(مرفوع) حدثنا قتيبة، وابن موهب المعنى، قالا: حدثنا المفضل، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ارتحل قبل ان تزيغ الشمس اخر الظهر إلى وقت العصر، ثم نزل فجمع بينهما، فإن زاغت الشمس قبل ان يرتحل صلى الظهر، ثم ركب صلى الله عليه وسلم". قال ابو داود: كان مفضل قاضي مصر، وكان مجاب الدعوة، وهو ابن فضالة. (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَابْنُ مَوْهَبٍ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ، ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا، فَإِنْ زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ رَكِبَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: كَانَ مُفَضَّلٌ قَاضِيَ مِصْرَ، وَكَانَ مُجَابَ الدَّعْوَةِ، وَهُوَ ابْنُ فَضَالَةَ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ فرماتے تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کر دیتے پھر قیام فرماتے اور دونوں کو جمع کرتے، اور اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو آپ ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مفضل مصر کے قاضی اور مستجاب لدعوات تھے، وہ فضالہ کے لڑکے ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ تقصیر الصلاة 15 (1111)، 16 (1112)، صحیح مسلم/المسافرین 5 (704)، سنن النسائی/المواقیت 41 (587)،(تحفة الأشراف: 1515)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/247، 265) (صحیح)»
Narrated Anas bin Malik: When the Messenger of Allah ﷺ proceeded before the sun had declined, he delayed the noon prayer till the time of the afternoon prayer, he would then alight and combine the two prayers. If the sun declined before he moved off, he would offer the noon prayer and rode (the beast) - may peace be upon him. Abu Dawud said: The narrator Mufaddal was the judge of Egypt. His supplication was accepted by Allah; he was the son of Fudalah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 4 , Number 1214
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1112) صحيح مسلم (704)
اس طریق سے بھی عقیل سے یہی روایت اسی سند سے منقول ہے البتہ اس میں اضافہ ہے کہ مغرب کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ جب شفق غائب ہو جاتی تو اسے اور عشاء کو ملا کر پڑھتے۔
The above mentioned tradition has also been reported by 'Uqail through a different chain of narrators. He said: He would delay the evening prayer till he combined the evening and the night prayers when the twilight disappeared.
USC-MSA web (English) Reference: Book 4 , Number 1215
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1112) صحيح مسلم (704)
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، اخبرنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن ابي الطفيل عامر بن واثلة، عن معاذ بن جبل، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل ان تزيغ الشمس اخر الظهر حتى يجمعها إلى العصر فيصليهما جميعا، وإذا ارتحل بعد زيغ الشمس صلى الظهر والعصر جميعا ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب اخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب". قال ابو داود: ولم يرو هذا الحديث إلا قتيبة وحده. (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ حَتَّى يَجْمَعَهَا إِلَى الْعَصْرِ فَيُصَلِّيَهُمَا جَمِيعًا، وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ زَيْغِ الشَّمْسِ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا ثُمَّ سَارَ، وَكَانَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ الْمَغْرِبَ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الْعِشَاءِ، وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ عَجَّلَ الْعِشَاءَ فَصَلَّاهَا مَعَ الْمَغْرِبِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَلَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا قُتَيْبَةُ وَحْدَهُ.
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک میں سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ فرماتے تو ظہر کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ اسے عصر سے ملا دیتے، اور دونوں کو ایک ساتھ ادا کرتے، اور جب سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کرتے تو ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھتے پھر روانہ ہوتے، اور جب مغرب سے پہلے کوچ فرماتے تو مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عشاء کے ساتھ ملا کر ادا کرتے، اور اگر مغرب کے بعد کوچ کرتے تو عشاء میں جلدی فرماتے اور اسے مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث سوائے قتیبہ کے کسی اور نے روایت نہیں کی ہے ۱؎۔
Narrated Muadh ibn Jabal: The Prophet ﷺ was engaged in the Battle of Tabuk. If he moved off before the sun had declined, he would delay the noon prayer till he would combine it with the afternoon prayer and would offer them together. If he moved off after the sun had declined, he would combine the noon and afternoon prayers, and then he proceeded; if he moved off before the evening prayer, he would delay the evening prayer; he would offer it along with the night prayer, he would delay the evening prayer; he would offer it along with the night prayer. If he moved off after the evening prayer, he would offer the night prayer earlier and offer it along with the evening prayer. Abu Dawud said: This tradition has not been narrated by anyone except by Qutaibah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 4 , Number 1216
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (1344) أخرجه الترمذي (553 وسنده صحيح) قتيبة بن سعيد ثقة حافظ ولا يضر تفرده
(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، عن عدي بن ثابت، عن البراء، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر"فصلى بنا العشاء الآخرة، فقرا في إحدى الركعتين بالتين والزيتون". (مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ"فَصَلَّى بِنَا الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، فَقَرَأَ فِي إِحْدَى الرَّكْعَتَيْنِ بِالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ".
