محمد بن جعفر اور ابن عدی دونوں نے شعبہ سے، شعبہ سے ابن معاذ کی سند کے ساتھ اسی کی حدیث نے مانند روایت کی، مکر ابن ابی عدی کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " (اس کے) گواہ بن جاؤ، گواہ بن جاؤ۔"
یہی روایت امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، ہاں ابن ابی عدی رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:" گواہ ہو جاؤ۔گواہ ہو جاؤ۔"
۔ شیبان نےکہا: ہمیں قتادہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کہ آپ انھیں (اپنی نبوت کی سچائی کی) کوئی نشانی دکھائیں تو آپ نے انھیں چاند کے دو ٹکڑے ہونا دکھایا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی کہ آپ انہیں کوئی نشانی (معجزہ) دکھائیں تو آپ نے انہیں، دو دفعہ انشقاق قمر دکھایا۔
یحییٰ بن سعید، محمد بن جعفر اور ابو داود سب نے شعبہ سے، انھوں نے قتادہ سے اور انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: چاند دو ٹکڑوں میں پھٹ گیا۔ اور ابو داود (طیالسی) کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں چاند پھٹ گیا۔
یہی روایت امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، چاند دو ٹکڑوں میں بٹ گیا، ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں چاند پھٹ گیا۔
ابو بکر بن ابی شیبہ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابو معاویہ اور ابو اسامہ نے اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے سعید بن جبیر سے، انھوں نے ابو عبدالرحمان سلمی سے اور انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تکلیف دل باتیں سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں، ا س کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرایا جاتا ہے اور اس کی اولاد بنائی جاتی ہے پھر بھی وہ انھیں عافیت میں رکھتا ہے اور انھیں رزق عطا کرتا ہے۔"
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ عزوجل سے بڑھ کر کوئی اذیت ناک باتوں کو برداشت کرنے والا نہیں ہے اس کے ساتھ شریک قراردئیے جاتے ہیں اور اس کے لیے اولاد قراردی جاتی ہے پھر بھی وہ ایسے لوگوں کو عافیت و تندرستی عنایت فرماتا ہے اور نہیں رزق سے نوازتا ہے۔"
وکیع نے کہا: ہمیں اعمش نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں سعید بن جبیر نے ابو عبدالرحمان سلمی سے، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی، سوائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے: "اور اس کی اولاد بنائی جاتی ہے"انھوں نے اس (قول) کو بیان نہیں کیا۔
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سےحضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی، نبی اکرم سے روایت بیان کرتے ہیں،مگر اس میں آپ کا بول "اللہ کے لیے اولاد ٹھہرائی جاتی ہے۔"موجود نہیں ہے۔
عبیداللہ بن سعید نے مجھے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابو اسامہ نے اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں سعید بن جبیر نے ابو عبدالرحمان سلمی سے روایت کی، انھوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن قیس (ابو موسیٰ اشعری) رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی نہیں جو تکلیف دہ باتوں پر جنھیں وہ سنتا ہے اللہ تعالیٰ سے زیادہ صبر کرنے والا ہو، لوگ (دوسروں کو) اس کاشریک ٹھہراتے ہیں، اس کی اولاد بناتے ہیں اور وہ اس (سب کچھ) ک باوجود انھیں رزق دیتا ہے، عافیت بخشتا ہے اور (جو مانگتے ہیں) عطا کرتا ہے۔"
حضرت عبد اللہ بن قیس(ابو موسی) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تکلیف دہ بات سن کر، اللہ سے زیادہ برداشت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔"لوگ اس کے مد مقابل ٹھہراتے ہیں اور اس کے لیے اولاد قراردیتے ہیں، اس کے باوجود انہیں روزی دیتا ہے، عافیت بخشتا ہے اور (مال و دولت)عطا فرماتا ہے۔"
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، عن ابي عمران الجوني ، عن انس بن مالك ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " يقول الله تبارك وتعالى: لاهون اهل النار عذابا لو كانت لك الدنيا وما فيها، اكنت مفتديا بها، فيقول: نعم، فيقول: قد اردت منك اهون من هذا وانت في صلب آدم، ان لا تشرك احسبه، قال: ولا ادخلك النار، فابيت إلا الشرك "،حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: لِأَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ كَانَتْ لَكَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، أَكُنْتَ مُفْتَدِيًا بِهَا، فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: قَدْ أَرَدْتُ مِنْكَ أَهْوَنَ مِنْ هَذَا وَأَنْتَ فِي صُلْبِ آدَمَ، أَنْ لَا تُشْرِكَ أَحْسِبُهُ، قَالَ: وَلَا أُدْخِلَكَ النَّارَ، فَأَبَيْتَ إِلَّا الشِّرْكَ "،
معاذ عنبری نے کہا: ہمیں شعبہ نے ابو عوان جونی سے، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛" اللہ تبارک وتعالیٰ اس شخص سے، جسے اہل جہنم میں سب سے کم عذاب ہوگا، فرمائے گا: اگر پوری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے۔تمہارے پاس ہوتو (عذاب سے چھوٹ جانے کے لئے) اسے بطور فدیہ دے دو گے؟وہ کہے گا: ہاں، تو وہ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا: میں نے تم سے اس وقت جب تم آدم علیہ السلام کی پشت میں تھے، اس کی نسبت بہت کم کا مطالبہ کیا تھا کہ تم شرک نہ کرنا۔میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (آگے یہ) فرمایا۔۔۔اور میں تمھیں آگ میں نہیں ڈالوں گا، مگر تم نے شرک (کرنے) کے سوا ہر چیز سے انکارکردیا۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ سب سے ہلکے عذاب والے دوزخی سے فرمائے گا، اگر تیرے پاس دنیا و مافیہا ہو تو کیا تو اس کو بطور فدیہ (تاوان)(آگ سے بچنے کے لیے)دے دے گا تو وہ کہے گا، ہاں اللہ فرمائے گا، میں نے تم سے اس سے بہت کم آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا جبکہ تو ابھی آدمی کی پشت میں تھا کہ تم شرک نہ کرنا، (میرا خیال ہے، آپ نے فرمایا) اور میں تمھیں آگ میں داخل نہیں کروں گا، لیکن تونے شرک کرنے پر اصرار کیا۔"
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے ابو عمران سے حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کررہے تھے، اسی کے مانند، سوائے (اللہ تعالیٰ کے) اس قول کے: "اور میں تمھیں آگ میں نہیں ڈالوں گا"انھوں نے اسے بیان نہیں کیا۔
امام صاحب ایک اور استاد سے،حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں،مگر اس میں آپ کا قول "اور میں تمھیں آگ میں داخل نہیں کروں گا۔"بیان نہیں کیا۔