عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «* تخريج:صحیح البخاری/المغازي 77 (4402)، الأدب 95 (6166)، الحدود 9 (6785)، الدیات 2 (6868)، الفتن 8 (7077)، صحیح مسلم/الإیمان 29 (66)، سنن النسائی/المحاربة 25 (4130)، سنن ابن ماجہ/الفتن 5 (2943)، (تحفة الأشراف: 7418)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/85، 87، 104، 135) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں ایک دوسرے کی گردن مارنے کو ایمان کے منافی قرار دیا، حدیث کا معنی یہ ہے کہ: میرے بعد فرقہ بندی میں پڑ کر ایک دوسرے کی گردن مت مارنے لگ جانا کہ یہ کام کافروں کے مشابہ ہے کیونکہ کافر آپس میں دشمن اور مومن آپس میں بھائی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن فضيل بن غزوان، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايما رجل مسلم اكفر رجلا مسلما، فإن كان كافرا وإلا كان هو الكافر". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا رَجُلٍ مُسْلِمٍ أَكْفَرَ رَجُلًا مُسْلِمًا، فَإِنْ كَانَ كَافِرًا وَإِلَّا كَانَ هُوَ الْكَافِرُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان کسی مسلمان کو کافر قرار دے تو اگر وہ کافر ہے (تو کوئی بات نہیں) ورنہ وہ (قائل) خود کافر ہو جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8254)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب 73 (6104)، صحیح مسلم/الإیمان 26 (111)، سنن الترمذی/الإیمان 16 (1237)، مسند احمد (2/23، 60) (صحیح)»
Ibn Umar reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: If any believing man calls another believing man an unbeliever, if he is actually an infidel, it is all right ; if not, he will become an infidel.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4670
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح رواه مسلم (60)
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چار خصلتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، معاہدہ کرے تو اس کو نہ نبھائے، اگر کسی سے جھگڑا کرے تو گالی گلوچ دے“۔
Abdullah bin Amr reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Four characteristics constitute anyone who possesses them a sheer hypocrite, and anyone who possesses one of them possesses a characteristics of hypocrisy till he abandons it: when he talks he lies, when he makes a promise he violates it, when he makes a covenant he acts treacherously, and when he quarrels, he deviates from the Truth.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4671
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (34) صحيح مسلم (58)
(مرفوع) حدثنا ابو صالح الانطاكي، اخبرنا ابو إسحاق الفزاري، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن، ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن والتوبة معروضة بعد". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ الْأَنْطَاكِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَالتَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زانی زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، چور چوری کے وقت مومن نہیں رہتا، شرابی شراب پیتے وقت مومن نہیں رہتا (یعنی ایمان اس سے جدا ہو جاتا ہے پھر بعد میں واپس آ جاتا ہے) توبہ کا دروازہ اس کے بعد بھی کھلا ہوا ہے“(یعنی اگر توبہ کر لے تو توبہ قبول ہو جائے گی اللہ بخشنے والا ہے)۔
Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: When one commits fornication, one is not a believer ; when one steals, one is not a believer ; when one drinks, one is not a believer ; and repentance is placed before him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4672
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6810) صحيح مسلم (57)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے اور بادل کے ٹکڑے کی طرح اس کے اوپر لٹکا رہتا ہے، پھر جب زنا سے الگ ہوتا ہے تو دوبارہ ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے“۔
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: When a man commits fornication, faith departs from him and there is something like a canvas roof over his head; and when he quits that action, faith returns to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4673
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (60)
