وحدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قرات على مالك ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا الحديث غير انه، قال: واكفئوا الإناء او خمروا الإناء، ولم يذكر تعريض العود على الإناء.وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: وَأَكْفِئُوا الْإِنَاءَ أَوْ خَمِّرُوا الْإِنَاءَ، وَلَمْ يَذْكُرْ تَعْرِيضَ الْعُودِ عَلَى الْإِنَاءِ.
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ابو زبیر سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث روایت کی، مگر انھوں نے (یوں) کہا: "برتن الٹ کر رکھ دو یا انھیں ڈھانک دو۔"اور برتن پر چوڑائی کے رُخ لکڑی رکھنے کا ذکر نہیں کیا۔
امام صاحب یہی روایت امام مالک کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں، اس میں ہے، وَأَكْفِئُوا الْإِنَاءَ أَوْ خَمِّرُوا الْإِنَاءَ
وحدثنا احمد بن يونس ، حدثنا زهير ، حدثنا ابو الزبير ، عن جابر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اغلقوا الباب، فذكر بمثل حديث الليث غير انه، قال: وخمروا الآنية، وقال: تضرم على اهل البيت ثيابهم.وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَغْلِقُوا الْبَابَ، فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ اللَّيْثِ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: وَخَمِّرُوا الْآنِيَةَ، وَقَالَ: تُضْرِمُ عَلَى أَهْلِ الْبَيْتِ ثِيَابَهُمْ.
زہیر نے ابو زبیر سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے رویت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"دروازہ بند کردو"پھر لیث کی حدیث کے مانند بیان کیا، البتہ انھوں نے کہا؛"اور برتنوں کو ڈھانک دو"اور ی کہا: "وہ (چوہیا) گھر والوں پر ان کے کیڑے جلا دیتی ہے۔"
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دروازہ بند کرو۔“ لیث کی پہلی حدیث کی طرح روایت بیان کی، صرف اتنا فرق ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خمّروا الآنية“
سفیان نے ابو زبیر سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی حدیث کے مانند روایت کی اور فرمایا؛"چوہیا گھر والوں کے اوپر گھر کو جلا دیتی ہے۔"
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، اس میں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الفويسقه تضرم البيت على اهله“
وحدثني إسحاق بن منصور ، اخبرنا روح بن عبادة ، حدثنا ابن جريج ، اخبرني عطاء ، انه سمع جابر بن عبد الله ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان جنح الليل او امسيتم، فكفوا صبيانكم، فإن الشيطان ينتشر حينئذ، فإذا ذهب ساعة من الليل فخلوهم واغلقوا الابواب، واذكروا اسم الله، فإن الشيطان لا يفتح بابا مغلقا واوكوا قربكم، واذكروا اسم الله وخمروا آنيتكم، واذكروا اسم الله ولو ان تعرضوا عليها شيئا واطفئوا مصابيحكم ".وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ جُنْحُ اللَّيْلِ أَوْ أَمْسَيْتُمْ، فَكُفُّوا صِبْيَانَكُمْ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْتَشِرُ حِينَئِذٍ، فَإِذَا ذَهَبَ سَاعَةٌ مِنَ اللَّيْلِ فَخَلُّوهُمْ وَأَغْلِقُوا الْأَبْوَابَ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَفْتَحُ بَابًا مُغْلَقًا وَأَوْكُوا قِرَبَكُمْ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ وَخَمِّرُوا آنِيَتَكُمْ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ وَلَوْ أَنْ تَعْرُضُوا عَلَيْهَا شَيْئًا وَأَطْفِئُوا مَصَابِيحَكُمْ ".
