احمد بن عبدہ ضبی نے کہا: ہمیں ابو داود نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث سنائی، کہا: مجھے اسحاق نے خبر دی، انھوں نے کہا: میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ر یشم کا کپڑا لایاگیا، اور (باقی) حدیث بیان کی، پھر ابن عبدہ نے کہا: ہمیں ابو داود نے خبر دی، کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے قتادہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی سے اسی طرح یابالکل اسی کے مانند روایت کی۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ریشمی کپڑے لائےگئے،آگے مذکورہ بالاحدیث یااس کے ہم معنی روایت ہے۔اورحضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اس معنی کی حدیث منقول ہے۔
حدثنا زهير بن حرب ، حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا شيبان ، عن قتادة ، حدثنا انس بن مالك : انه اهدي لرسول الله صلى الله عليه وسلم جبة من سندس، " وكان ينهى عن الحرير، فعجب الناس منها، فقال: والذي نفس محمد بيده، إن مناديل سعد بن معاذ في الجنة احسن من هذا ".حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ : أَنَّهُ أُهْدِيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُبَّةٌ مِنْ سُنْدُسٍ، " وَكَانَ يَنْهَى عَنِ الْحَرِيرِ، فَعَجِبَ النَّاسُ مِنْهَا، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ مَنَادِيلَ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي الْجَنَّةِ أَحْسَنُ مِنْ هَذَا ".
شیبان نے قتادہ سے روایت کی، کہا: ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سندس (باریک ریشم) کا ایک جبہ ہدیہ کیاگیا، حالانکہ آپ ریشم (پہننے) سے منع فرماتے تھے، لوگوں کو اس (کی خوبصورتی) سے تعجب ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں محمد کی جان ہے!جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے زیادہ اچھے ہیں۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ریشمی جبہ کاتحفہ پیش کیاگیا اور آپ ریشم(پہننے) سے منع فرماتے تھے تو لوگ اس سے تعجب کرنے لگے،چنانچہ آپ نے فرمایا،"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے!جنت میں سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تولیے بھی اس سے زیادہ اچھے ہیں۔"
عمر بن عامر نے قتادہ سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ دومۃ الجندل کے (بادشاہ) اکیدرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک حلہ ہدیہ کیا، پھر اسی کے مانند بیان کیا، البتہ اس میں یہ ذکر نہیں کیا: "حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ریشم سے منع فرماتے تھے۔"
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ دومۃ الجندل کے اکیدرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جوڑا تحفہ میں پیش کیا،اس میں ریشم سے منع کرنے کاذکر نہیں ہے،باقی مذکورہ بالاحدیث ہے۔
ثابت نے ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن تلوار پکڑی اور فرمایا کہ یہ مجھ سے کون لیتا ہے؟ لوگوں نے ہاتھ پھیلائے اور ہر ایک کہتا تھا کہ میں لوں گا میں لوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا حق کون ادا کرے گا؟ یہ سنتے ہی لوگ پیچھے ہٹے (کیونکہ احد کے دن کافروں کا غلبہ تھا) سیدنا سماک بن خرشہ ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کا حق ادا کروں گا۔ پھر انہوں نے اس کو لے لیا اور مشرکوں کے سر اس تلوار سے چیرے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن تلوار پکڑی اور فرمایا کہ یہ مجھ سے کون لیتا ہے؟ لوگوں نے ہاتھ پھیلائے اور ہر ایک کہتا تھا کہ میں لوں گا میں لوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا حق کون ادا کرے گا؟ یہ سنتے ہی لوگ پیچھے ہٹے (کیونکہ احد کے دن کافروں کا غلبہ تھا) سیدنا سماک بن خرشہ ابودجانہ ؓ نے کہا کہ میں اس کا حق ادا کروں گا۔ پھر انہوں نے اس کو لے لیا اور مشرکوں کے سر اس تلوار سے چیرے۔
حدثنا عبيد الله بن عمر القواريري ، وعمرو الناقد كلاهما، عن سفيان ، قال عبيد الله : حدثنا سفيان بن عيينة ، قال: سمعت ابن المنكدر ، يقول: سمعت جابر بن عبد الله ، يقول: " لما كان يوم احد جيء بابي مسجى، وقد مثل به، قال: فاردت ان ارفع الثوب، فنهاني قومي، ثم اردت ان ارفع الثوب، فنهاني قومي، فرفعه رسول الله صلى الله عليه وسلم، او امر به فرفع، فسمع صوت باكية او صائحة، فقال: من هذه؟ فقالوا: بنت عمرو، او اخت عمرو، فقال: ولم تبكي، فما زالت الملائكة تظله باجنحتها حتى رفع ".حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ كِلَاهُمَا، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: " لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ جِيءَ بِأَبِي مُسَجًّى، وَقَدْ مُثِلَ بِهِ، قَالَ: فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْفَعَ الثَّوْبَ، فَنَهَانِي قَوْمِي، ثُمَّ أَرَدْتُ أَنْ أَرْفَعَ الثَّوْبَ، فَنَهَانِي قَوْمِي، فَرَفَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أَمَرَ بِهِ فَرُفِعَ، فَسَمِعَ صَوْتَ بَاكِيَةٍ أَوْ صَائِحَةٍ، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ فَقَالُوا: بِنْتُ عَمْرٍو، أَوْ أُخْتُ عَمْرٍو، فَقَالَ: وَلِمَ تَبْكِي، فَمَا زَالَتِ الْمَلَائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ ".