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم، قال: حدثني بمنى، عن ابيه، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" القدرية مجوس هذه الامة إن مرضوا فلا تعودوهم وإن ماتوا فلا تشهدوهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بِمِنًى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْقَدَرِيَّةُ مَجُوسُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِنْ مَرِضُوا فَلَا تَعُودُوهُمْ وَإِنْ مَاتُوا فَلَا تَشْهَدُوهُمْ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قدریہ (منکرین تقدیر) اس امت (محمدیہ) کے مجوس ہیں، اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے میں شریک مت ہو ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 7088)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/86) (حسن)» (شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ ابو حازم کا سماع ابن عمر سے نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: قدریہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو تقدیر کا منکر ہے، اس کا عقیدہ ہے کہ انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے، اس فرقہ کو مجوس سے اس لئے تشبیہ دی کہ مجوس دو خالق کے قائل ہیں، یعنی خالق شر و خالق خیر: خالق شر کو اہرمن اور خالق خیر کو یزداں کہتے ہیں، جبکہ اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ خالق صرف ایک ہے چنانچہ «هل من خالق غير الله» فرما کر قرآن نے دوسرے کسی خالق کی تردید فرما دی، انسان جو کچھ کرتا ہے اس کو اس کا اختیار اللہ ہی نے دیا ہے، اگر نیک عمل کرے گا تو ثواب پائے گا، بد کرے گا تو عذاب پائے گا، ہر فعل کا خالق اللہ ہی ہے، دوسرا کوئی نہیں، یہ مسئلہ نہایت معرکۃ الآراء ہے، عام آدمی کو اس کی ٹوہ میں نہیں پڑنا چاہئے، سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ مسلمان تقدیر پر ایمان رکھے اور شیطان کے وسوسہ سے بچے، تقدیر کے منکروں سے ہمیشہ دور رہنا چاہئے ان سے میل جول بھی درست نہیں۔
Narrated Abdullah ibn Umar: The Prophet ﷺ said: The Qadariyyah are the Magians of this community. If they are ill, do not pay a sick visit to them, and if they die, do not attend their funerals.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4674
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (107) وله شاهد صحيح عند الطبراني في الأوسط (5/ 114ح 4217)
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن عمر بن محمد، عن عمر مولى غفرة، عن رجل من الانصار، عن حذيفة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لكل امة مجوس، ومجوس هذه الامة الذين يقولون لا قدر، من مات منهم فلا تشهدوا جنازته، ومن مرض منهم فلا تعودوهم وهم شيعة الدجال وحق على الله ان يلحقهم بالدجال". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُمَرَ مَوْلَى غُفْرَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِكُلِّ أُمَّةٍ مَجُوسٌ، وَمَجُوسُ هَذِهِ الْأُمَّةِ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا قَدَرَ، مَنْ مَاتَ مِنْهُمْ فَلَا تَشْهَدُوا جَنَازَتَهُ، وَمَنْ مَرِضَ مِنْهُمْ فَلَا تَعُودُوهُمْ وَهُمْ شِيعَةُ الدَّجَّالِ وَحَقٌّ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُلْحِقَهُمْ بِالدَّجَّالِ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر امت کے مجوس ہوتے ہیں، اس امت کے مجوس وہ لوگ ہیں جو تقدیر کے منکر ہیں، ان میں کوئی مر جائے تو تم اس کے جنازے میں شرکت نہ کرو، اور اگر کوئی بیمار پڑے، تو اس کی عیادت نہ کرو، یہ دجال کی جماعت کے لوگ ہیں، اللہ ان کو دجال کے زمانے تک باقی رکھے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3397)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/406) (ضعیف)» (اس کے راوی عمر مولی غفرہ ضعیف ہیں، نیز اس کی سند میں ایک راوی انصاری مبہم ہے)
Hudhaifah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Every people have Magians, and the Magians of this community are those who declare that there is no destination by Allah. If any one of them dies, do not attend his funeral, and if any one of them is ill, do not pay a sick visit to him. They are the partisans of the Antichrist (Dajjal), and Allah will surely join with the Antichrist.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4675
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف رجل من الأنصار: ”مجهول“ (عون المعبود 358/4) والحديث السابق (الأصل:4691)يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 165
(مرفوع) حدثنا مسدد، ان يزيد بن زريع، ويحيى بن سعيد حدثاهم، قالا: حدثنا عوف، قال: حدثنا قسامة بن زهير، قال: حدثنا ابو موسى الاشعري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله خلق آدم من قبضة قبضها من جميع الارض، فجاء بنو آدم على قدر الارض جاء منهم الاحمر، والابيض، والاسود وبين ذلك والسهل، والحزن، والخبيث، والطيب"، زاد في حديث يحيى وبين ذلك والإخبار في حديث يزيد. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ زُرَيْعٍ، وَيَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ حَدَّثَاهُمْ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَسَامَةُ بْنُ زُهَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ، فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْهُمُ الْأَحْمَرُ، وَالْأَبْيَضُ، وَالْأَسْوَدُ وَبَيْنَ ذَلِكَ وَالسَّهْلُ، وَالْحَزْنُ، وَالْخَبِيثُ، وَالطَّيِّبُ"، زَادَ فِي حَدِيثِ يَحْيَى وَبَيْنَ ذَلِكَ وَالْإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ يَزِيدَ.