اسحاق بن منصور نے کہا: ہمیں روح بن عبادہ نے خبر دی کہا: ہمیں ابن جریج نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے عطاء نے بتایا کہ انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: جب رات ہو جائے یا فرمایا کہ تم شام کرو تو اپنے بچوں کو (گھروں میں) روک لو کیونکہ اس وقت شیطان پھیل جاتے ہیں۔ پھر جب کچھ رات گذر جائے تو بچوں کو چھوڑ دو اور اللہ کا نام لے دروازے بند کر دو کیونکہ شیطان بند دروازے نہیں کھولتا۔ اور اللہ کا نام لے کر اپنے مشکیزوں کا بندھن باندھ دو اور اپنے برتنوں کو ڈھانک لو اللہ کا نام لے کر۔ (اگر برتن ڈھانکنے کے لئے اور کچھ نہ ملے سوا اس کہ) ان برتنوں کے اوپر کوئی چیز چوڑائی میں رکھو (تو وہی رکھ دو) اور اپنے چراغوں کو بجھا دو۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رات کی تاریکی کا آغاز ہو یعنی سورج ڈوبنے لگے یا شام ہو جائے تو اپنے بچوں کو اپنے پاس روک لو، باہر نہ نکلنے دو، کیونکہ اس وقت شیطان پھیلتے ہیں تو جب رات کا کچھ وقت گزر جائے تو انہیں چھوڑ دو، دروازے بسم اللہ پڑھ کر بند کر لو، کیونکہ شیطان بند دروازہ نہیں کھولتا اور بسم اللہ پڑھ کر اپنے مشکیزہ کا منہ باندھ لو اور بسم اللہ پڑھ کر اپنے برتن ڈھانپ لو، خواہ ان پر کوئی چیز ہی رکھ دو اور اپنے چراغوں کو بھجا دو۔“
اسحاق بن منصور نے کہا: ہمیں روح بن عبادہ نے خبر دی، کہا: ہمیں ابن جریج نے حدیث بیان کی، کہا مجھے عمرو بن دینار نے بتایا کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سےسنا، وہ اس طرح کہہ رہے تھے جس طرح عطاء نے بتایا، البتہ انھوں نے یہ نہیں کہا؛"اللہ عزوجل کا نام لو۔"
امام صاحب ایک اور استاد سے بسم اللہ کے ذکر کے بغیر مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے جانوروں کو مت چھوڑو اور بچوں کو جب آفتاب ڈوبے، یہاں تک کہ عشاء کی تاریکی جاتی رہے کیونکہ شیطان بھیجے جاتے ہیں آفتاب ڈوبتے ہی عشاء کی تاریکی جانے تک۔“
ہاشم بن قاسم نے کہا: "ہمیں لیث بن سعد نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے یزید بن عبداللہ بن اسامہ بن ہاد لیثی نے یحییٰ بن سعید سے، انھوں نے جعفر بن عبداللہ بن حکم سے، انھوں نے قعقاع بن حکیم سے، انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "برتن ڈھانک دو، مشکیزے کامنہ باندھ دو، کیونکہ سال میں ایک رات ایسی ہوتی ہے جس میں وبا نازل ہوتی ہے۔پھر جس بھی ان ڈھکے برتن اور منہ کھلے مشکیزے کے پاس سے گزرتی ہے۔تو اس وبا میں سے (کچھ حصہ) اس میں اُتر جاتا ہے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیی عنہما بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”برتن ڈھانپ دو، مشکیزے کا منہ باندھ دو، کیونکہ سال میں ایک رات ہے، اس میں عام بیماری اترتی ہے، وہ جس ایسے برتن سے گزرتی ہے، جس پر ڈھکنا نہیں ہوتا یا ایسے مشکیزے سے جس کا منہ بندھا نہیں ہوتا تو اس وبا سے کچھ حصہ ان میں اترتا ہے۔“
وحدثنا نصر بن علي الجهضمي ، حدثني ابي ، حدثنا ليث بن سعد ، بهذا الإسناد بمثله غير انه، قال: فإن في السنة يوما ينزل فيه وباء وزاد في آخر الحديث، قال الليث: فالاعاجم عندنا يتقون ذلك في كانون الاول.وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: فَإِنَّ فِي السَّنَةِ يَوْمًا يَنْزِلُ فِيهِ وَبَاءٌ وَزَادَ فِي آخِرِ الْحَدِيثِ، قَالَ اللَّيْثُ: فَالْأَعَاجِمُ عِنْدَنَا يَتَّقُونَ ذَلِكَ فِي كَانُونَ الْأَوَّلِ.
علی جہضمی نے کہا: ہمیں لیث بن سعد نے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی مگر انھوں نے اس (حدیث) میں یہ کہا؛"سال میں ایک ایسا دن ہے جس میں وبانازل ہوتی ہے۔" (علی نے) حدیث کے آخر میں یہ اضافہ کیا: لیث نے کہا: ہمارے ہاں کے عجمی لوگ کانون اول (یعنی دسمبر) میں اس وبا سے بچتے ہیں (بچنے کے حیلے کرتے ہیں۔)
امام صاحب ایک اور استاد سے لیث بن سعد ہی کی سند سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں، مگر اتنا فرق ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سال میں ایک دن ہے جس میں وباء اترتی ہے“ اور حدیث کے آخر میں یہ اضافہ ہے، لیث نے کہا: ”عجمی لوگ اس کا اندیشہ نون الاول دسمبر میں رکھتے ہیں۔“