يَكُونَ الْإِمَامُ يُصَلِّي بِطَائِفَةٍ مَعَهُ فَيَسْجُدُونَ سَجْدَةً وَاحِدَةً، وَتَكُونُ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ الَّذِينَ سَجَدُوا السَّجْدَةَ مَعَ أَمِيرِهِمْ، ثُمَّ يَكُونُونَ مَكَانَ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا، وَيَتَقَدَّمُ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا فَيُصَلُّوا مَعَ أَمِيرِهِمْ سَجْدَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ يَنْصَرِفُ أَمِيرُهُمْ وَقَدْ صَلَّى صَلَاتَهُ، وَيُصَلِّي كُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ بِصَلَاتِهِ سَجْدَةً لِنَفْسِهِ، فَإِنْ كَانَ خَوْفٌ أَشَدَّ مِنْ ذَلِكَ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا"، قَالَ: يَعْنِي بِالسَّجْدَةِ: الرَّكْعَةَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف کی (کیفیت) کے بارے میں فرمایا: ”امام اپنے ساتھ مجاہدین کی ایک جماعت کو نماز پڑھائے، اور وہ ایک رکعت ادا کریں، اور دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان متعین رہے، پھر جس گروہ نے ایک رکعت اپنے امام کے ساتھ پڑھی وہ ہٹ کر اس جماعت کی جگہ چلی جائے جس نے نماز نہیں پڑھی، اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے وہ آئیں، اور اپنے امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں، اب امام تو اپنی نماز سے فارغ ہو جائے گا، اور دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک اپنی ایک ایک رکعت پڑھیں، اگر خوف و دہشت اس سے بھی زیادہ ہو، (صف بندی نہ کر سکتے ہوں) تو ہر شخص پیدل یا سواری پر نماز پڑھ لے“ ۱؎۔ راوی نے کہا کہ ”سجدہ“ سے مراد ”رکعت“ ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7819) وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الخوف 1 (943)، صحیح مسلم/المسافرین 57 (839)، سنن ابی داود/الصلاة 285 (1243)، سنن الترمذی/الصلاة 281 (الجمعة 46) (564)، سنن النسائی/الخوف (1539)، مسند احمد (2/147) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: گو منہ قبلہ کی طرف نہ ہو اور سجدہ اور رکوع اشارے سے کرے، ابن عمر رضی اللہ عنہما سے معلوم ہوا کہ منہ قبلہ کی طرف ہو یا نہ ہو، جاننا چاہئے کہ خوف کی نماز کا ذکر قرآن مجید میں ہے پر وہ مجمل ہے، اور احادیث میں اس کی تفصیل کئی طرح سے وارد ہے، صحیحین میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہر گروہ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھے، تو امام کی چار رکعتیں ہوں گی اور مقتدیوں کی دو دو رکعتیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1258 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1258
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز اتنی اہم عبادت ہے۔
کہ حالت جنگ میں بھی معاف نہیں البتہ اس صورت میں اس کا طریقہ بدل جاتا ہے۔
اور بہت سے احکام میں نرمی آ جاتی ہے۔
(2)
نماز خوف کی متعدد صورتیں ہیں۔
حالات کے مطابق ان میں سے کوئی سی صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔
(3)
اس حدیث میں مذکور صورت پر اس وقت عمل ہوتا ہے جب دشمن قبلے کی طرف نہ ہو۔
اس صورت میں فوج کے دو حصے کیے جائیں گے۔
پہلا گروہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ کرچلا جائے گا۔
اس اثناء میں دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں کھڑا رہے گا۔
جب پہلا گروہ دشمن کے سامنے پہنچ جائے گا۔
تو دوسرا گروہ امام کے ساتھ آ کر ایک رکعت پڑھ لے گا۔
اور دوسری رکعت اکیلے اکیلے ادا کی جائے گی۔
جیسے مقتدی کی ایک رکعت رہ گئی ہو تو وہ بعد میں ادا کرلیتا ہے۔
پہلے گروہ کے افراد اپنے اپنے مقام پر ایک ایک رکعت پڑھ لیں گے۔
اگر معروف طریقے سے ادا کرنا ممکن نہ ہو۔
تو اشارے سے رکوع سجدہ کر لیا جائے۔
اگرچہ قبلے کی طرف منہ نہ ہو۔
(4)
زیادہ سخت حالات میں جب اس قدر بھی جماعت کا اہتمام ممکن نہ ہو تو لڑائی کے دوران میں چلتے پھرتے ہی اشارے سے نماز پڑھ لی جائے۔
اگر قبلہ رو ہونا ممکن نہ ہو تو بغیرقبلے کی طرف منہ کئے پڑھ لی جائے۔
