ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی اور فرمایا، پھر آپ بیت الله شریف کے ہر ہر کونے میں تشریف لائے آپ ہر رکن کی طرف مُنہ کرکے «لَا إِلٰهَ إِلَّا الله، سُبْحَانَ اللَٰه، الحَمْدُ لِلَٰه» پڑھتے، اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور دعائیں مانگتے۔ پھر بقیہ حدیث بیان کی۔
امام مجاہد اور عطاء کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے، مجھے میرے بھائی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الله شریف میں داخل ہوئے تو آپ دوستونوں کے درمیان سجدے میں گرگئے۔ پھر آپ بیٹھ گئے،آپ نے دعائیں مانگیں اور نماز نہیں پڑھی۔
وهذا من الجنس الذي اعلمت في غير موضع من كتبنا ان الخبر الذي يجب قبوله هو خبر من يخبر برؤية الشيء وسماعه وكونه، لا من ينفي الشيء ويدفعه، والفضل بن عباس في قوله: ولم يصل ناف لصلاة النبي صلى الله عليه وسلم فيها، لا مثبت خبرا، ومن اخبر ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى فيها مثبت فعلا، مخبر برؤية فعل من النبي صلى الله عليه وسلم، فالواجب من طريق العلم والوقف قبول خبر من اعلم انه راى النبي صلى الله عليه وسلم صلى فيها، دون من نفى ان يكون النبي صلى الله عليه وسلم صلى فيها، وهذه مسالة طويلة قد بينتها في غير موضع من كتبنا ان اهل العلم لم يختلفوا في جملة هذا القول.وَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا أَنَّ الْخَبَرَ الَّذِي يَجِبُ قُبُولُهُ هُوَ خَبَرُ مَنْ يُخْبِرُ بِرُؤْيَةِ الشَّيْءِ وَسَمَاعِهِ وَكَوْنِهِ، لَا مَنْ يَنْفِي الشَّيْءَ وَيَدْفَعُهُ، وَالْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ: وَلَمْ يُصَلِّ نَافٍ لِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا، لَا مُثْبِتٌ خَبَرًا، وَمَنْ أَخْبَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِيهَا مُثْبِتٌ فِعْلًا، مُخْبِرٌ بِرُؤْيَةِ فِعْلٍ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَالْوَاجِبُ مِنْ طَرِيقِ الْعِلْمِ وَالْوَقْفِ قَبُولُ خَبَرِ مَنْ أَعْلَمَ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِيهَا، دُونَ مَنْ نَفَى أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِيهَا، وَهَذِهِ مَسْأَلَةٌ طَوِيلَةٌ قَدْ بَيَّنْتُهَا فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ لَمْ يَخْتَلِفُوا فِي جُمْلَةِ هَذَا الْقَوْلِ.
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ شریف کے اندر نماز پڑھی ہے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کے اندر نماز پڑھی ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فتح مکّہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ پر سوار ہوکر تشریف لائے اور سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے۔ آپ کے ساتھ سیدنا بلال اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما تھے جب آپ بیت اللہ شریف کے پاس پہنچے تو سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ شریف کی چابی منگوا کر بیت اللہ شریف کا دروازہ کھول دیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا بلال، اسامہ اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم اندر داخل ہوگئے اور بڑی دیر تک اندر ٹھہر ے رہے۔ اور انھوں نے اندر سے دروازہ بند کرلیا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو صحابہ کرام تیزی کے ساتھ بیت اللہ شریف کی طرف آئے، سیدنا ابن عمر اور ایک اور صحابی رضی اللہ عنہم ان سب سے پہلے پہنچ گئے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کہاں پڑھی ہے؟ اُنھوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو وہ جگہ دکھائی جہاں آپ نے نماز پڑھی تھی۔ لیکن سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ سوال نہیں کیا کہ آپ نے کتنی رکعات نماز پڑھی ہے۔
