سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کئی نام ہم سے بیان کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور احمد اور مقفی (آخر میں آنے والا ہوں) اور حاشر اور نبی التوبہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے کثیر خلقت توبہ کرے گی) اور نبی الرحمۃ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے انسان بہت سی نعمتوں سے نوازے جائیں گے۔) "
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے چند نام بتاتے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”میں محمد ہوں، احمد ہوں، مقفی ہوں، میں حاشر ہوں، نبی التوبہ ہوں، نبی رحمت ہوں۔“
جریر نے ہمیں اعمش سے حدیث سنائی، انھوں نے ابو ضحیٰ (مسلم) سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا اور اس کی اجازت عطا فرمائی آپ کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں بعض کو یہ خبر پہنچی، انھوں نے گویا کہ اس (رخصت اور اجازت) کو ناپسند کیا اور اس کام سے پرہیز کیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا۔؛"ان لوگوں کا کیاحال ہے کہ جن کو خبر ملی کہ میں نے ایک کام کی اجازت دی ہے تو انھوں نے اس کام کو ناپسند کیا اور اس کام سے پرہیز کیا۔اللہ کی قسم!میں ان سب سے زیادہ اللہ کا علم رکھتا ہوں اوراس (اللہ) کی خشیت میں ان سب سےبڑھ کر ہوں۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا اور اس کے کرنے کی اجازت دی۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ساتھیوں تک یہ بات پہنچی تو گویا کہ انہوں ہے اس کام کو ناپسند کیا اور اس سے احتراز (پرہیز) کیا، سو آپصلی اللہ علیہ وسلم تک یہ معاملہ پہنچا، آپصلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے او رفرمایا: ”ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، انہیں میری طرف سے ایک کام کی خبر پہنچی، میں نے ا س کی رخصت دی، انہوں نے اس کو ناپسند کیا اور اس سے پر ہیز کیا، سو اللہ کی قسم! میں سب سے اللہ کے بارے میں زیادہ علم رکھتا ہوں اور اس سے سب سے زیادہ خوف کھاتا ہوں۔“
وحدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن مسلم ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: " رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم في امر، فتنزه عنه ناس من الناس، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فغضب حتى بان الغضب في وجهه، ثم قال: ما بال اقوام يرغبون عما رخص لي فيه، فوالله لانا اعلمهم بالله، واشدهم له خشية ".وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَمْرٍ، فَتَنَزَّهَ عَنْهُ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَغَضِبَ حَتَّى بَانَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَرْغَبُونَ عَمَّا رُخِّصَ لِي فِيهِ، فَوَاللَّهِ لَأَنَا أَعْلَمُهُمْ بِاللَّهِ، وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً ".
ابو معاویہ نے ہمیں اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے (ابوضحیٰ) مسلم سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام میں رخصت روا رکھی۔ لوگوں میں سے کچھ نے خود کوایسا کرنے سے زیادہ پاکباز خیال کیا۔یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا حتیٰ کہ غصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور سےظاہر ہوا۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ لوگوں کا کیا حال ہے کہ جس کام میں مجھے رخصت دی گئی ہے اس سے احتراز کرتے ہیں؟ اللہ کی قسم میں تو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ نے ایک کام کی رخصت دی تو کچھ لوگوں نے اس سے پر ہیز کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے، حتی کہ ناراضی کا چہرے سے اظہار ہوا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان لوگوں کا کیا حال ہے، اس کام سے بے رغبتی برتتے ہیں، جس کی مجھے رخصت دی گئی ہے، سو اللہ کی قسم! میں ان سے اللہ کے بارے میں زیادہ علم رکھتا ہوں او ران سے اس سے زیادہ ڈرتا ہوں۔“
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث . ح وحدثنا محمد بن رمح ، اخبرنا الليث ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، ان عبد الله بن الزبير حدثه: " ان رجلا من الانصار، خاصم الزبير عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، في شراج الحرة التي يسقون بها النخل، فقال الانصاري: سرح الماء يمر، فابى عليهم، فاختصموا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للزبير: اسق يا زبير، ثم ارسل الماء إلى جارك، فغضب الانصاري، فقال: يا رسول الله، ان كان ابن عمتك، فتلون وجه نبي الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: يا زبير اسق، ثم احبس الماء، حتى يرجع إلى الجدر، فقال الزبير: والله إني لاحسب هذه الآية نزلت في ذلك: فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في انفسهم حرجا سورة النساء آية 65.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ: " أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ، خَاصَمَ الزُّبَيْرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: سَرِّحْ الْمَاءَ يَمُرُّ، فَأَبَى عَلَيْهِمْ، فَاخْتَصَمُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ: اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ، فَتَلَوَّنَ وَجْهُ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا زُبَيْرُ اسْقِ، ثُمَّ احْبِسْ الْمَاءَ، حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ، فَقَالَ الزُّبَيْرُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ: فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا سورة النساء آية 65.
