حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن ابي حازم ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: " استعمل على المدينة رجل من آل مروان، قال: فدعا سهل بن سعد فامره ان يشتم عليا، قال: فابى سهل، فقال له: اما إذ ابيت، فقل: لعن الله ابا التراب، فقال سهل: ما كان لعلي اسم احب إليه من ابي التراب، وإن كان ليفرح إذا دعي بها، فقال له: اخبرنا عن قصته لم سمي ابا تراب، قال: جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت فاطمة فلم يجد عليا في البيت، فقال: اين ابن عمك؟ فقالت: كان بيني وبينه شيء فغاضبني، فخرج فلم يقل عندي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لإنسان انظر اين هو؟ فجاء، فقال: يا رسول الله؟ هو في المسجد راقد، فجاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع، قد سقط رداؤه عن شقه، فاصابه تراب، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسحه عنه، ويقول: قم ابا التراب، قم ابا التراب ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: " اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ، قَالَ: فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا، قَالَ: فَأَبَى سَهْلٌ، فَقَالَ لَهُ: أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ، فَقُلْ: لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ، فَقَالَ سَهْلٌ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا، فَقَالَ لَهُ: أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ، قَالَ: جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ: أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ؟ فَقَالَتْ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ فَغَاضَبَنِي، فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِإِنْسَانٍ انْظُرْ أَيْنَ هُوَ؟ فَجَاءَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ، فَجَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ، قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ، فَأَصَابَهُ تُرَابٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ، وَيَقُولُ: قُمْ أَبَا التُّرَابِ، قُمْ أَبَا التُّرَابِ ".
ابو حازم نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ مدینہ میں مروان کی اولاد میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہنے کا حکم دیا۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تم انکار کرتے ہو تو کہو کہ ابوتراب پر اللہ کی لعنت ہو۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے۔ وہ شخص بولا کہ اس کا قصہ بیان کرو کہ ان کا نام ابوتراب کیوں ہوا؟ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ غصہ ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ! علی مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے کہ اے ابوتراب! اٹھ۔ اے ابوتراب! اٹھ۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:کہ مدینہ میں مروان کی اولاد میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سیدنا سہل ؓ کو بلایا اور سیدنا علی ؓ کو برا بھلا کہنے کا حکم دیا۔ سیدنا سہل ؓ نے انکار کیا تو اس نے انہیں کہا، اگر یہ نہیں مانتے ہو تو یوں کہو، ابوتراب پر اللہ کی لعنت تو سیدنا سہل ؓ نے کہا کہ سیدنا علی ؓ کو ابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے۔ وہ شخص بولا کہ اس کا قصہ بیان کرو کہ ان کا نام ابوتراب کیوں ہوا؟ سیدنا سہل ؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃالزہراء ؓ کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی ؓ کو گھر میں نہ پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ غصہ ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ! علی مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی ؓ کے پاس تشریف لے گئے، وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے کہ اے ابوتراب! اٹھ۔ اے ابوتراب! اٹھ۔
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا سليمان بن بلال ، عن يحيي بن سعيد ، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة ، عن عائشة ، قالت: " ارق رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فقال: ليت رجلا صالحا من اصحابي يحرسني الليلة، قالت: وسمعنا صوت السلاح، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من هذا؟ قال: سعد بن ابي وقاص يا رسول الله، جئت احرسك، قالت عائشة: فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى سمعت غطيطه ".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " أَرِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ: لَيْتَ رَجُلًا صَالِحًا مِنْ أَصْحَابِي يَحْرُسُنِي اللَّيْلَةَ، قَالَتْ: وَسَمِعْنَا صَوْتَ السِّلَاحِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُ أَحْرُسُكَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَمِعْتُ غَطِيطَهُ ".