حدثنا عبد الجبار بن العلاء ، ومحمد بن عمر بن العباس ، قالا: حدثنا سفيان ، قال عبد الجبار، قال حدثنا ايوب ، سمعه من نافع ، عن ابن عمر، وقال محمد: عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر ، قال: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفتح، وهو على ناقة لاسامة حتى اناخ بفناء الكعبة، ثم دعا عثمان بن طلحة بالمفتاح، فذهب إلى امه، فابت ان تعطيه، فقال: لتعطينيه او ليخرجن السيف من صلبي، فدفعت إليه ففتح الباب، فدخل النبي صلى الله عليه وسلم، ودخل معه عثمان، وبلال، واسامة، فاجافوا الباب مليا، قال ابن عمر: وكنت رجلا شابا قويا فبدر الناس فبدرتهم، فوجدت بلالا قائما على الباب، قال: يا بلال ، اين صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال:" بين العمودين المقدمين" ، ونسيت ان اساله كم صلى، هذا لفظ حديث محمد بن عمروحَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْعَبَّاسِ ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ عَبْدُ الْجَبَّارِ، قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، سَمِعَهُ مِنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَقَالَ مُحَمَّدٌ: عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ، وَهُوَ عَلَى نَاقَةٍ لأُسَامَةَ حَتَّى أَنَاخَ بِفِنَاءِ الْكَعْبَةِ، ثُمَّ دَعَا عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَةَ بِالْمِفْتَاحِ، فَذَهَبَ إِلَى أُمِّهِ، فَأَبَتْ أَنْ تُعْطِيَهُ، فَقَالَ: لَتُعْطِينِيهِ أَوْ لَيُخْرِجَنَّ السَّيْفَ مِنْ صُلْبِي، فَدَفَعَتْ إِلَيْهِ فَفَتَحَ الْبَابَ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَخَلَ مَعَهُ عُثْمَانُ، وَبِلالٌ، وَأُسَامَةُ، فَأَجَافُوا الْبَابَ مَلِيًّا، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَكُنْتُ رَجُلا شَابًّا قَوِيًّا فَبَدَرَ النَّاسُ فَبَدَرْتُهُمْ، فَوَجَدْتُ بِلالا قَائِمًا عَلَى الْبَابِ، قَالَ: يَا بِلالُ ، أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:" بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ الْمُقَدَّمَيْنِ" ، وَنَسِيتُ أَنْ أَسْأَلَهُ كَمْ صَلَّى، هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ والے دن سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی اونٹنی پر سوار ہوکر مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ آپ نے اپنی اونٹنی کعبہ شریف کے صحن میں بٹھائی پھر عثمان بن طلحہ کو چابی لانے کا حُکم دیا تو وہ اپنی والدہ کے پاس چابی لینے گیا، اس کی والدہ نے چابی دینے سے انکار کردیا وہ کہنے لگے کہ تم ضرور چابی دیدو وگرنہ تلوار میری کمر کے پار ہو جائیگی (مجھے قتل کردیا جائیگا) تواس نے اسے چابی دیدی پھر اس نے بیت اللہ شریف کا دروازه کھول دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہوگئے۔ پھر انھوں نے کچھ دیر دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں طاقتور جوان آدمی تھا۔ لوگوں نے بیت اللہ شریف کی طرف جلدی کی تو میں اُن سب سے پہلے وہاں پہنچ گیا۔ میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو بیت الله شریف کے دروازے پر کھڑا پایا۔ میں نے پوچھا کہ اے بلال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ اُنھوں نے جواب دیا کہ اگلے دو ستونوں کے درمیان پڑھی ہے لیکن میں اُن سے یہ پوچھنا بھول گیا کہ آپ نے کتنی نماز پڑھی ہے۔ یہ روایت محمد بن عمرو کی ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کہاں پڑھی ہے؟ تو اُنھوں نے جواب دیا کہ آپ نے بیت الله شریف کے اگلے حصّے میں نماز پڑھی ہے۔ آپ کے اور کعبہ شریف کی دیودار کے درمیان تین ہاتھ یا تقریباً تین ہاتھ کا فاصلہ تھا۔ حدیث کے راوی ابوعامر کو ان الفاظ میں شک ہے۔
حضرت سالم بن عبداللہ رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی تھیں کہ مسلمان آدمی پرتعجب ہے کہ جب وہ بیت الله شریف کے اندر داخل ہوتا ہے تو اپنی نگاہیں چھت کی طرف کیسے اُٹھاتا ہے۔ وہ یہ کام اللہ کے جلال اور عظمت کے اقرار کے لئے کرتا ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے تھے تو آپ نے اپنی نظریں اپنے سجدے کی جگہ جمائے رکھی تھیں حتّیٰ کہ آپ باہر تشریف لے آئے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بیت اللہ شریف میں داخل ہوا تو وہ نیکی میں داخل ہوگیا اور وہ برائیوں سے بخشش حاصل کرکے نکل گیا۔“