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا جس کو اس نے ساری زمین سے لیا تھا، چنانچہ آدم کی اولاد اپنی مٹی کی مناسبت سے مختلف رنگ کی ہے، کوئی سفید، کوئی سرخ، کوئی کالا اور کوئی ان کے درمیان، کوئی نرم خو، تو کوئی درشت خو، سخت گیر، کوئی خبیث تو کوئی پاک باز“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیرالقرآن 3 (2955)، (تحفة الأشراف: 9025)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/400، 406) (صحیح)»
Abu Musa al-Ash’ari reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Allah created Adam from a handful which he took from the whole of the earth ; so the children of Adam are in accordance with the earth: some red, some white, some black, some a mixture, also smooth and rough, bad and good.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4676
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (100) أخرجه الترمذي (2955 وسنده حسن)
(مرفوع) حدثنا مسدد بن مسرهد، حدثنا المعتمر، قال: سمعت منصور بن المعتمر يحدث، عن سعد بن عبيدة، عن عبد الله بن حبيب ابي عبد الرحمن السلمي، عن علي رضي الله عنه، قال:" كنا في جنازة فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم ببقيع الغرقد، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجلس ومعه مخصرة فجعل ينكت بالمخصرة في الارض، ثم رفع راسه، فقال: ما منكم من احد ما من نفس منفوسة إلا كتب الله مكانها من النار او من الجنة، إلا قد كتبت شقية او سعيدة، قال: فقال رجل من القوم: يا نبي الله افلا نمكث على كتابنا وندع العمل فمن كان من اهل السعادة ليكونن إلى السعادة، ومن كان من اهل الشقوة ليكونن إلى الشقوة، قال: اعملوا فكل ميسر اما اهل السعادة فييسرون للسعادة، واما اهل الشقوة فييسرون للشقوة، ثم قال نبي الله: فاما من اعطى واتقى {5} وصدق بالحسنى {6} فسنيسره لليسرى {7} واما من بخل واستغنى {8} وكذب بالحسنى {9} فسنيسره للعسرى {10} سورة الليل آية 5-10". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ مَنْصُورَ بْنَ الْمُعْتَمِرِ يُحَدِّثُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَبِيبٍ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه، قَالَ:" كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَ وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِالْمِخْصَرَةِ فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ مَكَانَهَا مِنَ النَّارِ أَوْ مِنَ الْجَنَّةِ، إِلَّا قَدْ كُتِبَتْ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَفَلَا نَمْكُثُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ لَيَكُونَنَّ إِلَى السَّعَادَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشِّقْوَةِ لَيَكُونَنَّ إِلَى الشِّقْوَةِ، قَالَ: اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلسَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشِّقْوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلشِّقْوَةِ، ثُمَّ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ: فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى {5} وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى {6} فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى {7} وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى {8} وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى {9} فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى {10} سورة الليل آية 5-10".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ کے قبرستان بقیع غرقد میں ایک جنازے میں شریک تھے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے، آپ آئے اور بیٹھ گئے، آپ کے پاس ایک چھڑی تھی، چھڑی سے زمین کریدنے لگے، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ہر ایک متنفس کا ٹھکانہ جنت یا دوزخ میں لکھ دیا ہے، اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت“ لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے نبی! پھر ہم کیوں نہ اپنے لکھے پر اعتماد کر کے بیٹھ رہیں اور عمل ترک کر دیں کیونکہ جو نیک بختوں میں سے ہو گا وہ لازماً نیک بختی کی طرف جائے گا اور جو بدبختوں میں سے ہو گا وہ ضرور بدبختی کی طرف جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمل کرو، ہر ایک کے لیے اس کا عمل آسان ہے، اہل سعادت کے لیے سعادت کی راہیں آسان کر دی