(5)
نماز خوف کے دوسرے طریقے بھی مختلف احادیث میں وارد ہیں۔
جن میں کچھ اگلی احادیث میں بیان کئے گئے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1258
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1539
´باب:`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو گروہوں میں سے ایک گروہ کو ایک رکعت نماز پڑھائی، اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلہ میں رہا، پھر یہ لوگ جا کر ان لوگوں کی جگہ پر کھڑے ہو گئے، اور وہ لوگ ان لوگوں کی جگہ پر آ گئے، تو آپ نے انہیں دوسری رکعت پڑھائی، پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اور ان لوگوں نے اپنی باقی ایک رکعت پوری کی (اور اسی طرح) وہ لوگ بھی کھڑے ہوئے، اور ان لوگوں نے بھی اپنی رکعت پوری کی۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة الخوف/حدیث: 1539]
1539۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں روایت نمبر 1537 والی صورت ہی ہے اور اپنی اپنی ایک ایک رکعت پڑھنے میں مذکورہ دونوں طریقے ممکن ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1539
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1540
´باب:`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف غزوہ کیا، تو ہم دشمن کے مقابل میں کھڑے ہوئے اور ہم نے صف بندی کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھانے کھڑے ہوئے، تو ہم میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہو گیا، اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلہ میں ڈٹا رہا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھ والوں نے ایک رکوع اور دو سجدے کیے، پھر یہ لوگ جا کر ان لوگوں کی جگہ پر ڈٹ گئے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی تھی، اور اس گروہ والے (آپ کے پیچھے) آئے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی تھی، تو آپ نے انہیں بھی ایک رکوع اور دو سجدے کرائے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو مسلمانوں میں سے ہر آدمی کھڑا ہو گیا، اور اس نے خود سے ایک رکوع اور دو سجدے کیے۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة الخوف/حدیث: 1540]
1540۔ اردو حاشیہ: یہ حدیث بھی حدیث نمبر: 1537 اور 1539 کے مطابق ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1540
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1542
´باب:`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف کی نماز پڑھائی، تو آپ کھڑے ہوئے، اور اللہ اکبر کہا، تو آپ کے پیچھے ہم میں سے ایک گروہ نے نماز پڑھی، اور ایک گروہ دشمن کے سامنے رہا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے، پھر وہ لوگ پلٹے حالانکہ انہوں نے ابھی سلام نہیں پھیرا تھا، اور دشمن کے بالمقابل آ گئے، اور ان کی جگہ صف بستہ ہو گئے، اور دوسرا گروہ آیا، اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بستہ ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، اس حال میں کہ آپ نے دو رکوع اور چار سجدے مکمل کر لیے تھے، پھر دونوں گروہ کھڑے ہوئے، اور ان میں سے ہر شخص نے خود سے ایک رکوع اور دو سجدے کیے۔ ابوبکر بن السنی کہتے ہیں: زہری نے ابن عمر رضی اللہ عنہم سے دو حدیثیں سنی ہیں، لیکن یہ حدیث انہوں نے ان سے نہیں سنی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة الخوف/حدیث: 1542]
1542۔ اردو حاشیہ: یہ حضرت ابوبکر بن سنی کا خیال ہے۔ حضرت علی بن مدینی نے بھی یہی قول بیان کیا ہے مگر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور حضرت یحییٰ بن معین کے نزدیک امام زہری نے کوئی روایت بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نہیں سنی اور یہی موقف درست اور راجح ہے، لہٰذا مذکورہ سند منقطع ہے لیکن یہ انقطاع سابقہ دونوں روایتوں سے رفع ہو جاتا ہے کیونکہ ان دو روایات میں سالم کا واسطہ مذکور ہے۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 17؍126، 127)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1542
