شعبہ نے منصور سے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، ام یعقوب رضی اللہ عنہا کے پورے واقعے کے بغیر ہی بیان کی ہے۔
امام صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہمیں یہ حدیث تین اساتذہ نے ایک سند سے سنائی، لیکن اس میں پورا واقعہ محذوف ہے امام یعقوب کا ذکر نہیں ہے، یعنی خالص حدیث سنائی۔
اعمش نے ابراہیم سے، انھوں نے علقمہ سے، انھون نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سب کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔
امام صاحب بیان کرتے ہیں، ہمیں ایک اور استاد نے یہ حدیث سنائی۔
۔ ابو زبیر نے بتایا کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کویہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو اپنے سر (کے بالوں) کے ساتھ کسی بھی چیز کو جوڑنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو اپنے سر کے ساتھ کسی چیز کو جوڑنے سے سرزنش فرمائی ہے۔
حدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف ، انه سمع معاوية بن ابي سفيان عام حج وهو على المنبر، وتناول قصة من شعر كانت في يد حرسي، يقول: يا اهل المدينة اين علماؤكم؟ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن مثل هذه، ويقول: " إنما هلكت بنو إسرائيل حين اتخذ هذه نساؤهم ".حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قال: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ عَامَ حَجَّ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَتَنَاوَلَ قُصَّةً مِنْ شَعَرٍ كَانَتْ فِي يَدِ حَرَسِيٍّ، يَقُولُ: يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذِهِ، وَيَقُولُ: " إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَ هَذِهِ نِسَاؤُهُمْ ".
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ابن شہاب سے، انھوں نے حمید بن عبدالرحمان بن عوف سے روایت کی، انھوں نے حضرت معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے، جس سال انھوں نے حج کیا، سنا، وہ منبر پر تھے، انھوں نے بالوں کی کٹی ہوئی ایک لٹ پکڑی جو ایک محافظ کے ہاتھ میں تھی (جسے عورتیں بالوں سے جوڑتی تھیں) اور کہہ رہے تھے: مدینہ والو! تمہارے علماء کہاں ہیں؟میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ ان (لٹوں وغیرہ) سے منع فرماتے تھے اورفرمارہے تھے: "جب بنی اسرائیل کی عورتوں نے ان کو اپنا نا شروع کیا تو وہ ہلاک ہوگئے۔" (جب جھوٹ کی بنیادوں پر تعمیر عیش وتنعم کا یہ مرحلہ آگیا تو زوال بھی آگیا۔)
حمید بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ جس سال حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کیا، منبر پر بالوں کا ایک گچھا پکڑ کر، جو ایک محافظ کے ہاتھ میں تھا، میں نے ان سے یہ کہتے سنا، اے اہل مدینہ، تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کے کام سے روکتے ہوئے سنا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنو اسرائیل بس اس وقت ہلاک ہوئے، جب ان کی عورتوں نے اس قسم کے کاموں کو اپنا لیا۔“
سفیان بن عینیہ، یونس اور معمر، ان سب نے زہری سے مالک کی حدیث کے مانند بیان کیا مگر معمر کی حدیث میں: "بنی اسرائیل کو عذاب میں مبتلا کردیا گیا" کے الفاظ ہیں۔
امام صاحب بیان کرتے ہیں، ہمیں یہ حدیث تین اساتذہ نے اپنی اپنی سند، زہیری ہی کی سند سے سنائی، معمر کی حدیث میں یہ ہے، ”بنو اسرائیل کو عذاب اس لیے دیا گیا۔“
عمرو بن مرہ نے سعید بن مسیب سے روایت کی، کہا: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مدینے آئے، ہمیں خطبہ دیا اور بالوں کاایک گچھہ نکال کرفرمایا: میں نہیں سمجھتا تھا کہ یہود کے علاوہ کوئی اور بھی ایسا کرتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ نے اس کو جھوٹ (فریب کاری) کا نام دیا تھا۔
امام سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ تشریف لائے تو ہمیں خطاب فرمایا اور بالوں کا ایک گچھا پکڑ کر دکھایا اور کہا، میں نہیں سمجھتا تھا کہ یہود کے سوا کوئی اور بھی یہ حرکت کرتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جھوٹ کا نام دیا۔
