ابو معاویہ نے کہا: ہمیں ہشام نے اسی سند کے ساتھ بکری (ذبح کرنے) کے قصے تک ابو اسامہ کی حدیث کی طرح حدیث بیا ن کی۔اس کے بعد کے زائد الفاظ بیان نہیں کیے۔
امام صاحب یہ روایت دو اساتذہ سے صرف بکری کے واقعہ تک بیان کرتے ہیں،بعد والا اضافہ بیان نہیں کرتے۔
زہری نے عروہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے، آپ کی کسی بیوی پر ایسا رشک نہیں ہوا جیسا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر ہوا۔اس کا سبب یہ تھا کہ آپ ان کو بہت کثرت سے یاد کرتے تھے، حالانکہ میں نے انھیں کبھی دیکھا تک نہ تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کی کسی بیوی پر غیرت نہیں کھائی،جتنی غیرت حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر دکھائی،کیونکہ آپ اسے بہت یاد کرتے تھےحالانکہ میں نے اس کو دیکھا بھی نہیں تھا۔
عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک اور شادی نہیں کی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات تک کسی دوسری عورت سے شادی نہیں کی۔
علی بن مسہر نے ہشام سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: کہ خدیحہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت مانگنا یاد آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور فرمایا کہ یا اللہ! ہالہ بنت خویلد۔ مجھے رشک آیا تو میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا قریش کی بوڑھیوں میں سے سرخ مسوڑھوں والی ایک بڑھیا کو یاد کرتے ہیں (یعنی انتہا کی بڑھیا جس کے ایک دانت بھی نہ رہا ہو نری سرخی ہی سرخی ہو، دانت کی سفیدی بالکل نہ ہو) جو مدت گزری فوت ہو چکی اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بہتر عورت دی (جوان باکرہ جیسے میں ہوں)۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، خدیحہ ؓ کی بہن ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدیجہ ؓ کا اجازت مانگنا یاد آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور فرمایا کہ یا اللہ! ہالہ بنت خویلد۔ مجھے رشک آیا تو میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا قریش کی بوڑھیوں میں سے سرخ مسوڑھوں والی ایک بڑھیا کو یاد کرتے ہیں (یعنی انتہا کی بڑھیا جس کے ایک دانت بھی نہ رہا ہو نری سرخی ہی سرخی ہو، دانت کی سفیدی بالکل نہ ہو) جو مدت گزری فوت ہو چکی اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بہتر عورت دی (جوان باکرہ جیسے میں ہوں)۔
حدثنا خلف بن هشام ، وابو الربيع جميعا، عن حماد بن زيد ، واللفظ لابي الربيع، حدثنا حماد، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، انها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اريتك في المنام ثلاث ليال، جاءني بك الملك في سرقة من حرير، فيقول: هذه امراتك فاكشف عن وجهك، فإذا انت هي فاقول: إن يك هذا من عند الله يمضه ".حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، وَأَبُو الرَّبِيعِ جَمِيعًا، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُرِيتُكِ فِي الْمَنَامِ ثَلَاثَ لَيَالٍ، جَاءَنِي بِكِ الْمَلَكُ فِي سَرَقَةٍ مِنْ حَرِيرٍ، فَيَقُولُ: هَذِهِ امْرَأَتُكَ فَأَكْشِفُ عَنْ وَجْهِكِ، فَإِذَا أَنْتِ هِيَ فَأَقُولُ: إِنْ يَكُ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ يُمْضِهِ ".