سلیمان بن بلال نے یحییٰ بن سعید سے، انھوں نے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو نہ سکے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کاش! میرے ساتھیوں میں سے کوئی صالح شخص آج پہرہ دے۔"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اچانک ہم نے ہتھیاروں کی آوازسنی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کون ہے؟حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کا پہرہ دینے کے لئے آیا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے خراٹوں کی آواز سنی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگتے رہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کاش! میرے ساتھیوں میں سے کوئی صالح شخص آج پہرہ دے۔"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:اچانک ہم نے ہتھیاروں کی آوازسنی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ کون ہے؟حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کا پہرہ دینے کے لئے آیا ہوں۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے خراٹوں کی آواز سنی۔
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث . ح وحدثنا محمد بن رمح ، اخبرنا الليث ، عن يحيي بن سعيد ، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة ، ان عائشة ، قالت: " سهر رسول الله صلى الله عليه وسلم مقدمه المدينة ليلة، فقال: ليت رجلا صالحا من اصحابي يحرسني الليلة، قالت: فبينا نحن كذلك سمعنا خشخشة سلاح، فقال: من هذا؟ قال: سعد بن ابي وقاص، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما جاء بك؟ قال: وقع في نفسي خوف على رسول الله صلى الله عليه وسلم فجئت احرسه، فدعا له رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم نام "، وفي رواية ابن رمح فقلنا من هذا.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، أَنَّ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " سَهِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْدَمَهُ الْمَدِينَةَ لَيْلَةً، فَقَالَ: لَيْتَ رَجُلًا صَالِحًا مِنْ أَصْحَابِي يَحْرُسُنِي اللَّيْلَةَ، قَالَتْ: فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ سَمِعْنَا خَشْخَشَةَ سِلَاحٍ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا جَاءَ بِكَ؟ قَالَ: وَقَعَ فِي نَفْسِي خَوْفٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ أَحْرُسُهُ، فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَامَ "، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ رُمْحٍ فَقُلْنَا مَنْ هَذَا.
قتیبہ بن سعید اور محمد بن رمح نے لیث سے حدیث بیان کی، انھوں نے یحییٰ بن سعید سے، انھوں نے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ ایک رات مدینہ کے راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی اور نیند اچاٹ ہو گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاش میرے اصحاب میں سے کوئی نیک بخت رات بھر میری حفاظت کرے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اتنے میں ہمیں ہتھیاروں کی آواز معلوم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ہے؟ آواز آئی کہ یا رسول اللہ! سعد بن ابی وقاص ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کیوں آئے؟ وہ بولے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے نفس میں ڈر ہوا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنے کو آیا ہوں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی اور پھر سو رہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آنے پر ایک رات جاگتے رہے،چنانچہ فرمایا:"اےکاش! میرے اصحاب میں سے کوئی نیک بخت رات بھر میری حفاظت کرے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ اتنے میں ہمیں ہتھیاروں کی آواز معلوم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ہے؟ آواز آئی کہ یا رسول اللہ! سعد بن ابی وقاص ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کیوں آئے؟ وہ بولے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے نفس میں ڈر ہوا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنے کو آیا ہوں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی اور پھر سو رہے۔ابن رمح کی روایت میں ہے،قل کی جگہ قلنا ہے،ہم نے پوچھا۔
عبد الواہاب نے کہا: میں نے یحییٰ بن سعید کو کہتے ہو ئے سنا کہا: میں نے عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ کو کہتے ہو ئے سنا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونہ سکے۔ (آگے) سلیمان بن بلال کی حدیث کے مانند (ہے)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات بیداررہے،آگے پہلی روایت کی طرح ہے۔
منصور بن ابی مزاحم نے کہا: ہمیں ابرا ہیم بن سعد نے اپنے والد سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبد اللہ بن شداد سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا، کہ حضرت سعد بن مالک (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کے سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے لیے اکٹھا اپنے ماں باپ کا نام نہیں لیا۔جنگ اُحد کے دن آپ بار بار ان سے کہہ رہے تھے۔"تیر چلا ؤ تم پرمیرے ماں باپ فداہوں۔"
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن مالک کے سوا کسی کے لیے اپنے والدین کو جمع نہیں فرمایا،آپ انہیں اُحدکے دن فرمارہے تھے،"تیر پھینکو،تم پر میرے ماں باپ قربان۔"
شعبہ، وکیع اور مسعر، سب نے سعد بن ابرا ہیم سے، انھوں نے عبد اللہ بن شدادسے، انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی۔
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
سلیمان بن بلال نے یحییٰ بن سعید سے انھوں نے سعید سے انھوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ اُحد کے دن میرے لیے ایک ساتھ اپنے ماں باپ کا نام نہیں لیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،احدکےدن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر اپنے والدین قربان فرمائے۔
حدثنا محمد بن عباد ، حدثنا حاتم يعني ابن إسماعيل ، عن بكير بن مسمار ، عن عامر بن سعد ، عن ابيه : " ان النبي صلى الله عليه وسلم، جمع له ابويه يوم احد، قال: كان رجل من المشركين قد احرق المسلمين، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: ارم فداك ابي وامي، قال: فنزعت له بسهم ليس فيه نصل فاصبت جنبه، فسقط فانكشفت عورته، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى نظرت إلى نواجذه ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيل ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ : " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَمَعَ لَهُ أَبَوَيْهِ يَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ أَحْرَقَ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، قَالَ: فَنَزَعْتُ لَهُ بِسَهْمٍ لَيْسَ فِيهِ نَصْلٌ فَأَصَبْتُ جَنْبَهُ، فَسَقَطَ فَانْكَشَفَتْ عَوْرَتُهُ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى نَوَاجِذِهِ ".