سفیان بن عیینہ نے کہا: میں نے ابن منکدر کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سےسنا، کہہ رہے تھے: جب احد کی جنگ ہوئی تو میرے والد کو کپڑے سے ڈھانپ کر لایاگیا، ان کا مثلہ کیاگیا تھا (ان کے چہرے تک کے اعضاء کاٹ دیے گئے تھے) میں نے چاہا کہ میں کپڑا اٹھاؤں (اوردیکھوں) تو میری قوم کے لوگوں نے مجھے روک دیا، میں نے پھر کپڑا اٹھانا چاہا تو میری قوم نے مجھے روک دیا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر کپڑا اٹھایا، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو کپڑا اٹھایا گیا تو (اس وقت) ایک رونے والی یا چیخنے والی کی آواز آئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ کون ہے؟"تو لوگوں نے بتایا: عمرو کی بیٹی (شہید ہونے والے عبداللہ کی بہن) ہے یا (کہا:) عمرو کی بہن (شہید کی پھوپھی) ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " وہ کیوں روتی ہے؟ان (کے جنازے) کو اٹھائے جانے تک فرشتوں نے اپنے پروں سے ان پر سایہ کیا ہواہے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،جب احد کی جنگ ہوئی تو میرے والد کو کپڑے سے ڈھانپ کر لایاگیا،ان کا مثلہ کیاگیا تھا(ان کے چہرے تک کے اعضاء کاٹ دیے گئے تھے) میں نے چاہا کہ میں کپڑا اٹھاؤں(اوردیکھوں) تو میری قوم کے لوگوں نے مجھے روک دیا،میں نے پھر کپڑا اٹھانا چاہا تو میری قوم نے مجھے روک دیا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر کپڑا اٹھایا،یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو کپڑا اٹھایا گیا تو(اس وقت) ایک رونے والی یا چیخنے والی کی آواز آئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:"یہ کون ہے؟"تو لوگوں نے بتایا:عمرو کی بیٹی(شہید ہونے والے عبداللہ کی بہن) ہے یا(کہا:) عمرو کی بہن(شہید کی پھوپھی) ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" وہ کیوں روتی ہے؟ان(کے جنازے) کو اٹھائے جانے تک فرشتوں نے اپنے پروں سے ان پر سایہ کیا ہواہے۔"
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا شعبة ، عن محمد بن المنكدر ، عن جابر بن عبد الله ، قال: " اصيب ابي يوم احد، فجعلت اكشف الثوب عن وجهه، وابكي، وجعلوا ينهونني، ورسول الله صلى الله عليه وسلم لا ينهاني، قال: وجعلت فاطمة بنت عمرو، تبكيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تبكيه، او لا تبكيه، ما زالت الملائكة تظله باجنحتها حتى رفعتموه ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " أُصِيبَ أَبِي يَوْمَ أُحُدٍ، فَجَعَلْتُ أَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، وَأَبْكِي، وَجَعَلُوا يَنْهَوْنَنِي، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَنْهَانِي، قَالَ: وَجَعَلَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ عَمْرٍو، تَبْكِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَبْكِيهِ، أَوْ لَا تَبْكِيهِ، مَا زَالَتِ الْمَلَائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رَفَعْتُمُوهُ ".
