(مرفوع) حدثنا احمد بن عبد الله بن يونس، حدثنا زهير. ح. وحدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان وهذا لفظ حديث زهير، حدثنا إبراهيم بن عقبة، اخبرني كريب، انه سال اسامة بن زيد، قلت: اخبرني كيف فعلتم او صنعتم عشية ردفت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: جئنا الشعب الذي ينيخ الناس فيه للمعرس فاناخ رسول الله صلى الله عليه وسلم ناقته ثم بال، وما قال زهير: اهراق الماء ثم دعا بالوضوء فتوضا وضوءا ليس بالبالغ جدا، قلت: يا رسول الله، الصلاة، قال: الصلاة امامك، قال: ركب حتى قدمنا المزدلفة فاقام المغرب، ثم اناخ الناس في منازلهم ولم يحلوا حتى اقام العشاء وصلى، ثم حل الناس". زاد محمد في حديثه، قال: قلت: كيف فعلتم حين اصبحتم؟ قال: ردفه الفضل وانطلقت انا في سباق قريش على رجلي. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ. ح. وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ زُهَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، أَنَّهُ سَأَلَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، قُلْتُ: أَخْبِرْنِي كَيْفَ فَعَلْتُمْ أَوْ صَنَعْتُمْ عَشِيَّةَ رَدِفْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: جِئْنَا الشِّعْبَ الَّذِي يُنِيخُ النَّاسُ فِيهِ لِلْمُعَرَّسِ فَأَنَاخَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَتَهُ ثُمَّ بَالَ، وَمَا قَالَ زُهَيْرٌ: أَهْرَاقَ الْمَاءَ ثُمَّ دَعَا بِالْوَضُوءِ فَتَوَضَّأَ وُضُوءًا لَيْسَ بِالْبَالِغِ جِدًّا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الصَّلَاةُ، قَالَ: الصَّلَاةُ أَمَامَكَ، قَالَ: رَكِبَ حَتَّى قَدِمْنَا الْمُزْدَلِفَةَ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَنَاخَ النَّاسُ فِي مَنَازِلِهِمْ وَلَمْ يَحِلُّوا حَتَّى أَقَامَ الْعِشَاءَ وَصَلَّى، ثُمَّ حَلَّ النَّاسُ". زَادَ مُحَمَّدٌ فِي حَدِيثِهِ، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ فَعَلْتُمْ حِينَ أَصْبَحْتُمْ؟ قَالَ: رَدِفَهُ الْفَضْلُ وَانْطَلَقْتُ أَنَا فِي سُبَّاقِ قُرَيْشٍ عَلَى رِجْلَيَّ.
کریب کہتے ہیں کہ میں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے پوچھا: جس شام کو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہو کر آئے تھے آپ نے کیا کیا کیا؟ وہ بولے: ہم اس گھاٹی میں آئے جہاں لوگ اپنے اونٹ رات کو قیام کے لیے بٹھاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی بیٹھا دی، پھر پیشاب کیا، (زہیر نے یہ نہیں کہا کہ پانی بہایا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا پانی منگایا اور وضو کیا، جس میں زیادہ مبالغہ نہیں کیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! نماز، (پڑھی جائے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز آگے چل کر (پڑھیں گے)“۔ اسامہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے یہاں تک کہ مزدلفہ آئے، وہاں آپ نے مغرب پڑھی پھر لوگوں نے اپنی سواریاں اپنے ٹھکانوں پر بٹھائیں یہاں تک کہ عشاء کی اقامت ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھی، پھر لوگوں نے اونٹوں سے اپنے بوجھ اتارے، (محمد کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ کریب کہتے ہیں) پھر میں نے پوچھا: صبح ہوئی تو آپ لوگوں نے کیسے کیا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سوار ہوئے، اور میں پیدل قریش کے لوگوں کے ساتھ ساتھ چلا۔
Ibrahim bin Uqabah said “Kuraib told me that he asked Umamah bin Zaid saying tell me how you did in the evening when you rode behind the Messenger of Allah ﷺ. He said “We came to the valley where the people make their Camels kneel down to take rest at night. ” The Messenger of Allah ﷺ made his she Camel kneel down and he then urinated. He then called for water for ablution and performed the ablution but he did not perform minutely (but performed lightly). I asked Messenger of Allah ﷺ, prayer? He replied “Prayer ahead of you”. He then mounted (the Camel) till we came to Al Muzadalifah. There iqamah for the sunset prayer was called. The people then made their Camels kneel down at their places. The Camels were not unloaded as yet, iqamah for the night prayers was called and he prayed. The people then unloaded the Camels. The narrator Muhammad added in his version of the tradition How did you do when the morning came? He replied Al Fadl rode behind him and I walked on foot among the people of the Quraish who went ahead.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1916