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1543
´باب:`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض غزوات میں خوف کی نماز پڑھی، تو ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوا، اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلہ میں رہا، تو جو لوگ آپ کے ساتھ تھے انہیں آپ نے ایک رکعت پڑھائی، پھر یہ لوگ چلے گئے، اور دوسرے لوگ آ گئے تو آپ نے انہیں (بھی) ایک رکعت پڑھائی، پھر دونوں گروہوں نے ایک ایک رکعت پوری کی۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة الخوف/حدیث: 1543]
1543۔ اردو حاشیہ: ان احادیث میں نماز کے دوران میں آنا جانا، دشمن کے مقابل کھڑا ہونا، خواہ منہ کسی طرف بھی کرنا پڑے، اسی طرح امام کا ٹھہرنا اور آنے جانے والوں کا انتظار کرنا یہ سب نماز خوف کی خصوصیات ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور کرم نوازی ہے، ان سے نماز کی حیثیت اور ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ ممکن ہے نماز کی شان بڑھ جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1543
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1243
´ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ امام ہر ٹکڑی کو ایک رکعت پڑھائے پھر وہ سلام پھیر دے اس کے بعد ہر صف کے لوگ کھڑے ہوں اور خود سے اپنی اپنی ایک رکعت ادا کریں۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے رہی پھر یہ جماعت جا کر پہلی جماعت کی جگہ کھڑی ہو گئی اور وہ جماعت (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے) آ گئی تو آپ نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اور اپنی رکعت پوری کی اور وہ لوگ بھی (جو دشمن کے سامنے چلے گئے تھے) کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی رکعت پوری کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح یہ حدیث نافع اور خالد بن معدان نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ اور یہی قول مسروق اور یوسف بن مہران ہے جسے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، اسی طرح یونس نے حسن سے اور انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1243]
1243۔ اردو حاشیہ:
اس صورت میں گویا امام اپنے مجاہد مقتدیوں کا محافظ بنا کہ وہ اپنی نماز مکمل کر لیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1243
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 380
´نماز خوف کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نجد کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کسی غزوہ میں گیا۔ ہم دشمن کے بالکل مقابل صف بستہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہمیں نماز پڑھائی۔ ایک جماعت نماز ادا کرنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور ایک جماعت دشمن کے سامنے صفیں باندھ کر کھڑی ہو گئی۔ جو جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک تھی اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے اور اس گروہ کی جگہ واپس چلی گئی جس نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی تھی۔ اس جماعت کے افراد آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی دو سجدوں کے ساتھ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا تو دونوں گروہوں نے اٹھ کر الگ الگ پوری کی۔ (بخاری و مسلم) متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 380»
تخریج: «أخرجه البخاري، الخوف، باب صلاة الخوف، حديث:942، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الخوف، حديث:839.»
تشریح:
1. مصنف نے نماز خوف کی پانچ صورتیں بیان کی ہیں۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے چودہ ‘ ابن العربی اور امام نووی رحمہما اللہ نے سولہ اور شیخ ابوالفضل نے ترمذی کی شرح میں سترہ صورتیں ذکر کی ہیں۔
سنن ابی داود میں آٹھ صورتیں ہیں۔
2. امام احمد رحمہ اللہ کے بقول نماز خوف کے سلسلے میں چھ یا سات صحیح احادیث ثابت ہیں‘ ان میں سے جس کے مطابق نماز پڑھی جائے جائز ہے، کوئی مخصوص طریقہ نہیں۔
