ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
والدليل على ان للمحرمة تغطية وجهها من غير انتقاب ولا إمساس الثوب، إذ الخمار الذي تستر به وجهها بل تسدل الثوب من فوق راسها على وجهها، او تستر وجهها بيدها او بكمها او ببعض ثيابها، مجافية يدها عن وجهها وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ لِلْمُحْرِمَةِ تَغْطِيَةَ وَجْهِهَا مِنْ غَيْرِ انْتِقَابٍ وَلَا إِمْسَاسِ الثَّوْبِ، إِذِ الْخِمَارُ الَّذِي تَسْتُرُ بِهِ وَجْهَهَا بَلْ تُسْدِلُ الثَّوْبَ مِنْ فَوْقَ رَأْسِهَا عَلَى وَجْهِهَا، أَوْ تَسْتُرُ وَجْهَهَا بِيَدِهَا أَوْ بِكُمِّهَا أَوْ بِبَعْضِ ثِيَابِهَا، مُجَافِيَةٌ يَدَهَا عَنْ وَجْهِهَا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام کی حالت میں ہوتے تو جب ہمارے پاس سے کوئی قافلہ گزرتا تو ہم اپنی چادریں اپنے چہروں پر لٹکا لیتیں۔ جناب جریر رحمه الله کی روایت میں ہے کہ پھر جب وہ گزر جاتے، اور ہشیم کی روایت میں ہے کہ پھر جب وہ ہمارے پاس سے گزر جاتے تو ہم اپنے چہرے ننگے کرلیتے۔
1892. جب آدمی رات کے وقت ذی طوی مقام پر پہنچے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے ہوئے مکّہ مکرّمہ کے قریب رات گزارنا اور دن کے وقت صبح مکّہ مکرّمہ میں داخل ہونا مستحب ہے
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حج کے موقع پر) ذی طوی مقام پررات گزاری حتّیٰ کہ صبح ہوئی اور تو آپ مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے۔
إذ في الاقتداء الخير الذي لا يعتاض منه احد ترك الاقتداء به إِذْ فِي الِاقْتِدَاءِ الْخَيْرُ الَّذِي لَا يُعْتَاضُ مِنْهُ أَحَدٌ تَرَكَ الِاقْتِدَاءَ بِهِ
کیونکہ آپ کی اقتداء میں جو خیر و بھلائی ہے، آپ کی اقتداء ترک کرکے کوئی شخص وہ حاصل نہیں کرسکتا
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (مکّہ مکرّمہ میں) بالائی گھاٹی کی جانب سے داخل ہوتے تھے اور نشیبی گھاٹی کی طرف سے باہر نکلتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ذوالحلیفہ میں درخت کے پاس سے تلبیہ کہنا شروع کیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ذی طویٰ مقام پر پہنچے تو وقت وہیں گزارا حتّیٰ کہ آپ نے صبح کی نماز ادا کی، پھرغسل کیا، پھر آپ مکّہ مکرّمہ کی بالائی جانب کداء سے مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے۔ اور جب مکّہ مکرّمہ سے نکلے تو مکّہ مکرّمہ کے زیریں حصّے کداء کی جانب سے نکلے۔
جناب نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جب ذوالحلیفہ پہنچ جاتے تو اپنی سواری پر کجاوه رکھنے کا حُکم دیتے، تو کجاوہ رکھ دیا گیا، پھر انہوں نے صبح کی نماز ادا کی، پھر وہ سوار ہوئے، جب سواری انہیں لیکر سیدھی ہوگئی تو انہوں نے قبلہ رُخ ہوکر نیت کی اور تلبیہ پکارنا شروع کیا کہ جب حرم کی حدود میں گئے تو تلبیہ پڑھنا بند کردیا۔ جب ذی طویٰ مقام پر پہنچے تو رات وہیں بسر کی۔ پھر صبح کی نماز ادا کی پھر غسل کیا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ اعتقاد تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔“