قتادہ نے سعید بن مسیب سے روایت کی کہ ایک دن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم لوگوں نے ایک بری ہیت نکال لی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ سے منع فرمایا ہے، پھر ایک شخص عصا لیے ہوئے آیا جس کے سرے پر کپڑے کی ایک دھجی (لیر) تھی۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: سنو! یہ جھوٹ ہے۔قتادہ نے کہا: اس سے مراد وہ دھجیاں (لیریں) ہیں جن کے ذریعے سے عورتیں اپنے بالوں کو زیادہ کرتی ہیں۔
حضرت سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، تم نے بری ہئیت و شکل ایجاد کر لی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ سے منع فرمایا ہے اور ایک آدمی لاٹھی لے کر آیا، جس کے سرے پر ایک چیتھڑا تھا، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، خبردار، یہی جھوٹ ہے، قتادہ کہتے ہیں، یعنی جن چیتھڑوں سے عورتیں اپنے بالوں کو زیادہ بنا کر پیش کرتی ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوزخیوں کی دو قسمیں ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا۔ ایک تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کے کوڑے ہیں، وہ لوگوں کو اس سے مارتے ہیں دوسرے وہ عورتیں جو پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں (یعنی ستر کے لائق لباس نہیں ہیں)، سیدھی راہ سے بہکانے والی، خود بہکنے والی اور ان کے سر بختی (اونٹ کی ایک قسم ہے) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آ رہی ہو گی۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اہل نار کی دو قسمیں ایسی ہیں، جو میں نے دیکھی نہیں ہیں، ایک قسم وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیلوں کی دموں جیسے کوڑے ہیں، ان سے لوگوں کو پیٹتے ہیں اور دوسری قسم وہ عورتیں ہیں، جو لباس پہنتی ہیں، مگر ننگی ہیں، سیدھی راہ سے بہکنے والی اور دوسروں کو بہکانے والی، ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح ایک طرف جھکے ہوں گے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی، نہ اس کی خوشبو پائیں گی، حالانکہ اس کی خوشبو، مہک اتنی اتنی مسافت سے محسوس ہوتی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! (اگر) میں یہ کہوں: مجھے (یہ سب) میرےخاوند نے دیا ہے جو اس نے نہیں دیا؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو (کھانا) نہیں ملا، خود کو اس سے سیر ظاہر کرنے والا، جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والے کی طرح ہے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں، جو چیز خاوند نے نہیں دی، وہ دینے کا اظہار کر سکتی ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز میسر نہیں، اس سے سیری کا اظہار کرنے والا، وہ جھوٹے کپڑے پہننے والے کی طرح ہے۔“
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا عبدة ، حدثنا هشام ، عن فاطمة ، عن اسماء ، جاءت امراة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: إن لي ضرة، فهل علي جناح ان اتشبع من مال زوجي بما لم يعطني؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المتشبع بما لم يعط كلابس ثوبي زور ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ فَاطِمَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ ، جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ لِي ضَرَّةً، فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ أَنْ أَتَشَبَّعَ مِنْ مَالِ زَوْجِي بِمَا لَمْ يُعْطِنِي؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ ".
عبدہ نے کہا: ہمیں ہشام نے فاطمہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے کہا: میری ایک سوکن ہے، کیا مجھے اس بات پر گناہ ہوگا کہ میں خود کو ا پنے خاوند کے ایسے مال سے سیر ہوجانے والی ظاہر کروں جو اس نے مجھے نہیں دیا؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو نہیں دیا گیا اس (مال یاکھانے) سے خود کو سیر ظاہر کرنے والا جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والے کی طرح ہے۔"
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی، میری ایک سوکن ہے تو کیا مجھے گناہ ہو گا، اگر میں یہ ظاہر کروں، مجھے خاوند نے فلاں مال دیا ہے، حالانکہ اس نے دیا نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے پاس کوئی چیز نہ ہو اور وہ ظاہر کرے کہ میرے پاس فلاں چیز ہے، وہ جھوٹی زیبائش کے کپڑے پہننے والے کی طرح ہے۔“