حالات کے مطابق جس طور پر پڑھنا ممکن ہو پڑھ لی جائے۔
3.اس نماز کے مسنون و مشروع ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں اور صاحب زاد المعاد نے بھی اس نماز کی یہی چھ کیفیتیں بیان کی ہیں اور جن حضرات نے اس سے زیادہ ذکر کی ہیں انھوں نے جہاں کہیں بیان واقعہ میں اختلاف دیکھا اسے الگ شمار کر لیا‘ حقیقت میں وہ الگ نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو قابل اعتماد قرار دیا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 380
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 564
´نماز خوف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو گروہوں میں سے ایک گروہ کو صلاۃ خوف ایک رکعت پڑھائی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہا، پھر یہ لوگ پلٹے، اور ان لوگوں کی جگہ پر جو دشمن کے مقابل میں تھے جا کر کھڑے ہو گئے اور جو لوگ دشمن کے مقابل میں تھے وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوسری رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی ایک رکعت پوری کی۔ اور (جو ایک رکعت پڑھ کر دشمن کے سامنے چلے گئے تھے) وہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی اپنی ایک رکعت پوری کی۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 564]
اردو حاشہ: 1؎:
جوآگے آرہی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 564
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1942
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف پڑھائی، دو گروہوں میں سے ایک کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا تھا، پھر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والے پلٹ گئے اور اپنے ساتھیوں کی جگہ جا کھڑے ہوئے دشمن کی طرف رخ کرکے اور وہ لوگ آئے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بھی ایک رکعت پڑھا دی اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا اور ان گروہوں نے اپنی اپنی رکعت پڑھ لی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1942]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
نماز خوف کی مشروعیت کے بارے میں اختلاف ہے کہ کب شروع ہوئی؟ بعض حضرات کے نزدیک سب سے پہلے غزوہ ذات الرقاع میں جو جمادی الاولیٰ 4ھ میں ہوا نماز خوف پڑھی گئی اور جنگ خندق میں اس لیے نہیں پڑھی گئی کہ جنگ کی نماز کا تعلق سفر سے ہے حضر سے نہیں اور جنگ خندق مدینہ منورہ میں ہوئی اس لیے اس میں نماز خوف نہیں پڑھی گئی اور بعض حضرات کے نزدیک اس کی اجازت غزوہ عسفان میں ملی جو جنگ خندق کے بعد اور بقول امام ابن العربی آپﷺ نے نماز خوف چوبیس دفعہ پڑھی ہے،
اور اس کی سولہ صورتیں اور حافظ عراقی کے نزدیک سترہ ہیں ابن حزم کے نزدیک چودہ اور حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چھ صورتیں ہیں۔
(2)
آپﷺ نے ہر گروہ کو ایک ایک رکعت پڑھائی ہے اور دوسری رکعت ہر گروہ نے اپنے طور پر پڑھی ہے ابن مسعود کی روایت سےمعلوم ہوتا ہے کہ دوسرے گروہ نے آپﷺ کے سلام کے بعد اپنی دوسری رکعت پڑھ لی اور سلام پھیر کر دشمن کے سامنے چلا گیا پھر پہلے گروہ نے آ کر اپنی نماز پوری کر لی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1942
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4535
4535. حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے جب نماز خوف کے متعلق دریافت کیا جاتا تو فرماتے: امام، مسلمانوں کی ایک جماعت کو لے کر خود آگے بڑھے اور انہیں ایک رکعت نماز پڑھائے۔ اس دوران میں مسلمانوں کی دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان میں رہے اور یہ لوگ ابھی نماز میں شریک نہ ہوں۔ جب امام کے ساتھ والی جماعت ایک رکعت پڑھ لے تو سلام پھیرے بغیر پیچھے ہٹ کر ان لوگوں کی جگہ پر آ جائے جنہوں نے ابھی نماز نہیں پڑھی اور یہ لوگ آگے بڑھ کر امام کے ساتھ ایک رکعت ادا کر لیں۔ پھر امام سلام پھیر دے گا، اس کی دو رکعت پوری ہو گئیں۔ اب امام کے سلام پھیرنے کے بعد دونوں گروہ اٹھ کر اپنی اپنی ایک رکعت پڑھ لیں، چنانچہ سب کی دو دو رکعت مکمل ہو جائیں گی، البتہ اگر خوف اس سے بھی زیادہ ہو تو ہر شخص جیسے ممکن ہو تنہائی میں پڑھ لے پیدل یا سوار، قبلے کی طرف رُخ ہو یا نہ ہو۔ امام مالک فرماتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4535]