حدثنا احمد بن عبد الرحمن بن وهب ، حدثنا عمي ، حدثني ابو صخر ، عن ابن قسيط ، عن عبيد بن حنين ، قال: حججت مع عبد الله بن عمر بن الخطاب بين حجة وعمرة اثنتي عشرة مرة، قال: قلت له: يا ابا عبد الرحمن، لقد رايت منك اربع خصال، فذكر الحديث، وقال: رايتك إذا اهللت، فدخلت العرش قطعت التلبية، قال: صدقت يا ابن حنين , خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما دخل العرش قطع التلبية ، فلا تزال تلبيتي حتى اموت، قال ابو بكر: قد كنت ارى للمعتمر التلبية حتى يستلم الحجر اول ما يبتدئ الطواف لعمرته لخبر ابن ابي ليلى، عن عطاء، عن ابن عباس،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمسك عن التلبية في العمرة إذا استلم الحجر".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا عَمِّي ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ ، عَنِ ابْنِ قُسَيْطٍ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ ، قَالَ: حَجَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بَيْنَ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ مَرَّةً، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، لَقَدْ رَأَيْتُ مِنْكَ أَرْبَعَ خِصَالٍ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ: رَأَيْتُكَ إِذَا أَهْلَلْتَ، فَدَخَلْتَ الْعَرْشَ قَطَعْتَ التَّلْبِيَةَ، قَالَ: صَدَقْتَ يَا ابْنَ حُنَيْنٍ , خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا دَخَلَ الْعَرْشَ قَطَعَ التَّلْبِيَةَ ، فَلا تَزَالُ تَلْبِيَتِي حَتَّى أَمُوتَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ كُنْتُ أَرَى لِلْمُعْتَمِرِ التَّلْبِيَةَ حَتَّى يَسْتَلِمَ الْحَجَرَ أَوَّلَ مَا يَبْتَدِئُ الطَّوَافَ لِعُمْرَتِهِ لِخَبَرِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُمْسِكُ عَنِ التَّلْبِيَةِ فِي الْعُمْرَةِ إِذَا اسْتَلَمَ الْحَجَرَ".
جناب عبید بن حنین بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے ساتھ تقریباً بارہ حج اور عمرے کیے ہیں۔ میں نے اُن سے عرض کیا کہ اے ابو عبدالرحمان، میں نے آپ سے چار خصوصی باتیں نوٹ کی ہیں۔ پھرمکمّل حدیث بیان کی اور بیان کیا کہ میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ جب آپ احرام باندھ کر تلبیہ پکارتے تو مکّہ مکرّمہ کی آبادی میں پہنچ کر تلبیہ کہنا بند کر دیتے، اُنہوں نے فرمایا کہ اے ابن حنین، تم نے سچ بات بیان کی ہے۔ میں رسول اللہ کے ساتھ (حج کے لئے نکلا) تو جب آپ مکّہ مکرّمہ کی آبادی میں داخل ہوئے تو آپ نے تلبیہ کہنا بند کردیا۔ لہٰذا میں تا حیات اسی طریقہ پر تلبیہ کہتا رہوںگا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میرا موقف یہ تھا کہ عمرہ کرنے والا شخص طواف شروع کرتے وقت حجراسود کو چُھونے یا بوسہ دینے تک تلبیہ کہتا رہیگا، کیونکہ ابن ابی لیلی کی عطاء کے واسطے سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرے میں حجراسود کو چُھونے کے بعد تلبیہ کہنا بند کر دیتے تھے۔
حدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، ومحمد بن هشام ، قالا: حدثنا هشيم ، اخبرني ابن ابي ليلى ، قال محمد بن هشام: عن ابن ابي ليلى، قال ابو بكر: فلما تدبرت خبر عبيد بن حنين كان فيه ما دل على ان النبي صلى الله عليه وسلم قد كان يقطع التلبية عند دخول عروش مكة، وخبر عبيد بن حنين اثبت إسنادا من خبر عطاء ؛ لان ابن ابي ليلى ليس بالحافظ، وإن كان فقيها عالما، فارى للمحرم كان بحج او عمرة او بهما جميعا قطع التلبية عند دخول عروش مكة، فإن كان معتمرا لم يعد إلى التلبية، وإن كان مفردا او قارنا عاد إلى التلبية عند فراغه من السعي بين الصفا والمروة، لان فعل ابن عمر كالدال على انه راى النبي صلى الله عليه وسلم قطع التلبية في حجته إلى الفراغ من السعي بين الصفا والمروة. حدثناه حدثناه الربيع بن سليمان، حدثنا بشر بن بكر، عن الاوزاعي، قال: قال عطاء بن ابي رباح: كان ابن عمر يدع التلبية إذا دخل الحرم، ويراجعها بعد ما يقضي طوافه بين الصفا والمروة .