شعبہ نے محمد بن منکدر سے، انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ میرا باپ احد کے دن شہید ہوا تو میں اس کے منہ سے کپڑا اٹھاتا تھا اور روتا تھا۔ لوگ مجھے منع کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع نہ کرتے تھے۔ اور عمرو کی بیٹی فاطمہ (یعنی میری پھوپھی) وہ بھی اس پر رو رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو روئے یا نہ روئے، تمہارے اسے اٹھانے تک فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ میرا باپ احد کے دن شہید ہوا تو میں اس کے منہ سے کپڑا اٹھاتا تھا اور روتا تھا۔ لوگ مجھے منع کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع نہ کرتے تھے۔ اور عمرو کی بیٹی فاطمہ (یعنی میری پھوپھی) وہ بھی اس پر رو رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو روئے یا نہ روئے، تمہارے اسے اٹھانے تک فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے۔
ابن جریج اور معمر دونوں نے محمد بن منکدر سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث بیان کی، مگر ابن جریج کی حدیث میں فرشتوں اور رونے والی کے رونے کا ذکر نہیں۔
امام صاحب دو اور اساتذہ کی سندوں سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں،لیکن ابن جریج کی حدیث میں فرشتوں،ملائکہ اور رونے والی کے رونے کا ذکر نہیں ہے۔
عبدالکریم نے محمد بن منکدر سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: اُحد کے دن میرے والد کو اس طرح لایاگیا کہ ان کی ناک اور ان ک کان کاٹ دیے گئے تھے، انھیں لا کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ر کھ دیا گیا، پھر ان سب کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،احد کے دن میرے باپ کو اس حال میں لایا گیا کہ ان کی ناک اورکان کٹے ہوئےتھے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا گیا،آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
حدثنا إسحاق بن عمر بن سليط ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن كنانة بن نعيم ، عن ابي برزة ، " ان النبي صلى الله عليه وسلم كان في مغزى له فافاء الله عليه، فقال لاصحابه: هل تفقدون من احد؟ قالوا: نعم، فلانا، وفلانا، وفلانا، ثم قال: هل تفقدون من احد؟ قالوا: نعم، فلانا، وفلانا، وفلانا، ثم قال: هل تفقدون من احد؟ قالوا: لا، قال: لكني افقد جليبيبا فاطلبوه، فطلب في القتلى، فوجدوه إلى جنب سبعة قد قتلهم، ثم قتلوه، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فوقف عليه، فقال: قتل سبعة، ثم قتلوه هذا مني، وانا منه هذا مني وانا منه، قال: فوضعه على ساعديه ليس له إلا ساعدا النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فحفر له، ووضع في قبره "، ولم يذكر غسلا.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَلِيطٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ كِنَانَةَ بْنِ نُعَيْمٍ ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي مَغْزًى لَهُ فَأَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالُوا: نَعَمْ، فُلَانًا، وَفُلَانًا، وَفُلَانًا، ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالُوا: نَعَمْ، فُلَانًا، وَفُلَانًا، وَفُلَانًا، ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: لَكِنِّي أَفْقِدُ جُلَيْبِيبًا فَاطْلُبُوهُ، فَطُلِبَ فِي الْقَتْلَى، فَوَجَدُوهُ إِلَى جَنْبِ سَبْعَةٍ قَدْ قَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَتَلُوهُ، فَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: قَتَلَ سَبْعَةً، ثُمَّ قَتَلُوهُ هَذَا مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُ هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، قَالَ: فَوَضَعَهُ عَلَى سَاعِدَيْهِ لَيْسَ لَهُ إِلَّا سَاعِدَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَحُفِرَ لَهُ، وَوُضِعَ فِي قَبْرِهِ "، وَلَمْ يَذْكُرْ غَسْلًا.
حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک جنگ میں تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (فتح کے ساتھ) مال غنیمت دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی غائب تو نہیں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں فلاں فلاں فلاں شخص غائب ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کوئی اور تو غائب نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلاں فلاں شخص غائب ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور تو کوئی غائب نہیں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کوئی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جلیبیب رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھتا۔ لوگوں نے ان کو مردوں میں ڈھونڈا تو ان کی لاش سات لاشوں کے پاس پائی گئی جن کو سیدنا جلیبیب نے مارا تھا۔ وہ سات کو مار کر شہید ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور وہاں کھڑے ہو کر پھر فرمایا کہ اس نے سات آدمیوں کو مارا، اس کے بعد خود مارا گیا۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے دونوں ہاتھوں پر رکھا اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ہی اس کی چارپائی تھے۔ اس کے بعد قبر کھدوا کر اس میں رکھ دیا۔ اور راوی نے غسل کا بیان نہیں کیا۔
حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک جنگ میں تھے،اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (فتح کے ساتھ) مال غنیمت دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی غائب تو نہیں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں فلاں فلاں فلاں شخص غائب ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کوئی اور تو غائب نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلاں فلاں شخص غائب ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور تو کوئی غائب نہیں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کوئی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جلیبیب ؓ کو نہیں دیکھتا۔ لوگوں نے ان کو مردوں میں ڈھونڈا تو ان کی لاش سات لاشوں کے پاس پائی گئی جن کو سیدنا جلیبیب نے مارا تھا۔ وہ سات کو مار کر شہید ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور وہاں کھڑے ہو کر پھر فرمایا کہ اس نے سات آدمیوں کو مارا، اس کے بعد خود مارا گیا۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے دونوں ہاتھوں پر رکھا اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ہی اس کی چارپائی تھے۔ اس کے بعد قبر کھدوا کر اس میں رکھ دیا۔ اور راوی نے غسل کا بیان نہیں کیا۔