حماد نے کہا: ہمیں ہشام نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "تم مجھے تین راتوں تک خواب میں دکھائی دیتی رہی ہو، ایک فرشتہ ریشم کے ایک ٹکڑے پر تمھیں (تمھاری تصویر کو) لے کر میرے پاس آیا۔وہ کہتا: یہ تمھاری بیوی ہے، میں تمھارے چہرے سے کپڑا ہٹاتا تو وہ تم ہوتیں، میں کہتا: یہ (پیشکش) اگر اللہ کی طرف سے ہے تو وہ اسے پورا کردے گا۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم مجھے تین راتیں خواب میں دکھائی گئیں،تمھیں ایک فرشتہ ریشمی کپڑے میں لے کرآیا،وہ کہتا تھا،یہ تیری بیوی ہے تو میں تیرے چہرے سے پردہ اُٹھاتا،چنانچہ تو وہی ہے،سو میں کہتا،اگر یہ فیصلہ اللہ کی طرف سے ہے تو اسے نافذ فرمائے گا۔"
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، قال: وجدت في كتابي، عن ابي اسامة ، حدثنا هشام . ح وحدثنا ابو كريب محمد بن العلاء ، حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني لاعلم إذا كنت عني راضية، وإذا كنت علي غضبى، قالت: فقلت: ومن اين تعرف ذلك؟، قال: اما إذا كنت عني راضية، فإنك تقولين لا ورب محمد، وإذا كنت غضبى، قلت: لا ورب إبراهيم، قالت: قلت: اجل والله يا رسول الله، ما اهجر إلا اسمك ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِي، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً، وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى، قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَمِنْ أَيْنَ تَعْرِفُ ذَلِكَ؟، قَالَ: أَمَّا إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً، فَإِنَّكِ تَقُولِينَ لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَإِذَا كُنْتِ غَضْبَى، قُلْتِ: لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ، قَالَتْ: قُلْتُ: أَجَلْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَكَ ".
ابو اسامہ نے ہشام سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جان لیتا ہوں جب تو مجھ سے خوش ہوتی ہے اور جب ناخوش ہوتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے جان لیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تو خوش ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ نہیں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے رب کی قسم، اور جب ناراض ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ نہیں قسم ہے ابراہیم (علیہ السلام) کے رب کی۔ میں نے عرض کیا کہ بیشک اللہ کی قسم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے سوا اور کسی بات کو ترک ن ہیں کرتی (محبت، اطاعت، توجہ ہر لمحہ آپ ہی کی طرف رہتی ہے)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جان لیتا ہوں جب تو مجھ سے خوش ہوتی ہے اور جب ناخوش ہوتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے جان لیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:"ہاں،جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہوتوکہتی ہو،نہیں،رب محمد کی قسم!اور جب تم ناراض ہوتی ہو،تو کہتی ہو،نہیں رب ابراہیم کی قسم!میں نے کہا،ٹھیک ہے،اللہ کی قسم!اے اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )!میں صرف آپ کانام ہی چھوڑتی ہوں۔"
عبدہ نے ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان؛"نہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم!"تک روایت کی اور بعد کا حصہ بیان نہیں کیا۔
امام صاحب یہی روایت ایک دوسرے استاد سے رب ابراہیم تک بیان کرتے ہیں اوربعد والا حصہ بیان نہیں کرتے۔
حدثنا يحيي بن يحيي ، اخبرنا عبد العزيز بن محمد ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة : " انها كانت تلعب بالبنات عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: وكانت تاتيني صواحبي، فكن ينقمعن من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسربهن إلي ".حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ : " أَنَّهَا كَانَتْ تَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَكَانَتْ تَأْتِينِي صَوَاحِبِي، فَكُنَّ يَنْقَمِعْنَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَرِّبُهُنَّ إِلَيّ ".
عبدالعزیز بن محمد نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گڑیوں سے کھیلتی تھیں، کہا: اور میری سہیلیاں میرے پاس آتی تھیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (آمد کی) وجہ سے (گھر کے کسی کونے میں) چھپ جاتی تھیں، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو (بلا کر) میری طرف بھیج دیتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گڑیوں سے کھیلی تھی اور میری سہیلیاں آتیں تھیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی ہیبت وحیا) سے چھپ جاتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں میرے پاس بھیجتے۔
ابو اسامہ، جریر اور محمد بن بشر سب نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ روایت کی، اور جریر کی حدیث میں کہا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی اور وہ (ہمارے) کھلونے ہوتی تھیں۔
امام صاحب تین اساتذہ کی تین سندوں سے،ہشام ہی کی سند سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں جریر کی حدیث ہے،میں آپ کے گھر میں بچیوں سے یعنی گڑیوں سے کھیلتی تھی۔