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر (ارکان عرفات سے فراغت کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو پیچھے سوار کر لیا اور درمیانی چال سے اونٹ ہانکنے لگے، لوگ دائیں اور بائیں اپنے اونٹوں کو مار رہے تھے آپ ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور فرماتے تھے: ”لوگو! اطمینان سے چلو“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے اس وقت لوٹے جب سورج ڈوب گیا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 554 (885)، (تحفة الأشراف: 10229)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/72، 75، 76، 81) (حسن)» (مگر «لا یلتفت» کا لفظ صحیح نہیں ہے، صحیح لفظ «یلتفت» ہے جیسا کہ ترمذی میں ہے)
Narrated Ali ibn Abu Talib: The Prophet then took up Usamah behind him (on the camel), and drove the camel at a quick pace. The people were beating their camels right and left, but he did not pay attention to them; he was saying: O people, preserve a quiet demeanour. He proceeded (from Arafat) when the sun had set.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1917
قال الشيخ الألباني: حسن دون قوله لا يلتفت والمحفوظ يلتفت وصححه الترمذي
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (885) وانظر الحديث الآتي (1935) سفيان الثوري مدلس وعنعن وحديث أحمد (1/ 76) سنده حسن وھو يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 74
(مرفوع) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن هشام بن عروة، عن ابيه، انه قال: سئل اسامة بن زيد وانا جالس، كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسير في حجة الوداع حين دفع؟ قال:" كان يسير العنق، فإذا وجد فجوة نص"، قال هشام: النص فوق العنق. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: سُئِلَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَأَنَا جَالِسٌ، كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ حِينَ دَفَعَ؟ قَالَ:" كَانَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ"، قَالَ هِشَامٌ: النَّصُّ فَوْقَ الْعَنَقِ.
عروہ کہتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں عرفات سے لوٹتے وقت کیسے چلتے تھے؟ فرمایا: تیز چال چلتے تھے، اور جب راستہ پا جاتے تو دوڑتے۔ ہشام کہتے ہیں: «نص»، «عنق» سے بھی زیادہ تیز چال کو کہتے ہیں۔
Hisham bin Urwah reported on the authority of his father Usamah bin Zaid was asked when I was sitting along with him, how did the Messenger of Allah ﷺ travel during the Farewell Pilgrimage when he proceeded from ‘Arafah to Al Muzdalifah? He replied he was travelling at a quick pace and when he found an opening he urged on his Camel. Hisham said “Nass (running or urging on the Camel) is above ‘anaq (going at a quick pace). ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1918
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1666) صحيح مسلم (1286)
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن موسى بن عقبة، عن كريب مولى عبد الله بن عباس، عن اسامة بن زيد، انه سمعه، يقول:" دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة، حتى إذا كان بالشعب نزل فبال فتوضا، ولم يسبغ الوضوء، قلت له: الصلاة، فقال:الصلاة امامك فركب، فلما جاء المزدلفة نزل فتوضا فاسبغ الوضوء، ثم اقيمت الصلاة فصلى المغرب، ثم اناخ كل إنسان بعيره في منزله، ثم اقيمت العشاء فصلاها ولم يصل بينهما شيئا". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ، يَقُولُ:" دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَةَ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالشِّعْبِ نَزَلَ فَبَالَ فَتَوَضَّأَ، وَلَمْ يُسْبِغْ الْوُضُوءَ، قُلْتُ لَهُ: الصَّلَاةُ، فَقَالَ:الصَّلَاةُ أَمَامَكَ فَرَكِبَ، فَلَمَّا جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ نَزَلَ فَتَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَنَاخَ كُلُّ إِنْسَانٍ بَعِيرَهُ فِي مَنْزِلِهِ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الْعِشَاءُ فَصَلَّاهَا وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب کی روایت ہے کہ انہوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے لوٹے جب گھاٹی میں آئے تو اترے، پیشاب کیا اور وضو کیا لیکن بھرپور وضو نہیں کیا، میں نے آپ سے عرض کیا: نماز (کا وقت ہو گیا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز آگے چل کر پڑھیں گے“، پھر آپ سوار ہوئے جب مزدلفہ پہنچے تو اترے وضو کیا اور اچھی طرح سے وضو کیا، پھر نماز کی تکبیر کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب پڑھی پھر ہر شخص نے اپنے اونٹ کو اپنے قیام گاہ میں بٹھایا پھر عشاء کی اقامت ہوئی تو آپ نے عشاء پڑھی اور درمیان میں کچھ نہیں پڑھا۔