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نکلے آپ نے ہمیں عشاء پڑھائی اور دونوں رکعتوں میں سے کسی ایک رکعت میں «والتين والزيتون» پڑھی۔
Narrated Al-Bara: We went out on a journey along with the Messenger of Allah ﷺ. He led us in the night prayer and he recited in one of the rak'ahs: "By the fig and the olive. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 4 , Number 1217
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (767) صحيح مسلم (464)
براء بن عازب انصاری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھارہ سفروں میں رہا، لیکن میں نے نہیں دیکھا کہ سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے آپ نے دو رکعتیں ترک کی ہوں۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 276 (الجمعة 41) (550)، (تحفة الأشراف: 1924)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/292، 295) (ضعیف)» (اس کے راوی ”ابو بسرة غفاری“ لین الحدیث ہیں)
Narrated Al-Bara ibn Azib: I accompanied the Messenger of Allah ﷺ on eighteen journeys and I never saw him fail to pray two rak'ahs when the sun had passed the meridian before offering the noon prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Book 4 , Number 1218
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (1352) أخرجه الترمذي (550 وسنده حسن)
(مرفوع) حدثنا القعنبي، حدثنا عيسى بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب، عن ابيه، قال: صحبت ابن عمر في طريق، قال: فصلى بنا ركعتين، ثم اقبل، فراى ناسا قياما، فقال: ما يصنع هؤلاء؟ قلت: يسبحون، قال: لو كنت مسبحا اتممت صلاتي، يا ابن اخي، إني صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم في السفر" فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله عز وجل" وصحبت ابا بكر فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله عز وجل، وصحبت عمر فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله تعالى، وصحبت عثمان فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله تعالى، وقد قال الله عز وجل: لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ فِي طَرِيقٍ، قَالَ: فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَقْبَلَ، فَرَأَى نَاسًا قِيَامًا، فَقَالَ: مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟ قُلْتُ: يُسَبِّحُونَ، قَالَ: لَوْ كُنْتُ مُسَبِّحًا أَتْمَمْتُ صَلَاتِي، يَا ابْنَ أَخِي، إِنِّي صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ" فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ" وَصَحِبْتُ أَبَا بَكْرٍ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَصَحِبْتُ عُمَرَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَصَحِبْتُ عُثْمَانَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَقَدْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21.
حفص بن عاصم کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ رہا تو آپ نے ہم کو دو رکعت نماز پڑھائی پھر متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ (نماز کی حالت میں) کھڑے ہیں، پوچھا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: یہ نفل پڑھ رہے ہیں، تو آپ نے کہا: بھتیجے! اگر مجھے نفل ۱؎ پڑھنی ہوتی تو میں اپنی نماز ہی پوری پڑھتا، میں سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا لیکن آپ نے دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی، اور عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی، مجھے (سفر میں) عثمان رضی اللہ عنہ کی رفاقت بھی ملی لیکن انہوں نے بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی، اور اللہ عزوجل فرما چکا ہے: «لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة»”تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 11 (1101)، صحیح مسلم/المسافرین 1 (689)، سنن النسائی/تقصیر الصلاة 4 (1459)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 75 (1071)، (تحفة الأشراف: 6693)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 274 (الجمعة 39) (544)، مسند احمد (2/24، 56)، سنن الدارمی/المناسک 47 (1916) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نفل کی دو قسمیں ہیں: راتب سنتیں اور غیر راتب سنتیں، راتب سنتیں فرض نماز سے پہلے یا بعد میں پڑھی جاتی ہیں، اور غیر راتب عام نفلی نماز کو کہا جاتا ہے تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسافر عام نفلی نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ سنن رواتب میں اختلاف ہے اور اس حدیث سے راتب سنتیں ہی مراد ہیں، اس سلسلہ میں راجح قول یہ ہے کہ سفر میں سنن رواتب کا نہ پڑھنا افضل ہے۔
