اس سند سے بھی زہری سے ابن حنبل کی سند سے انہوں نے حماد سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے: ہر نماز کے لیے ایک الگ اقامت کہی اور پہلی نماز کے لیے اذان نہیں دی اور نہ ان دونوں میں سے کسی کے بعد نفل پڑھی۔ مخلد کہتے ہیں: ان دونوں میں سے کسی نماز کے لیے اذان نہیں دی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 6923) (صحیح)» (اذان والا جملہ صحیحین میں نہیں ہے، اور صحیح مسلم میں جابر کی روایت کے مطابق ایک اذان ثابت ہے، نیز ابن عمر رضی اللہ عنہ کی آنے والی حدیث نمبر (1933) میں اذان واقامت کی تصریح ہے)
The aforesaid tradition has also been transmitted to the same effect by by Al Zuhri with a different chain of narrators beginning with Ibn Hanbal on the authority of Hammad. This version adds “With an iqamah for every prayer, he did not call adhan for the first prayer and he did not offer supererogatory prayer after any of them. The narrator Makhlad said “He did not call adhan for any of them. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1923
قال الشيخ الألباني: صحيح خ دون قوله لم يناد وهو الصواب
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (1927)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1928
1928. اردو حاشیہ: علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔کہ یہ روایت صحیح ہے۔البتہ(لم یناد۔۔۔) کے الفاظ صحیح نہیں ہیں۔اس لیے کہ ایک مرتبہ تو اذان دی گئی بنا بریں اذان کی نفی صحیح نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1928