ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے منیٰ میں دو رکعات ادا کیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے ابتدائی سالوں میں دو رکعات ہی ادا کیں۔
2100. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں دو رکعات اس لئے ادا کیں کیونکہ آپ مسافر تھے، مقیم نہیں تھے۔ کیونکہ آپ مدینہ منوّرہ کے رہائشی تھے۔
إذ هو صلى الله عليه وسلم كان من اهل المدينة، وإنما قدم مكة حاجا لم يقم بها إقامة يجب عليه إتمام الصلاة.إِذْ هُوَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَإِنَّمَا قَدِمَ مَكَّةَ حَاجًّا لَمْ يُقِمْ بِهَا إِقَامَةً يَجِبُ عَلَيْهِ إِتْمَامَ الصَّلَاةِ.
بلاشبہ آپ مکّہ مکرّمہ میں حج کے لئے آئے تھے اور آپ نے مکّہ مکرّمہ میں اتنے دن قیام نہیں کیا تھا کہ جس سے پوری نماز پڑھنا آپ کے لئے واجب ہو جاتا۔ امام ابوبکر رحمه الله کہتے ہیں بروایت یحییٰ بن ابی اسحاق کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ منوّرہ) واپس لوٹنے تک (سفر حج میں) برابر دو رکعتیں پڑھتے رہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حضر کی نماز چار رکعات اور سفر میں دو رکعات فرض کی ہے۔ اس طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے صراحت فرمادی کہ منیٰ میں مقیم شخص پر چار رکعات نماز فرض ہے جس طرح کے کسی دوسری جگہ پر مقیم شخص پرفرض ہے۔
اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث کہ ابتدا میں جب نماز فرض ہوئی تو دو رکعات فرض ہوئی تھی۔ پھر حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا (اور وہ چار رکعات ہوگئیں جبکہ مسافر کی نماز دو رکعات پڑھنا باقی رہیں) یہ حدیث بھی صراحت کرتی ہے کہ مقیم شخص پرمنیٰ میں مکمّل نماز واجب ہے وہ قصر نماز نہیں پڑھ سکتا جبکہ وہ مقیم ہو اور مسافر نہ ہو۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے کتاب الصلاة میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت کا معنی بیان کردیا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایات میں واضح دلیل موجود ہے کہ اہل مکّہ اور مکّہ مکرّمہ میں مقیم ہونے والے شخص پر واجب ہے کہ وہ منیٰ میں مکمّل نماز ادا کریں کیونکہ وہ اب مقیم ہوچکے ہیں، مسافر نہیں رہے اور مقیم پر چار رکعات نماز فرض ہے۔ اس لئے کسی غیر مسافر شخص، عدم جنگ کی وجہ سے خوفزدہ نہ ہونے والے شخص، اہل مکّہ اور مکّہ مکرّمہ میں باہر سے آ کر مقیم ہو جانے والے شخص کے لئے نماز قصر کرنا جائز ہیں جبکہ وہ منیٰ کی طرف جائیں اور اُن کی نیت واپس مکّہ مکرّمہ آنے کی ہو، اس طرح وہ مسافر نہیں ہوںگے لہٰذا اُن کے لئے منیٰ میں نماز قصر کرنا جائز نہیں۔
سیدنا عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی کے نزدیک عظیم ترین دن قربانی کا دن اور یوم القر (قربانی کا دوسرا دن) ہے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل عليه السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے پھر آپ کو مناسک ححج دکھانے کے لئے لے گئے چنانچہ آپ کے لئے ثبیر پہاڑ سے راستہ کھل گیا تو آپ منیٰ میں داخل ہوئے۔ جبرائیل عليه السلام نے آپ کو جمرات دکھائے۔ پھر آپ کو عرفات دکھایا۔ پس شیطان جمرات کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آ گیا۔ تو آپ نے اُس کو سات کنکریاں ماریں حتّیٰ کہ وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر دوسرے جمرے کے پاس آئے وہ آپ کے پیچھے آ گیا تو آپ نے اُسے پھر سات کنکریاں ماریں جس سے وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر وہ جمرہ عقبہ کے پاس آپ کے پیچھے آیا تو آپ نے اُسے سات کنکریاں ماریں حتّیٰ کہ وہ زمین میں دھنس گیا، پھر فرار ہو گیا۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی والے دن چاشت کے وقت کنکریاں مارتے تھے، اور باقی دنوں میں سورج ڈھلنے کے بعد رمی کرتے تھے۔
جناب ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں تو سورج بلند ہونے سے پہلے رمی نہیں کرتا بیشک سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی والے دن زوال سے پہلے رمی کرتے تھے اور بعد والے دنوں میں زوال شمس کے بعد کنکریاں مارتے تھے۔ امام ابو بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے، اگر ابن خوار نے اس سند میں امام عطاء کا واسطہ یاد رکھا ہو (لیکن سند میں امام عطاء کا ذکر نہیں ہے۔ ممکن ہے کاتب سے یہ کلمہ رہ گیا ہو)۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ بیت اللہ کا طواف، صفا مروہ کی سعی اور جمرات کی رمی اللہ تعالیٰ کے ذکر کو قائم کرنے کے لئے مقرر کی گئی ہے۔“