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ: عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَلَمَّا تَدَبَّرْتُ خَبَرَ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ كَانَ فِيهِ مَا دَلَّ عَلَى أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ يَقْطَعُ التَّلْبِيَةَ عِنْدَ دُخُولِ عُرُوشِ مَكَّةَ، وَخَبَرُ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ أَثْبَتُ إِسْنَادًا مِنْ خَبَرِ عَطَاءٍ ؛ لأَنَّ ابْنَ أَبِي لَيْلَى لَيْسَ بِالْحَافِظِ، وَإِنْ كَانَ فَقِيهًا عَالِمًا، فَأَرَى لِلْمُحْرِمِ كَانَ بِحَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ أَوْ بِهِمَا جَمِيعًا قَطْعَ التَّلْبِيَةِ عِنْدَ دُخُولِ عُرُوشِ مَكَّةَ، فَإِنْ كَانَ مُعْتَمِرًا لَمْ يَعُدْ إِلَى التَّلْبِيَةِ، وَإِنْ كَانَ مُفْرَدًا أَوْ قَارِنًا عَادَ إِلَى التَّلْبِيَةِ عِنْدَ فَرَاغِهِ مِنَ السَّعْيِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، لأَنَّ فِعْلَ ابْنِ عُمَرَ كَالدَّالِ عَلَى أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطَعَ التَّلْبِيَةَ فِي حَجَّتِهِ إِلَى الْفَرَاغِ مِنَ السَّعْيِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ. حَدَّثَنَاهُ حَدَّثَنَاهُ الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: قَالَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَدَعُ التَّلْبِيَةَ إِذَا دَخَلَ الْحَرَمَ، وَيُرَاجِعَهَا بَعْدَ مَا يَقْضِي طَوَافَهُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ .
امام صاحب نے مذکورہ بالا روایت کی سند بیان کی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ پھر جب میں نے عبید بن حنین کی روایت میں غور و فکر کیا تو اس میں یہ دلیل موجو تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ کی آبادی میں پہنچتے ہی تلبیہ کہنا بند کردیتے تھے۔ جناب عبید بن حنین کی روایت سند کے لحاظ سے امام عطاء کی روایت سے زیادہ مضبوط ہے کیونکہ ابن ابی لیلی حافظ حدیث نہیں ہیں اگرچہ وہ ایک جید فقیہ اورعالم دین ہیں۔ لہٰذا اب میرا موقف یہ ہے کہ محرم حج کے لئے آئے یا عمرے کے لئے، وہ مکّہ مکرّمہ کی آبادی میں داخل ہوتے ہی تلبیہ کہنا بند کر دیگا۔ اور اگر وہ صرف عمرہ کرنے آیا ہو تو دوبارہ تلبیہ نہیں پڑھیگا۔ اور اگر وہ حج مفرد یا حج قران کر رہا ہو تو وہ صفا اور مروہ کی سعی کرنے کے بعد دوبارہ تلبیہ کہنا شروع کر دیگا۔ کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا فعل اس بات کی دلیل ہے کہ اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا کہ آپ نے اپنے حج میں صفا اور مروہ کی سعی تک تلبیہ کہنا بند کر دیا تھا۔ امام عطاء بن ابی رباح رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما حدود حرم میں داخل ہونے کے بعد تلبیہ کہنا بند کر دیتے تھے اور صفاء و مروہ کی سعی کرنے کے بعد دوبارہ تلبیہ کہنا شروع کر دیتے تھے۔