عامر بن سعد نے اپنے والد سے روایت کی، کہ جنگ اُحد کےدن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک ساتھ اپنے ماں باپ کا نام لیا۔مشرکوں میں سے ایک شخص نے مسلمانوں کو جلا ڈالا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد سے کہا: "تیر چلا ؤ تم پرمیرے ماں باپ فداہوں!"حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اس کے لیے (ترکش سے) ایک تیر کھینچا، اس کے پرَہی نہیں تھے۔میں نے وہ اس کے پہلو میں مارا تو وہ گر گیا اور اس کی شرمگاہ (بھی) کھل گئی تو (اس کے اس طرح گرنے پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کے مجھے آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھل کھلاکرہنسے۔)
عامر بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں،کہ جنگ اُحد کےدن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک ساتھ اپنے ماں باپ کا نام لیا۔مشرکوں میں سے ایک شخص نے مسلمانوں کو جلا ڈالا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد سے کہا: "تیر چلا ؤ تم پرمیرے ماں باپ فداہوں!"حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے اس کے لیے (ترکش سے) ایک تیر کھینچا،اس کے پرَہی نہیں تھے۔میں نے وہ اس کے پہلو میں مارا تو وہ گر گیا اور اس کی شرمگاہ(بھی) کھل گئی تو (اس کے اس طرح گرنے پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے،یہاں تک کے میں نے آپ کے نوکدار دانت دیکھ لیے۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، قالا: حدثنا الحسن بن موسى ، حدثنا زهير ، حدثنا سماك بن حرب ، حدثني مصعب بن سعد ، عن ابيه ، انه نزلت فيه آيات من القرآن، قال: " حلفت ام سعد ان لا تكلمه ابدا حتى يكفر بدينه، ولا تاكل ولا تشرب، قالت: زعمت ان الله وصاك بوالديك، وانا امك وانا آمرك بهذا، قال: مكثت ثلاثا حتى غشي عليها من الجهد، فقام ابن لها، يقال له عمارة، فسقاها فجعلت تدعو على سعد، فانزل الله عز وجل في القرآن هذه الآية: ووصينا الإنسان بوالديه حسنا سورة العنكبوت آية 8 وإن جاهداك على ان تشرك بي سورة لقمان آية 15 وفيها وصاحبهما في الدنيا معروفا سورة لقمان آية 15، قال: واصاب رسول الله صلى الله عليه وسلم غنيمة عظيمة، فإذا فيها سيف، فاخذته فاتيت به الرسول صلى الله عليه وسلم، فقلت: نفلني هذا السيف، فانا من قد علمت حاله، فقال: رده من حيث اخذته، فانطلقت حتى إذا اردت ان القيه في القبض لامتني نفسي، فرجعت إليه، فقلت: اعطنيه، قال فشد لي صوته: رده من حيث اخذته، قال فانزل الله عز وجل: يسالونك عن الانفال سورة الانفال آية 1، قال: ومرضت فارسلت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاتاني، فقلت: دعني اقسم مالي حيث شئت، قال: فابى، قلت: فالنصف، قال: فابى، قلت: فالثلث، قال: فسكت، فكان بعد الثلث جائزا، قال: واتيت على نفر من الانصار، والمهاجرين، فقالوا: تعال نطعمك ونسقك خمرا، وذلك قبل ان تحرم الخمر، قال: فاتيتهم في حش، والحش البستان، فإذا راس جزور مشوي عندهم وزق من خمر، قال: فاكلت وشربت معهم، قال: فذكرت الانصار، والمهاجرين عندهم، فقلت: المهاجرون خير من الانصار، قال: فاخذ رجل احد لحيي الراس، فضربني به فجرح بانفي، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته، فانزل الله عز وجل في يعني نفسه شان الخمر: إنما الخمر والميسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشيطان سورة المائدة آية 90.