جاتی ہیں اور بدبختوں کے لیے بدبختی کی راہیں آسان کر دی جاتی ہیں“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا: ”جو شخص اللہ کے راستے میں خرچ کرے، اللہ سے ڈرے، اور کلمہ توحید کی تصدیق کرے تو ہم اس کے لیے آسانی اور خوشی کی راہ آسان کر دیں گے، اور جو شخص بخل کرے، دنیوی شہوات میں پڑ کر جنت کی نعمتوں سے بے پروائی برتے اور کلمہ توحید کو جھٹلائے تو ہم اس کے لیے سختی اور بدبختی کی راہ آسان کر دیں گے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں اس شیطانی وسوسہ کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا، جو اکثر لوگوں کے ذہن میں آتا ہے، اور ان کو بدعملی پر ابھارتا ہے، جب جنتی اور جہنمی کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے تو عمل کیوں کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کو معلوم نہیں کہ اس کے مقدر میں کیا لکھا ہے“، لہٰذا ہر شخص کو نیک عمل کرنا چاہئے کہ یہی نیکی کی راہ، اور یہی جنت میں جانے کا سبب ہے، بندے کو اس بحث میں پڑے بغیر کہ وہ کہاں جائے گا نیک عمل کرتے رہنا چاہئے، تاکہ وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہو، اور نتیجے میں جنت نصیب ہو، آمین۔
Ali said: We attended a funeral at Baql’ al-Gharqad which was also attended by the Messenger of Allah ﷺ. The Messenger of Allah ﷺ came and sat down. He had a stick (in his hand) by which he began to scratch up the ground. He then raised his head and said: The place which every one of you and every soul of you will occupy in Hell or in Paradise has been recorded, and destined wicked or blesses. A man from among the people asked: Prophet of Allah! Should we not then trust simply in what has been recorded for us and abandon (doing good) deeds? Those who are among the number of the blessed will be inclined to blessing, and those of us who are among the number of the wicked will be inclined to wickedness. He replied: Go on doing good actions, for everyone is helped to do that for which he was created. Those who are among the number of wicked will be helped to do wicked deeds. The Prophet of Allah ﷺ then recited: “So he who gives (in charity) and fears (Allah), and in all sincerity testifies to the best, we will indeed make smooth for him the path to bliss. But he who is a greedy miser and thinks himself self-sufficient, and gives the lie to the best, We will indeed make smooth for him the path of misery. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4677
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1362) صحيح مسلم (2647)
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا ابي، حدثنا كهمس، عن ابن بريدة، عن يحيى بن يعمر، قال: كان اول من تكلم في القدر بالبصرة معبد الجهني، فانطلقت انا، وحميد بن عبد الرحمن الحميري حاجين او معتمرين، فقلنا: لو لقينا احدا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فسالناه عما يقول هؤلاء في القدر فوفق الله لنا عبد الله بن عمر داخلا في المسجد فاكتنفته انا وصاحبي، فظننت ان صاحبي سيكل الكلام إلي فقلت: ابا عبد الرحمن إنه قد ظهر قبلنا ناس يقرءون القرآن ويتفقرون العلم يزعمون ان لا قدر والامر انف، فقال: إذا لقيت اولئك فاخبرهم اني بريء منهم وهم برآء مني والذي يحلف به عبد الله بن عمر لو ان لاحدهم مثل احد ذهبا، فانفقه ما قبله الله منه حتى يؤمن بالقدر، ثم قال: حدثني عمر بن الخطاب، قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ طلع علينا رجل شديد بياض الثياب، شديد سواد الشعر لا يرى عليه اثر السفر، ولا نعرفه حتى جلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاسند ركبتيه إلى ركبتيه ووضع كفيه على فخذيه وقال: يا محمد اخبرني عن الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الإسلام ان تشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا، قال: صدقت، قال: فعجبنا له يساله ويصدقه، قال: فاخبرني عن الإيمان، قال: ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وتؤمن بالقدر خيره وشره، قال: صدقت، قال: فاخبرني عن الإحسان، قال: ان تعبد الله كانك تراه، فإن لم تكن تراه، فإنه يراك، قال: فاخبرني عن الساعة، قال: ما المسئول عنها باعلم من السائل، قال: فاخبرني عن اماراتها، قال: ان تلد الامة ربتها، وان ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء يتطاولون في البنيان، قال: ثم انطلق فلبثت ثلاثا ثم قال: يا عمر هل تدري من السائل؟ قلت: الله ورسوله اعلم، قال: فإنه جبريل اتاكم يعلمكم دينكم". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، قَالَ: كَانَ أَوَّلَ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا، وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَاجَّيْنِ أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ، فَقُلْنَا: لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلَاءِ فِي الْقَدَرِ فَوَفَّقَ اللَّهُ لَنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ دَاخِلًا فِي الْمَسْجِدِ فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي، فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلَامَ إِلَيَّ فَقُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَفَقَّرُونَ الْعِلْمَ يَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ وَالْأَمْرَ أُنُفٌ، فَقَالَ: إِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ وَهُمْ بُرَآءُ مِنِّي وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا نَعْرِفُهُ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا، قَالَ: أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ: يَا عُمَرُ هَلْ تَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ".
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلے معبد جہنی نے تقدیر کا انکار کیا، ہم اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری حج یا عمرے کے لیے چلے، تو ہم نے دل میں کہا: اگر ہماری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے ہوئی تو ہم ان سے تقدیر کے متعلق لوگ جو باتیں کہتے ہیں اس کے بارے میں دریافت کریں گے، تو اللہ نے ہماری ملاقات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کرا دی، وہ ہمیں مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے، چنانچہ میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں گھیر لیا، میرا خیال تھا کہ میرے ساتھی گفتگو کا موقع مجھے ہی دیں گے اس لیے میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے ہیں جو قرآن پڑھتے اور اس میں علمی باریکیاں نکالتے ہیں، کہتے ہیں: تقدیر کوئی چیز نہیں ۱؎، سارے کام یوں ہی ہوتے ہیں، تو آپ نے عرض کیا: جب تم ان سے ملنا تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں، اور وہ مجھ سے بری ہیں (میرا ان سے کوئی تعلق نہیں)، اس ہستی کی قسم، جس کی قسم عبداللہ بن عمر کھایا کرتا ہے، اگر ان میں ایک شخص کے پاس احد کے برابر سونا ہو اور وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تو بھی اللہ اس کے کسی عمل کو قبول نہ فرمائے گا، جب تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہ لے آئے، پھر آپ نے کہا: مجھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا جس کا لباس نہایت سفید اور بال انتہائی کالے تھے، اس پر نہ تو سفر کے آثار دکھائی دے رہے تھے، اور نہ ہی ہم اسے پہچانتے تھے، یہاں تک کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر بیٹھ گیا، اس نے اپنے گھٹنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے ملا دئیے، اور اپنی ہتھیلیوں کو آپ کی رانوں پر رکھ لیا اور عرض کیا: محمد! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روز ے رکھو، اور اگر پہنچنے کی قدرت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو“ وہ بولا: آپ نے سچ کہا، عمر بن خطاب کہتے ہیں: ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ وہ آپ سے سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے۔ اس نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور تقدیر ۲؎ کے بھلے یا برے ہونے پر ایمان لاؤ“ اس نے کہا: آپ نے سچ کہا۔ پھر پوچھا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو سکے تو (یہ تصور رکھو کہ) وہ تو تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے“ اس نے کہا: مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس سے پوچھا جا رہا ہے، وہ اس بارے میں پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا“۳؎۔ اس نے کہا: تو مجھے اس کی علامتیں ہی بتا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ۴؎، اور یہ کہ تم ننگے پیر اور ننگے بدن، محتاج، بکریوں کے چرواہوں کو دیکھو گے کہ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں فخر و مباہات کریں گے“ پھر وہ چلا گیا، پھر میں تین ۵؎(ساعت) تک ٹھہرا رہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمر! کیا تم جانتے ہو کہ پوچھنے والا کون تھا؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبرائیل تھے، تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے“۔
