حدثني سويد بن سعيد ، حدثني حفص بن ميسرة ، عن زيد بن اسلم ، ان عبد الملك بن مروان بعث إلى ام الدرداء بانجاد من عنده، فلما ان كان ذات ليلة قام عبد الملك من الليل، فدعا خادمه فكانه ابطا عليه فلعنه، فلما اصبح، قالت له ام الدرداء: سمعتك الليلة لعنت خادمك حين دعوته، فقالت: سمعت ابا الدرداء ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يكون اللعانون شفعاء ولا شهداء يوم القيامة ".حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنِي حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنَّ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ مَرْوَانَ بَعَثَ إِلَى أُمِّ الدَّرْدَاءِ بِأَنْجَادٍ مِنْ عِنْدِهِ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ قَامَ عَبْدُ الْمَلِكِ مِنَ اللَّيْلِ، فَدَعَا خَادِمَهُ فَكَأَنَّهُ أَبْطَأَ عَلَيْهِ فَلَعَنَهُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَتْ لَهُ أُمُّ الدَّرْدَاءِ: سَمِعْتُكَ اللَّيْلَةَ لَعَنْتَ خَادِمَكَ حِينَ دَعَوْتَهُ، فَقَالَتْ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَكُونُ اللَّعَّانُونَ شُفَعَاءَ وَلَا شُهَدَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
حفص بن میسرہ نے زید بن اسلم سے روایت کی کہ عبدالملک بن مروان نے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کو اپنی طرف سے گھر کا کچھ عمدہ سامان بھیجا، پھر ایسا ہوا کہ ایک رات کو عبدالملک اٹھا، اس نے اپنے خادم کو آواز دی، غالبا اس نے دیر لگا دی تو عبدالملک نے اس پر لعنت کی، جب اس (عبدالملک) نے صبح کی تو حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رات کو سنا کہ جس وقت تم نے اپنے خادم کو بلایا تھا تو تم نے اس پر لعنت کی تھی، پھر وہ کہنے لگیں: میں نے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زیادہ لعنت کرنے والے قیامت کے دن نہ شفاعت کرنے والے ہوں گے، نہ گواہ بنیں گے۔"
زید بن اسلم رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ عبد الملک بن مروان نے اُم لدرداء رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی طرف سے کچھ گھر کی آرائش کا سامان بھیجا (وہ اس کے ہاں مہمان تھیں) پھر کسی رات کو عبدالملک رات کے وقت اٹھا اور اپنے خادم کو آواز دی تو گویا اس نے آنے میں تاخیر کی چنانچہ اس نے اس پر لعنت بھیجی تو جب صبح ہوئی حضرت ام الدرداء رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کہا میں نے رات تجھے سنا تو نے جب اپنے خادم کو بلایا اس پر لعنت بھیجی میں نے ابو الدراء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، انھوں نے بتایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لعنت بھیجنا جن کی عادت ہے وہ قیامت کے دن سفارشی اور گواہ نہیں بن سکیں گے۔
ہشام بن سعد نے زید بن اسلم اور ابوحازم سے روایت کی، انہوں نے ام درداء رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "بلاشبہ زیادہ لعنت کرنے والے قیامت کے روز نہ شہادت دینے والے ہوں گے اور نہ شفاعت کرنے والے۔"
حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:"بہت زیادہ لعنت کرنے والے قیامت کے روز گواہ ہوں گے نہ سفارشی۔"لعانین سے مقصد یہ ہے کہ دوسروں پر لعنت بھیجنا ان کا شیوہ اور عادت ہے اگر کبھی کبھار یا ضرورت کے موقع اور محل پر یہ عمل سر زد ہوجائے تو وہ اس میں داخل نہیں ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی: اللہ کے رسول! مشرکین کے خلاف دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا: "مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، مجھے تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مشرکوں کے خلاف بددعا فرمائیں،آپ نے فرمایا:"مجھے لعنت کرنے والا بنا کرنہیں بھیجا گیا، مجھے تو بس رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔"
25. باب: جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی اور وہ لعنت کے لائق نہ تھا تو اس پر رحمت ہو گی۔
Chapter: Whomever Is Cursed, Reviled Or Prayed Against By The Prophet (SAW) When He Does Not Deserve That, It Will Be Purification, Reward And Mercy For Him