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنِي مُصْعَبُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ نَزَلَتْ فِيهِ آيَاتٌ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: " حَلَفَتْ أُمُّ سَعْدٍ أَنْ لَا تُكَلِّمَهُ أَبَدًا حَتَّى يَكْفُرَ بِدِينِهِ، وَلَا تَأْكُلَ وَلَا تَشْرَبَ، قَالَتْ: زَعَمْتَ أَنَّ اللَّهَ وَصَّاكَ بِوَالِدَيْكَ، وَأَنَا أُمُّكَ وَأَنَا آمُرُكَ بِهَذَا، قَالَ: مَكَثَتْ ثَلَاثًا حَتَّى غُشِيَ عَلَيْهَا مِنَ الْجَهْدِ، فَقَامَ ابْنٌ لَهَا، يُقَالُ لَهُ عُمَارَةُ، فَسَقَاهَا فَجَعَلَتْ تَدْعُو عَلَى سَعْدٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْقُرْآنِ هَذِهِ الْآيَةَ: وَوَصَّيْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا سورة العنكبوت آية 8 وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي سورة لقمان آية 15 وَفِيهَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا سورة لقمان آية 15، قَالَ: وَأَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنِيمَةً عَظِيمَةً، فَإِذَا فِيهَا سَيْفٌ، فَأَخَذْتُهُ فَأَتَيْتُ بِهِ الرَّسُولَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: نَفِّلْنِي هَذَا السَّيْفَ، فَأَنَا مَنْ قَدْ عَلِمْتَ حَالَهُ، فَقَالَ: رُدُّهُ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى إِذَا أَرَدْتُ أَنْ أُلْقِيَهُ فِي الْقَبَضِ لَامَتْنِي نَفْسِي، فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: أَعْطِنِيهِ، قَالَ فَشَدَّ لِي صَوْتَهُ: رُدُّهُ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُ، قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ سورة الأنفال آية 1، قَالَ: وَمَرِضْتُ فَأَرْسَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَانِي، فَقُلْتُ: دَعْنِي أَقْسِمْ مَالِي حَيْثُ شِئْتُ، قَالَ: فَأَبَى، قُلْتُ: فَالنِّصْفَ، قَالَ: فَأَبَى، قُلْتُ: فَالثُّلُثَ، قَالَ: فَسَكَتَ، فَكَانَ بَعْدُ الثُّلُثُ جَائِزًا، قَالَ: وَأَتَيْتُ عَلَى نَفَرٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَالْمُهَاجِرِينَ، فَقَالُوا: تَعَالَ نُطْعِمْكَ وَنَسْقِكَ خَمْرًا، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ تُحَرَّمَ الْخَمْرُ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُمْ فِي حَشٍّ، وَالْحَشُّ الْبُسْتَانُ، فَإِذَا رَأْسُ جَزُورٍ مَشْوِيٌّ عِنْدَهُمْ وَزِقٌّ مِنْ خَمْرٍ، قَالَ: فَأَكَلْتُ وَشَرِبْتُ مَعَهُمْ، قَالَ: فَذَكَرْتُ الْأَنْصَارَ، وَالْمُهَاجِرِينَ عِنْدَهُمْ، فَقُلْتُ: الْمُهَاجِرُونَ خَيْرٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَأَخَذَ رَجُلٌ أَحَدَ لَحْيَيِ الرَّأْسِ، فَضَرَبَنِي بِهِ فَجَرَحَ بِأَنْفِي، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيَّ يَعْنِي نَفْسَهُ شَأْنَ الْخَمْرِ: إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ سورة المائدة آية 90.