وضاحت: ۱؎: بندہ اپنے افعال میں خود مختار ہے اور وہی ان کا خالق ہے۔ ۲؎: یعنی اللہ تعالی نے ہر چیز کا اندازہ مقرر فرما دیا ہے اب ہر شیٔ اسی اندازے کے مطابق اس کے پیدا کرنے سے ہو رہی ہے کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر نہیں ہوتی۔ ۳؎: مطلب یہاں یہ ہے کہ قیامت کے وقوع کا علم چونکہ اللہ نے کسی کو نہیں دیا اس لئے نہ تم جانتے ہو اور نہ میں، بلکہ ہر سائل اور مسئول قیامت کے بارے میں ایسا ہی ہے یعنی نہیں جانتا، ہاں قیامت علامات بتلائی گئی ہیں جس سے عبرت حاصل کر کے نیک عمل کرنا چاہئے۔ ۴؎: اس کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے گا، اولاد اپنے والدین کے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ کرنے لگے گی۔ ۵؎: تین ساعت یا تین رات یا چند لمحے۔
Yahya bin Yamur said: The first to speak on Divine decree in al-Basrah was MAbad al Juhani. I and Humaid bin Abdur-Rahman al-Himyari proceeded to perform HAJJ or UmrAH. We said: would that we meet any of the Companions of the Messenger of Allah ﷺ so that we could ask him about what they say with regard to divine decree. So Allah helped us to meet Abdullah bin Umar who was entering the mosque. So I and my companion surrounded him, and I thought that my companion would entrust me the task of speaking to him. Then I said: Abu Abdur-Rahman, there appeared on our side some people who recite the Quran and are engaged in the hair-splitting of knowledge. They conceive that there is no Divine decree and everything happens freely without predestination. He said: When you meet those people, tell them that I am free from them, and they are free from me. By Him by Whom swears Abdullah bin Umar, if one of them has gold equivalent to Uhud and he spends it, Allah will not accept it from him until he believes in Divine decree. He then said: Umar bin Khattab transmitted to me a tradition, saying: One day when we were with the Messenger of Allah ﷺ a man with very white clothing and very black hair came up to us. No mark of travel was visible on him, and we did not recognize him. Sitting down beside the Messenger of Allah ﷺ, leaning his knees against his and placing his hands on his thighs, he said: tell me, Muhammad, about Islam. The Messenger of Allah ﷺ said: Islam means that you should testify that there is no god but Allah, and Muhammad is Allah’s Messenger, that you should observe prayer, pay ZAKAT, fast during RAMADAN, and perform Hajj to the house (i. e., KABAH), If you have the meant to go. He said: You have spoken the truth. We were surprised at his questioning him and then declaring that he spoke the truth. He said: now tell me about faith. He replied: It means that you should believe in Allah, his angels, his Books, his Messengers and the last day, and that you should believe in the decreeing both of good and evil. He said: you have spoken the truth. He said: now tell me about doing good (ihsan). He replied: it means that you should worship Allah as though you are seeing him; if you are not seeing him, he is seeing you. He said: Now tell me about the hour. He replied: The one who is asked about it is no better informed than the one who is asking. He said: Then tell me about its signs. He replied: That a maidservant should beget her mistress, and that you should see barefooted, naked, poor men and shepherds exalting themselves in buildings. Umar said: He then went away, and I waited for three days, then he said: Do you know who the questioner was, Umar? I replied: Allah and his Messenger know best. He said: He was Gabriel who came to you to teach you your religion.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4678