Usamah bin Zaid said: The Messenger of Allah ﷺ returned from ‘Arafah. When he came to the mountain path, he alighted, urinated and performed the ablution, but he did not perform it completely. I said to him Prayer? He said “The prayer will be offered ahead of you. ” He then mounted. When he reached Al Muzdalifah he alighted performed the ablution, performed it well. Thereafter iqamah for the prayer was called and he offered the sunset prayer. Then everyone made his Camel kneel down at his place. Iqamah was then called for night prayer and he offered it but he did not pray between them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1920
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن، صحيح بخاري (1672) صحيح مسلم (1280 بعد ح 1285) مشكوة المصابيح (2616) 1925 ب: إسناده حسن
جناب شرید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (عرفات سے) روانہ ہوا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں نے زمین کو نہیں چھوا حتیٰ کہ مزدلفہ پہنچ گئے۔
اس سند سے بھی زہری سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے البتہ اس میں ہے کہ ایک ہی اقامت سے دونوں کو جمع کیا۔ احمد کہتے ہیں: وکیع نے کہا: ہر نماز الگ الگ اقامت سے پڑھی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ الحج 96 (1673)، سنن النسائی/ الأذان 20 (661)، الحج 207 (3031)، (تحفة الأشراف: 6923)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/56، 157)، دی/ المناسک 52 (1926) (صحیح)» (ہر صلاة کے لئے الگ الگ اقامت والی روایت ہی صحیح ہے، جیسا کہ جابر کی طویل حدیث میں گزرا)
The aforesaid tradition has been transmitted by Al Zuhri through a different chain of narrators. This version adds “Each prayer with an iqamah”. Ahmad reported on the authority of Waki “he offered each prayer with a single iqamah. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1922
اس سند سے بھی زہری سے ابن حنبل کی سند سے انہوں نے حماد سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے: ہر نماز کے لیے ایک الگ اقامت کہی اور پہلی نماز کے لیے اذان نہیں دی اور نہ ان دونوں میں سے کسی کے بعد نفل پڑھی۔ مخلد کہتے ہیں: ان دونوں میں سے کسی نماز کے لیے اذان نہیں دی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 6923) (صحیح)» (اذان والا جملہ صحیحین میں نہیں ہے، اور صحیح مسلم میں جابر کی روایت کے مطابق ایک اذان ثابت ہے، نیز ابن عمر رضی اللہ عنہ کی آنے والی حدیث نمبر (1933) میں اذان واقامت کی تصریح ہے)
The aforesaid tradition has also been transmitted to the same effect by by Al Zuhri with a different chain of narrators beginning with Ibn Hanbal on the authority of Hammad. This version adds “With an iqamah for every prayer, he did not call adhan for the first prayer and he did not offer supererogatory prayer after any of them. The narrator Makhlad said “He did not call adhan for any of them. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1923
قال الشيخ الألباني: صحيح خ دون قوله لم يناد وهو الصواب
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (1927)
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن عبد الله بن مالك، قال:" صليت مع ابن عمر المغرب ثلاثا والعشاء ركعتين، فقال له مالك بن الحارث: ما هذه الصلاة؟ قال: صليتهما مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذا المكان بإقامة واحدة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" صَلَّيْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ الْمَغْرِبَ ثَلَاثًا وَالْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ مَالِكُ بْنُ الْحَارِثِ: مَا هَذِهِ الصَّلَاةُ؟ قَالَ: صَلَّيْتُهُمَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَكَانِ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ".
عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مغرب تین رکعت اور عشاء دو رکعت پڑھی، تو مالک بن حارث نے ان سے کہا: یہ کون سی نماز ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ دونوں اسی جگہ ایک تکبیر سے پڑھیں۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/ الحج 56 (887)، (تحفة الأشراف: 7285)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/18، 33، 78، 152) (صحیح)» (ہر صلاة کے لئے الگ الگ اقامت کی زیادتی کے ساتھ یہ روایت صحیح ہے)
Abdullah ibn Malik said: I offered three rak'ahs of the sunset prayer and two rak'ahs of the night prayer along with Ibn Umar. Thereupon Malik ibn al-Harith said: What is this prayer? He said: I offered these prayers along with the Messenger of Allah ﷺ in this place with a single iqamah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1924
قال الشيخ الألباني: صحيح بزيادة لكل صلاة
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (887) أبو إسحاق مدلس وعنعن والحديث السابق (الأصل: 1927) يغني عنه وانظر الحديث الآتي (الأصل: 1930) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 74