Narrated Hafs bin Asim: I accompanied Ibn Umar on the way (on a journey). He led us in two rak'ah's of (the noon) prayer. Then he proceeded and saw some people standing. He asked: What are they doing ? I replied: They are glorifying Allah (i. e. offering supererogatory prayer). He said: If I had offered the supererogatory prayer (while travelling), I would have completed prayer, my cousin. I accompanied the Messenger of Allah ﷺ during the journey, he did not pray more than two raka'at until his death. I also accompanied Abu Bakr, and he prayed two raka'at and nothing more until he died. I also accompanied Umar, and he prayed two raka'at and nothing more until he died. I also accompanied Uthman, and he prayed two raka'at and nothing more until he died. Indeed Allah, the Exalted, said: "Certainly you have in the Messenger of Allah an excellent exemplar"
USC-MSA web (English) Reference: Book 4 , Number 1219
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1102) صحيح مسلم (689)
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، اخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابيه، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسبح على الراحلة اي وجه توجه ويوتر عليها غير انه لا يصلي المكتوبة عليها". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَبِّحُ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَيَّ وَجْهٍ تَوَجَّهَ وَيُوتِرُ عَلَيْهَا غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ عَلَيْهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نفل پڑھتے تھے، خواہ آپ کسی بھی طرف متوجہ ہوتے اور اسی پر وتر پڑھتے، البتہ اس پر فرض نماز نہیں پڑھتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 7 (1097)، صحیح مسلم/المسافرین 4 (700)، سنن النسائی/الصلاة 23 (491)، والمساجد 46 (740)، والقبلة 2 (745)، سنن الدارمی/الصلاة 213 (1631)، (تحفة الأشراف: 6978)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 228 (472)، سنن النسائی/قیام اللیل 31 (1687)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 127(1200)، موطا امام مالک/ قصر الصلاة 3 (15)، مسند احمد (2/57، 138) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے ثابت ہوا کہ فرض کے سوا نفلی نماز اور وتر بھی سواری پر ادا کی جا سکتی ہے، ان کے لئے قبلہ رخ ہونے کی شرط نہیں ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حالت سفر میں عام نفل پڑھ سکتے ہیں، اور وتر اور فجر کی سنت سفر اور حضر دونوں میں تاکیداً پڑھنی چاہئے۔
Narrated Ibn Umar: While travelling the Messenger of Allah ﷺ would pray voluntary prayer on his riding beast in whatever direction it turned; and he would observe witr prayer, but he did not offer the obligatory prayers upon it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 4 , Number 1220
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1098) صحيح مسلم (700)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے اور نفل پڑھنے کا ارادہ کرتے تو اپنی اونٹنی قبلہ رخ کر لیتے اور تکبیر کہتے پھر نماز پڑھتے رہتے خواہ آپ کی سواری کا رخ کسی بھی طرف ہو جائے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 512)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 10 (1100)، صحیح مسلم/المسافرین 4 (700)، سنن النسائی/المساجد 46 (742)، موطا امام مالک/ قصر الصلاة 7 (26)، مسند احمد (3/203) (حسن)»
Narrated Anas ibn Malik: When the Messenger of Allah ﷺ was on a journey and wished to say voluntary prayer, he made his she-camel face the qiblah and uttered the takbir (Allah is most great), then prayed in whatever direction his mount made his face.
USC-MSA web (English) Reference: Book 4 , Number 1221
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (1345)
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة، قال: فجئت وهو" يصلي على راحلته نحو المشرق، والسجود اخفض من الركوع". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، قَالَ: فَجِئْتُ وَهُوَ" يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ، وَالسُّجُودُ أَخْفَضُ مِنَ الرُّكُوعِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی ضرورت سے بھیجا، میں (واپس) آیا تو دیکھا کہ آپ اپنی سواری پر مشرق کی جانب رخ کر کے نماز پڑھ رہے ہیں (آپ کا) سجدہ رکوع کی بہ نسبت زیادہ جھک کر ہوتا تھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 143 (351)، (تحفة الأشراف: 2750)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3 332، 379، 388) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی رکوع اور سجدہ دونوں اشارے سے کرتے اور دونوں میں جھکتے تھے، لیکن سجدہ میں رکوع سے زیادہ جھکتے تھے۔
Narrated Jabir ibn Abdullah: The Messenger of Allah ﷺ sent me on some business, and when I came to him he was praying on (the back of) his riding beast (moving) towards the east and making the prostration lower than the bowing.
USC-MSA web (English) Reference: Book 4 , Number 1223
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (540) مشكوة المصابيح (1346)