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے انھیں حدیث سنائی کہ انصار میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حرہ میں واقع پانی کی ان گزرگاہوں (برساتی نالیوں) کے بارے میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے جھگڑا کیا جن سے وہ کھجوروں کو سیراب کرتے تھے۔انصاری کہتا تھا: پانی کو کھلا چھوڑ دو وہ آگے کی طرف گزر جائے، انھوں نے ان لوگوں کی بات ماننے سے انکار کردیا۔وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے آئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زبیر رضی اللہ عنہ (کونرمی کی تلقین کرتے ہوئے ان) سے کہا: "تم (جلدی سے اپنے باغ کو) پلاکر پانی اپنے ہمسائے کی طرف روانہ کردو۔"انصاری غضبناک ہوگیا اورکہنے لگا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس لئے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد ہے۔ (صدمے سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کارنگ بدل گیا، پھر آپ نے فرمایا: "زبیر! (باغ کو) پانی دو، پھر اتنی دیر پانی کو روکو کہ وہ کھجوروں کے گرد کھودے گڑھے کی منڈیر سے ٹکرانے لگے"زبیر رضی اللہ عنہ نےکہا: اللہ کی قسم! میں یقیناً یہ سمجھتا ہوں کہ یہ آیت: "نہیں!آپ کےرب کی قسم!وہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے"اسی (واقعے) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر بیان رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی کا، حرہ کی نالیوں کے بارے میں، جن سے وہ نخلستان کو پانی پلاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے جھگڑا ہوا، انصاری نے کہا، پانی کو چھوڑئیے، وہ بہتا رہے ، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے انکار کیا، رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھگڑا پیش ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے زبیر! بقدر ضرورت زمین کو سیراب کر لواور پھر پانی پڑوسی کے لیے چھوڑ دو۔“ انصاری عصہ میں آ گیااور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول! یہ فیصلہ اس لیے ہو ا کہ یہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد ہے! نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے زبیر! زمین کو پانی پلاؤ، پھر پانی روک لو حتی کہ وہ منڈیر (روک) تک پہنچ جائے۔“ حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، اللہ کی قسم! میرے خیال میں یہی آیت اس سلسلہ میں اتری ہے، ”بات وہ نہیں جو یہ سمجھتے ہیں، تیرے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے، جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو حکم تسلیم نہ کریں، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے بارے میں، اپنے دلوں میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں۔“
یو نس نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن اور سعید بن مسیب نے خبر دی، ان دونوں نے کہا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کیا کرتے تھے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرما تے ہو ئے سنا، "میں جس کام سے تمھیں روکوں اس سے اجتناب کرو اور جس کا م کا حکم دوں، اپنی استطاعت کے مطا بق اس کو کرو، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو سوالات کی کثرت اور اپنے انبیاء علیہ السلام سے اختلا ف نے ہلا ک کردیا۔" .
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جس چیز سے میں نے تمہیں روکا ہے، اس سے پرہیز کرو اور جس کے کرنے کا میں نے تمہیں حکم دیا، اس کو مقدور بھر کرو، تم سے پہلے لوگوں کو محض زیادہ سوال کرنے اور اپنے انبیاء کی مخالفت کرنے کی پاداش میں ہلاک کیا گیا۔“
ابرا ہیم بن سعد نے ابن شہاب سے، انھوں نے عامر بن سعد سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمانوں کے حق میں مسلمانوں میں سے سب سے بڑا جرم وار وہ شخص ہے جو کسی ایسی چیز کے بارےمیں سوال کرے جو حرام نہیں کی گئی تو اس کے سوال کی بنا پر اسے حرا م کر دیا جائے۔
عامر بن سعد، اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے،جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں کرید کی،جو مسلمانوں پر حرام نہ تھی تو اس کےسوال کی بناء پر، ان پرحرام قرار دے دی گئی۔“
ہمیں سفیان (بن عیینہ) نے حدیث بیان کی، کہا:۔مجھے یہ اسی طرح یاد ہے جس طرح بسم اللہ الرحمٰن الرحیم یاد ہے۔زہری نے عامر بن سعد سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی، کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: "مسلمانوں میں سے مسلمانوں کے بارے میں سب سے بڑا جرم وار وہ شخص ہے، جس نے ایسے معاملے کے متعلق سوال کیا جیسے حرام نہیں کیا گیا تھا تو اس کے سوال کی بنا پر اس کو لو گوں کے لیے حرا م کر دیا گیا۔"
امام سفیان کہتے ہیں، یہ حدیث مجھے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی طرح یاد ہے،حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”مسلمانوں میں سب سےبڑا مجرم وہ مسلمان ہے، جس نے ایسی چیز کے بارے میں کریدا، جو حرام نہ تھی، سو لوگوں پر اس کے سوال کے نتیجہ میں حرام ٹھہرائی گئی۔“