جریر نے اعمش سے، انہوں نے ابوضحیٰ سے، انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو شخص آئے، مجھے معلوم نہیں کس معاملے میں انہوں نے آپ سے گفتگو کی اور آپ کو ناراض کر دیا، آپ نے ان پر لعنت کی اور ان دونوں کو برا کہا، جب وہ نکل کر چلے گئے تو میں نے عرض کی: کوئی شخص بھی جسے کوئی خیر ملی ہو (وہ) ان دونوں کو نہیں ملی۔ آپ نے فرمایا: "وہ کیسے؟" کہا: میں نے عرض کی: آپ نے ان کو لعنت کی اور برا کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں علم نہیں ہے میں نے اپنے رب سے کیا شرط کی ہوئی ہے؟ میں نے کہا ہے: اے اللہ! میں صرف بشر ہوں، لہذا میں جس مسلمان کو لعنت کروں یا برا کہوں تو اس (لعنت اور برا بھلا کہنے) کو اس کے لیے گناہوں سے پاکیزگی اور حصولِ اجر کا ذریعہ بنا دے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو آدمی حاضر ہوئے اور آپ سے کسی چیز کے بارے میں گفتگو کی، مجھے معلوم نہیں وہ کیا مسئلہ تھا تو آپ کو غصہ دلادیا، چنانچہ آپ نے ان پر لعنت بھیجی اور سخت کلامی کی تو جب وہ دونوں چلے گئے میں نے کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اور کسی کو تو خیر میسر آسکتی ہے یہ دونوں تو اس کو حاصل نہیں کر سکتے، آپ نے پوچھا "یہ کیوں؟"میں نے کہا، آپ نے ان پر لعنت بھیجی ہے اور ان کو برابھلا کہا ہے آپ نے فرمایا:"کیا تمھیں معلوم نہیں ہے میں نے اپنے رب سے کیا طے کیا ہے،کیا شرط کی ہے؟ میں نے کہا ہے اے اللہ! میں صرف بشر ہوں(الہ نہیں ہوں)تو جس مسلمان پر میں لعنت بھیجوں یا اس کو برا بھلا کہوں تو اسے اس کے لیے پاکیزگی اور اجرکا باعث بنا دے۔"
ابومعاویہ اور عیسیٰ بن یونس نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ جریر کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی، اور عیسیٰ (بن یونس) کی حدیث میں کہا: وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدگی میں ملے تو آپ نے انہیں برا بھلا کہا، ان دونوں پر لعنت بھیجی اور ان کو نکال دیا۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت مختلف اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، عیسیٰ کی حدیث میں یہ ہے، ان دونوں نے آپ سے خلوت میں بات کی، چنانچہ آپ نے ان کو برابھلا کہا اور لعنت بھیجی اور ان کو نکلوادیا۔
) عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں اعمش نے ابوصالح سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! میں صرف ایک بشر ہوں، اس لیے میں جس مسلمان کو برا بھلا کہوں یا اس پر لعنت کروں یا اس کو کوڑے ماروں تو اسے اُس کے لیے پاکیزگی (کا ذریعہ) اور رحمت بنا دے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے اللہ!میں ایک بشر ہی ہوں (غصہ میں آسکتا ہوں)تو جس مسلمان آدمی کو میں برابھلا کہوں یا اس پر لعنت بھیجوں، یا اس کو سزا دوں تو اس چیز کو اس کے لیے پاکیزگی اور رحمت بنادے۔"
عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں اعمش نے ابوسفیان سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی حدیث کے مانند روایت کی مگر اس میں "پاکیزگی اور اجر" کے الفاظ ہیں۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں صرف یہ فرق ہے کہ اس میں رحمت کی جگہ اجر کا لفظ ہے۔"
ابومعاویہ اور عیسیٰ بن یونس نے اعمش سے عبداللہ بن نمیر کی سند کے ساتھ اسی کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی، مگر عیسیٰ کی روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں "بنا دے" اور "اجر" کے لفظ ہیں اور جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اور "بنا دے" اور "رحمت" کے لفظ ہیں۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت مختلف اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے اجر کا لفظ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں کہا ہے اور رحمت کا لفظ حضرت جابر کی روایت میں۔
مغیرہ بن عبدالرحمٰن حزامی نے ہمیں ابوزناد سے حدیث بیان کی، انہوں نے اعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعا کرتے ہوئے) فرمایا: "اے اللہ! میں تجھ سے عہد لیتا ہوں جس میں تو میرے ساتھ ہرگز خلاف ورزی نہیں فرمائے گا کہ میں ایک بشر ہی ہوں، میں جس کسی مومن کو تکلیف پہنچاؤں، اسے برا بھلا کہوں، اس پر لعنت کروں، اسے کوڑے ماروں تو ان تمام باتوں کو قیامت کے دن اس کے لیے رحمت، پاکیزگی اور ایسی قربت بنا دے جس کے ذریعے سے تو اسے اپنا قرب عطا فرمائے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے اللہ! میں تجھے سے یہ عہد لیتا ہوں تو میرے ساتھ اس کے خلاف نہیں کرے گا میں ایک بشر ہی تو ہوں، اس لیے جس مومن کو میں نے اذیت دی ہے، اس کو سخت سست کہا ہے اس پر لعنت بھیجی ہے، اس کو سزا دی ہے تو اس کو اس کے لیے رحمت پاکیزگی اور ایسی قربت بنا دے جس کے ذریعہ تو اس قیامت کے روز تقرب بخشے۔"