حدیث حاشیہ:
نماز خوف ایک مستقل نماز ہے جو جنگ کی حالت میں پڑھی جاتی ہے اور یہ ایک رکعت تک بھی جائز ہے۔
بہتر تو یہی صورت ہے جو مذکور ہوئی۔
خوف زیادہ ہو تو پھر یہ ایک رکعت جس طور پربھی ادا ہو سکے درست ہے۔
مگر قصر اپنی جگہ پر ہے جو حالت امن وخوف ہر جگہ بہترہے، افضل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4535
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 942
942. امام زہری ؓ سے (راوی حدیث) شعیب نے پوچھا: کیا نبی ﷺ نے نماز خوف پڑھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے سالم نے خبر دی کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لیے گیا۔ جب ہم دشمن کے سامنے صف آراء ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ ایک گروہ تو آپ کے ساتھ کھڑا ہوا اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں ڈٹا رہا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہمراہ گروہ کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کیے۔ اس کے بعد یہ لوگ اس گروہ کی جگہ چلے گئے جس نے نماز نہیں پڑھی تھی۔ جب وہ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ بھی ایک رکوع اور دو سجدے ادا کیے اور سلام پھیر دیا۔ پھر ان میں سے ہر آدمی کھڑا ہوا اور ایک رکوع اور دو سجدے اپنے اپنے طور پر کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:942]
حدیث حاشیہ:
نجد لغت میں بلندی کو کہتے ہیں اور عرب میں یہ علاقہ وہ ہے جو تہامہ اور یمن سے لے کر عراق اور شام تک پھیلا ہوا ہے۔
جہاد مذکورہ 7 ھ میں بنی غطفان کے کافروں سے ہوا تھا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فوج کے دوحصے کئے گئے اور ہر حصہ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ایک رکعت باری باری ادا کی پھر دوسری رکعت انہوں نے اکیلے اکیلے ادا کی۔
بعض روایتوں میں یوں ہے کہ ہر حصہ ایک رکعت پڑھ کر چلا گیا اور جب دوسرا گروہ پوری نماز پڑھ گیا تو یہ گروہ دوبارہ آیا اور ایک رکعت اکیلے اکیلے پڑھ کر سلام پھیرا۔
فٹ پٹ ہو جائیں، یعنی بھڑجائیں صف باندھنے کا موقع نہ ملے تو جو جہاں کھڑاہو وہیں نماز پڑھ لے۔
بعضوں نے کہا قیاماً کا لفظ یہاں (راوی کی طرف سے)
غلط ہے صحیح قائماً ہے اور پوری عبارت یوں ہے:
إذا اختلطو قائما فانما ھو الذکر والإشارۃ بالرأس۔
یعنی جب کافر اور مسلمان لڑائی میں خلط ملط ہو جائیں توصرف زبان سے قرات اور رکوع سجدے کے بدل سر سے اشارہ کرنا کافی ہے۔
(شرح وحیدی)
قال ابن قدامة یجوز أن یصلی صلوة الخوف علی کل صفة صلاھا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال أحمد کل حدیث یروی في أبواب صلوة الخوف فالعمل به جائز وقال ستة أوجه أوسبعة یروی فیھا کلھا جائز۔
(مرعاۃ المصابیح، ج: 2ص: 319)
یعنی ابن قدامہ نے کہا کہ جن جن طریقوں سے خوف کی نماز آنحضرت ﷺ سے نقل ہوئی ہے ان سب کے مطابق جیسا موقع ہو خوف کی نماز ادا کرنا جائز ہے۔
امام احمد نے بھی ایسا ہی کہا ہے اور فرمایاہے کہ یہ نماز چھ ساتھ طریقوں سے جائز ہے۔
جو مختلف احادیث میں مروی ہیں:
قال ابن عباس والحسن البصري وعطاء وطاؤس ومجاھد والحکم بن عتبة وقتادة وإسحاق والضحاك والثوري أنھا رکعة عند شدة القتال یومي إیماء۔
(حوالہ مذکور)
یعنی مذکورہ جملہ اکابر اسلام کہتے ہیں کہ شدت قتال کے وقت ایک رکعت بلکہ محض اشاروں سے بھی ادا کر لینا جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 942
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:942
