وہیب نے کہا: ہمیں سعید جریری نے ابو عبداللہ جسری سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابن صامت سے اور انہوں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: (اللہ کے ذکر کے لیے) کون سا کلمہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جسے اللہ نے اپنے فرشتوں کے لیے یا (ان سمیت) اپنے تمام بندوں کے لیے منتخب فرمایا ہے: سبحان اللہ وبحمدہ "میں (ہر نعمت کے لیے) اللہ کی حمد کے ساتھ ہر ناشایان چیز سے اس کی پاکیزگی بیان کرتا ہوں۔"
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا،کون سا کلام افضل ہے؟ آپ نے فرمایا:" وہ کلام جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں یا بندوں کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ یعنی "سبحان اللہ وبحمدہ"
شعبہ نے جریر سے، انہوں نے ابوعبداللہ جسری سے جو عنزہ قبیلے سے تھے، انہوں نے عبداللہ بن صامت سے اور انہوں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں وہ کلمہ نہ بتاؤں جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟" میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے وہ کلمہ بتائیے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کو سب سےزیادہ محبوب کلمہ سبحان اللہ وبحمدہ ہے۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" کیا میں تمھیں یہ نہ بتاؤں، اللہ کوکون سا کلام محبوب ہے؟"میں نے کہا:"اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے خبر دیجیے اللہ کوکون سا کلام محبوب ہے۔ آپ نے فرمایا:"اللہ کو سب سے زیادہ محبوب کلام سبحان اللہ وبحمدہ " ہے۔
) فضیل نے طلحہ بن عبیداللہ بن کریز سے، انہوں نے ام درداء سے اور انہوں نے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی مسلمان بندہ نہیں جو اپنے بھائی کی پیٹھ پیچھے اس کے لیے دعا کرے، مگر ایک فرشتہ (ہے جو) کہتا ہے: تمہیں بھی اس کے مانند ملے۔"
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جو مسلمان بندہ بھی اپنے بھائی کی غیر حاضری میں اس کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے تجھے بھی اس کے مثل حاصل ہو۔
) موسیٰ بن سروان معلم نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: مجھے طلحہ بن عبیداللہ بن کریز نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کی، کہا: میرے آقا (خاوند) نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "جس شخص نے اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے دعا کی تو جو فرشتہ اس کے ساتھ مقرر ہے وہ کہتا ہے: آمین اور تمہیں بھی اسی کے مانند عطا ہو۔"
حضرت اُم درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے خاوند سے بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ئے سنا: "جو اپنے بھائی کے لیے پس پشت دعا مانگتا ہے تو اس پر مقرر فرشتہ آمین کہتا ہے اور تیرے لیے اس کے مثل ہو۔"
عیسیٰ بن یونس نے کہا: ہمیں عبدالملک بن ابی سلیمان نے ابوزبیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبداللہ بن صفوان کے بیٹے صفوان سے روایت کی، (حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کی بیٹی) درداء، ان (صفوان) کی زوجیت میں تھی، وہ کہتے ہیں: اور میں شام آیا تو حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے ہاں ان کے گھر گیا، وہ نہیں ملے، میں حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا سے ملا تو انہوں نے کہا: کیا تم اس سال حج کا ارادہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: ہمارے لیے خیر کی دعا کرنا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: "مسلمان کی اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے کی گئی دعا مستجاب ہوتی ہے، اس کے سر کے قریب ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، وہ جب بھی اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو مقرر کیا ہوا فرشتہ اس پر کہتا ہے: آمین، اور تمہیں بھی اسی کے مانند عطا ہو۔"
صفوان یعنی عبد اللہ بن صفوان کے بیٹے اُم درداء جن کی بیوی تھی، کہتے ہیں میں شام (اپنے سسرال) آیا چنانچہ ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کے گھر گیا وہ نہ ملے اور مجھے اُم درداء مل گئیں،انھوں نے پوچھا اس سال تمھارا حج کرنے کا ارادہ ہے؟میں نے کہا جی ہاں انھوں نے کہا ہمارے لیے بھی اللہ سے خیر مانگنا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:"انسان کی اپنے بھائی کے لیے پس پشت دعا قبول ہوتی ہے، اس کے سرہانے ایک فرشتہ مقرر ہے، جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے خیر مانگتا ہے اس پر مقرر فرشتہ کہتا ہے، آمین اور تجھے بھی اس کے مثل حاصل ہو۔"
قال: فخرجت إلى السوق فلقيت ابا الدرداء ، فقال لي مثل ذلك يرويه عن النبي صلى الله عليه وسلم،قَالَ: فَخَرَجْتُ إِلَى السُّوقِ فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ ، فَقَالَ لِي مِثْلَ ذَلِكَ يَرْوِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
(صفوان نے) کہا: میں بازار کی طرف نکلا تو حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے بھی میری ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے مجھ سے وہی کچھ کہا (جو ان کی بیوی حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا نے کہا تھا۔)
وہ کہتے ہیں۔ میں بازار کے لیے نکلا تو ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملا تو انھوں نے مجھے یہی روایت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنائی۔
یزید بن ہارون نے عبدالملک بن ابی سلیمان سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی، اور کہا: صفوان بن عبداللہ بن صفوان سے روایت ہے۔
مذکورہ بالا روایت امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں۔بعض نسخوں میں اُم الدرد کی جگہ درداء ہے اور یہی صحیح ہے کہ وہ اُم درداء کی بیٹی تھی۔اور یہاں اُم درداء سے اُم درداء صغری ہے جس کا نام ھجیمہ ہے اور یہ انتہائی فقیہہ،عالمہ اور زاہدہ تھیں۔
ابواسامہ اور محمد بن بشر نے زکریا بن ابی زائدہ سے، انہوں نے سعید بن ابی بُردہ سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس بات پر (اپنے) بندے سے راضی ہوتا ہے کہ وہ ایک کھانا کھائے اور اس پر اللہ کی حمد کرے یا پینے کی کوئی چیز (پانی، دودھ وغیرہ) پیے اور اس پر اللہ کی حمد کرے۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ اس بات سے راضی ہوتا ہے کہ بندہ کھانا کھا کر اس کی اس پر حمد (شکریہ) بیان کرے۔ یا پانی پیے تو اس پر اس کا شکر ادا کرے۔"
اسحٰق بن یوسف ازرق نے کہا: ہمیں زکریا بن ابی زائدہ نے سعید بن ابی بُردہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، (آگے) اسی کے مانند (ہے۔)
یہی روایت امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں۔