ابو بکر بن ابی شیبہ اور زہیر بن حرب نے کہا: ہمیں حسن بن موسیٰ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں زہیر نےسماک بن حرب سے حدیث بیان کی کہ قرآن مجید میں ان کے حوالے سے کئی آیات نازل ہوئیں کہا: ان کی والدہ نے قسم کھائی کہ وہ اس وقت تک ان سے بات نہیں کریں گی یہاں تک کہ وہ اپنے دین (اسلام) سے کفر کریں اور نہ ہی کچھ کھا ئیں گی اور نہ پئیں گی ان کا خیال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے کہ اپنے والدین کی بات مانو اور میں تمھا ری ماں ہوں لہٰذا میں تمھیں اس دین کو چھوڑ دینے کا حکم دیتی ہوں۔کہا: وہ تین دن اسی حالت میں رہیں یہاں تک کہ کمزوری سے بے ہوش ہو گئیں تو ان کا بیٹا جو عمارہ کہلا تا تھا کھڑا ہوا اور انھیں پانی پلا یا۔ (ہوش میں آکر) انھوں نے سعد رضی اللہ عنہ کو بددعائیں دینی شروع کر دیں تو اللہ تعا لیٰ نے قرآن میں یہ آیت نازل فر ما ئی: " ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور اگر وہ دونوں یہ کو شش کریں کہ تم میرے ساتھ شریک ٹھہراؤ جس بات کو تم (درست ہی) نہیں جانتے تو تم ان کی اطاعت نہ کرواور دنیا میں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو۔"کہا: اور (دوسری آیت اس طرح اتری کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ غنیمت حاصل ہوئی۔ اس میں ایک تلوار بھی تھی۔میں نے وہ اٹھا لی اور اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اور عرض کی: (میرےحصے کے علاوہ) یہ تلوارمزید مجھے دے دیں، میری حالت کا تو آپ کو علم ہے ہی آپ نے فرمایا: " اسے وہیں رکھ دو جہاں سے تم نے اٹھائی ہے۔"میں چلا گیا جب میں نے اسے مقبوضہ غنائم میں واپس پھینکنا چا ہا تو میرے دل نے مجھے ملا مت کی (کہ واپس کیوں کر رہے ہو؟) تو میں آپ کے پاس واپس آگیا۔میں نے کہا: یہ مجھے عطا کر دیجئے، آپ نے میرے لیے اپنی آواز کو سخت کیا اور فرمایا: " جہاں سے اٹھا ئی ہے وہیں واپس رکھ دو۔"کہا: اس پر اللہ عزوجل نے یہ نازل فرمایا: " یہ لو گ آپ سے غنیمتوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔"کہا: (ایک موقع نزول وحی کا یہ تھا کہ) میں بیمار ہو گیا۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجا۔ آپ میرے پاس تشریف لے آئے۔میں نے کہا: مجھے اجازت دیجیے کہ میں اپنا (سارا) مال جہاں چاہوں تقسیم کر دوں۔کہا: آپ نے انکا ر فر مادیا۔میں نے کہا: تو آدھا؟ آپ اس پر بھی نہ مانے، میں نے کہا: تو پھر تیسرا حصہ؟اس پر آپ خاموش ہوگئے۔اس کے بعد تیسرے حصے کی وصیت جا ئز ہو گئی۔ کہا: اور (ایک اور موقع بھی آیا) میں انصار اور مہاجرین کے کچھ لوگوں کے پاس آیا انھوں نے کہا: آؤ ہم تمھیں کھانا کھلا ئیں اور شراب پلا ئیں اور یہ شراب حرام کیے جا نے سے پہلے کی بات ہے۔کہا: میں کھجوروں کے ایک جھنڈکے درمیان خالی جگہ میں ان کے پاس پہنچا دیکھا تو اونٹ کا ایک بھنا ہوا سران کے پاس تھا اور شراب کی ایک مشک تھی۔میں نے ان کے ساتھ کھا یا، شراب پی، پھر ان کے ہاں انصار اور مہاجرین کا ذکر آگیا۔میں نے (شراب کی مستی میں) کہہ دیا: مہاجرین انصار سے بہتر ہیں تو ایک آدمی نے (اونٹ کا) ایک جبڑا پکڑا، اس سے مجھے ضرب لگا ئی اور میری ناک زخمی کردی، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو یہ (ساری) بات بتا ئی تو اللہ تعا لیٰ نے میرے بارے میں۔۔۔ان کی مراد اپنے آپ سے تھی۔۔۔شراب کے متعلق (یہ آیت) نازل فر ما ئی: "بے شک شراب، جوا بت اور پانسے شیطان کے گندے کام ہیں۔"