942. امام زہری ؓ سے (راوی حدیث) شعیب نے پوچھا: کیا نبی ﷺ نے نماز خوف پڑھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے سالم نے خبر دی کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لیے گیا۔ جب ہم دشمن کے سامنے صف آراء ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ ایک گروہ تو آپ کے ساتھ کھڑا ہوا اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں ڈٹا رہا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہمراہ گروہ کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کیے۔ اس کے بعد یہ لوگ اس گروہ کی جگہ چلے گئے جس نے نماز نہیں پڑھی تھی۔ جب وہ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ بھی ایک رکوع اور دو سجدے ادا کیے اور سلام پھیر دیا۔ پھر ان میں سے ہر آدمی کھڑا ہوا اور ایک رکوع اور دو سجدے اپنے اپنے طور پر کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:942]
حدیث حاشیہ:
(1)
مختلف احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نماز خوف ادا کرنے کے سترہ (17)
طریقے ہیں۔
لیکن امام ابن قیم ؒ نے جملہ احادیث کا تجزیہ کر کے بنیادی طور پر اس کی ادائیگی کے چھ (6)
طریقے منتخب کیے ہیں، حالات و ظروف کے پیش نظر جو طریقہ مناسب ہو اسے اختیار کر لیا جائے۔
پیش کردہ حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ پہلا گروہ سلام پھیرے بغیر ایک رکعت ادا کر کے دوسرے گروہ کی جگہ چلا جائے گا۔
(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4535)
اس حدیث میں دوسری رکعت ادا کرنے کے متعلق مکمل تفصیل نہیں ہے کہ دونوں گروہ اپنی باقی ماندہ رکعت کیسے ادا کریں گے۔
اس کی وضاحت حدیث ابن مسعود میں ہے کہ جب امام دو رکعت مکمل کر کے سلام پھیرے گا تو دوسرا گروہ اپنی باقی ماندہ ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے گا، پھر وہ اس گروہ کی جگہ چلے جائیں گے جنہوں نے سلام کے بغیر پہلی رکعت باجماعت پڑھی تھی، وہ مقام جماعت پر آ کر اپنی اپنی ایک رکعت ادا کر کے نماز مکمل کریں گے۔
(سنن أبي داود، صلاة السفر، حدیث: 1244)
دونوں گروہ باری باری اپنی باقی ماندہ رکعت ادا کریں گے کیونکہ اگر اکٹھے ادا کریں گے تو اس سے دشمن سے حفاظت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
(2)
فوج کو دو گروہوں میں تقسیم کر کے نماز پڑھانے کا ایک اور طریقہ بھی ہے جسے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں:
ایک گروہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
رسول اللہ ﷺ نے تکبیر تحریمہ کہی تو جو گروہ آپ کے ساتھ تھا اور جو دشمن کے بالمقابل تھا سب نے تکبیر تحریمہ کہی، پھر آپ نے رکوع کیا تو آپ کے ساتھ موجود گروہ نے بھی رکوع کیا اور اسی طرح سجدہ بھی کیا لیکن اس دوران میں دوسرا گروہ دشمن کے سامنے ڈٹا رہا۔
پھر رسول اللہ ﷺ جب دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ سے قریبی صف والے بھی کھڑے ہوئے اور دشمن کے سامنے چلے گئے جبکہ وہ گروہ جو دشمن کے سامنے تھا، رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آ گیا اور آ کر رکوع اور دو سجدے کیے۔
اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کھڑے رہے، جب وہ پہلی رکعت مکمل کر کے کھڑے ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے رکوع کیا اور انہوں نے بھی آپ کے ساتھ دوسری رکعت کا رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا تو انہوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا، پھر وہ گروہ جو دشمن کے مقابلے میں تھا آیا اور انہوں نے رکوع کیا اور دو سجدے کیے لیکن اس دوران میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے قریبی صف والے بیٹھے رہے، پھر آپ نے سلام پھیرا تو ان سب نے اکٹھے سلام پھیر دیا، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی بھی دو رکعتیں ہوئیں اور ہر گروہ کی بھی دو رکعتیں ہو گئیں۔
(سنن أبي داود، صلاة السفر، حدیث: 1240)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 942
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4133