حضرت مصعب اپنے باپ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ صورت حال یہ ہے کہ قرآن مجید میں ان کے حوالے سے کئی آیات نازل ہوئیں کہا: ان کی والدہ نے قسم کھائی کہ وہ اس وقت تک ان سے بات نہیں کریں گی یہاں تک کہ وہ اپنے دین (اسلام) سے کفر کریں اور نہ ہی کچھ کھا ئیں گی اور نہ پئیں گی ان کا خیال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے کہ اپنے والدین کی بات مانو اور میں تمھا ری ماں ہوں لہٰذا میں تمھیں اس دین کو چھوڑ دینے کا حکم دیتی ہوں۔کہا: وہ تین دن اسی حالت میں رہیں یہاں تک کہ کمزوری سے بے ہوش ہو گئیں تو ان کا بیٹا جو عمارہ کہلا تا تھا کھڑا ہوا اور انھیں پانی پلا یا۔(ہوش میں آکر) انھوں نے سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بددعائیں دینی شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ آیت نازل فر ئی:" ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے(عنکبوت،آیت 8) اور اگر وہ دونوں یہ کو شش کریں کہ تم میرے ساتھ شریک ٹھہراؤ جس بات کو تم (درست ہی) نہیں جانتے تو تم ان کی اطاعت نہ کرواور دنیا میں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو۔(سورہ لقمان آیت نمبر 14۔15)حضرت سعد بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ غنیمت حاصل ہوئی۔ اس میں ایک تلوار بھی تھی۔میں نے وہ اٹھا لی اور اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اور عرض کی: (میرےحصے کے علاوہ) یہ تلوارمزید مجھے دے دیں،میری حالت کا تو آپ کو علم ہے ہی آپ نے فر یا:" اسے وہیں رکھ دو جہاں سے تم نے اٹھائی ہے۔"میں چلا گیا جب میں نے اسے مقبوضہ غنائم میں واپس پھینکنا چا ہا تو میرے دل نے مجھے ملا مت کی(کہ واپس کیوں کر رہے ہو؟)تو میں آپ کے پاس واپس آگیا۔میں نے کہا: یہ مجھے عطا کر دیجئے،آپ نے میرے لیے اپنی آواز کو سخت کیا اور فر یا:" جہاں سے اٹھا ئی ہے وہیں واپس رکھ دو۔"کہا: اس پر اللہ عزوجل نے یہ نازل فر یا:" یہ لو گ آپ سے غنیمتوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔(سورۃ انفال آیت نمبر1)حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں بیمار ہو گیا۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجا۔ آپ میرے پاس تشریف لے آئے۔میں نے کہا: مجھے اجازت دیجیے کہ میں اپنا (سارا) مال جہاں چاہوں تقسیم کر دوں۔کہا:آپ نے انکا ر فر مادیا۔میں نے کہا:تو آدھا؟ آپ اس پر بھی نہ مانے،میں نے کہا: تو پھر تیسرا حصہ؟اس پر آپ خاموش ہوگئے۔اس کے بعد تیسرے حصے کی وصیت جائز ہو گئی۔ کہا: اور (ایک اور موقع بھی آیا) میں انصار اور مہاجرین کے کچھ لوگوں کے پاس آیا انھوں نے کہا:آؤ ہم تمھیں کھانا کھلا ئیں اور شراب پلا ئیں اور یہ شراب حرام کیے جا نے سے پہلے کی بات ہے۔کہا: میں کھجوروں کے ایک جھنڈکے درمیان خالی جگہ میں ان کے پاس پہنچا دیکھا تو اونٹ کا ایک بھنا ہوا سران کے پاس تھا اور شراب کی ایک مشک تھی۔میں نے ان کے ساتھ کھا یا،شراب پی، پھر ان کے ہاں انصار اور مہاجرین کا ذکر آگیا۔میں نے(شراب کی مستی میں)کہہ دیا: مہاجرین انصار سے بہتر ہیں تو ایک آدمی نے(اونٹ کا) ایک جبڑا پکڑا،اس سے مجھے ضرب لگا ئی اور میری ناک زخمی کردی،میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو یہ (ساری)بات بتا ئی تو اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں۔۔۔ان کی مراد اپنے آپ سے تھی۔۔۔شراب کے متعلق (یہ آیت) نازل فر ئی:"بے شک شراب،جوا بت اور پانسے شیطان کے گندے کام ہیں۔"(مائدہ:آیت نمبر90)