4133. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو گروہوں میں سے ایک کو نماز پڑھائی جبکہ دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہا۔ پھر جن لوگوں نے نماز پڑھی، وہ گئے اور اپنے ساتھیوں کی جگہ کھڑے ہو گئے تو آپ ﷺ نے ان کو ایک رکعت پڑھا دی، پھر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد یہ لوگ کھڑے ہوئے اور اپنی رہ جانے والی رکعت ادا کی۔ اسی طرح وہ بھی کھڑے ہوئے تو انہوں نے بھی اپنی ایک رکعت پوری کی جو باقی رہ گئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4133]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒ نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث کو دوطریق سے بیان کیا ہے:
پہلا طریق امام زہری ؒ کے شاگرد شعیب کا ہے جسے امام بخاری ؒ نے کتاب صلاۃ الخوف میں تفصیل سے بیان کیا ہے اور وہاں صلاۃ خوف کی مکمل کیفیت بیان ہوئی ہے۔
(صحیح البخاري، صلاة الخوف، حدیث: 942)
اور دوسرا طریق حضرت معمرکا ہے، اس میں بھی صلاۃ خوف کا طریقہ بیان ہوا ہے۔
2۔
اس روایت میں لفظ قضا اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ یہ ادا کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
طریق شعیب میں یہ صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سلام کے بعد ہرآدمی نے اپنی باقی رکعت کو پورا کیا۔
3۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ یہ صلاۃ خوف علاقہ نجد میں ادا کی گئی اور یہ غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر ہوا۔
(فتح الباري: 531/7)
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4133
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4535
4535. حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے جب نماز خوف کے متعلق دریافت کیا جاتا تو فرماتے: امام، مسلمانوں کی ایک جماعت کو لے کر خود آگے بڑھے اور انہیں ایک رکعت نماز پڑھائے۔ اس دوران میں مسلمانوں کی دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان میں رہے اور یہ لوگ ابھی نماز میں شریک نہ ہوں۔ جب امام کے ساتھ والی جماعت ایک رکعت پڑھ لے تو سلام پھیرے بغیر پیچھے ہٹ کر ان لوگوں کی جگہ پر آ جائے جنہوں نے ابھی نماز نہیں پڑھی اور یہ لوگ آگے بڑھ کر امام کے ساتھ ایک رکعت ادا کر لیں۔ پھر امام سلام پھیر دے گا، اس کی دو رکعت پوری ہو گئیں۔ اب امام کے سلام پھیرنے کے بعد دونوں گروہ اٹھ کر اپنی اپنی ایک رکعت پڑھ لیں، چنانچہ سب کی دو دو رکعت مکمل ہو جائیں گی، البتہ اگر خوف اس سے بھی زیادہ ہو تو ہر شخص جیسے ممکن ہو تنہائی میں پڑھ لے پیدل یا سوار، قبلے کی طرف رُخ ہو یا نہ ہو۔ امام مالک فرماتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4535]
حدیث حاشیہ:
1۔
نماز خوف ایک مستقل نماز ہے جو حالت جنگ میں پڑھی جاتی ہے یہ ایک رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہے اس کی کئی ایک صورتیں ممکن ہیں احادیث میں ایسی چھ یا سات صورتیں بیان کی گئی ہیں۔
اس کا ایک طریقہ سورہ نساء آیت: 102۔
میں بھی بیان ہوا ہے اور یہ طریقہ صرف اس ہنگامی حالت کے لیے ہے جب لڑائی نہ ہو رہی ہو کیونکہ لڑائی ہونے کی صورت میں تو جماعت کا موقع ہی نہیں آتا جیسا کہ غزوہ خندق میں رسول اللہ ﷺ سمیت اکثر مسلمانوں کی نماز عصر فوت ہو گئی تھی۔
2۔
دراصل نماز خوف کے طریق کار انحصار بہت حد تک جنگی حالات پر ہے۔
اگر جماعت کا موقع ہی میسر نہ آئے تو انسان اکیلا بھی پڑھ سکتا ہے سواری پر بھی اور پیدل چلتے ہوئے بھی ادا کی جا سکتی ہےبس دو باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ایک یہ کہ موجودہ جنگی حالات میں کون سا طریقہ بہتر ہے پھر اسے اختیارکیا جائے اور دوسرے یہ کہ ایسے حالات میں اللہ کی یاد کوفراموش نہیں کرنا چاہیے۔
یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ جنگ میں نماز اسی وقت ہی اداکی جا سکتی ہے جب موقع ملے۔
اس دوران میں بھی اللہ تعالیٰ کو ہر وقت یاد رکھنا چاہیے پھر جب حالات معمول پر آجائیں تو نماز بھی معمول کے مطابق ادا کی جائے اور نمازوں کے اوقات کا بھی خیال رکھا جائے۔
اس کی مزید تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے اور کچھ وضاحت ہم سورہ نساء کی آیت 102 کے ضمن میں بیان کریں گے۔
باذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4535