ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مشرک لوگ مزدلفہ سے اُس وقت تک واپس نہیں آتے تھے حتّیٰ کہ سورج ثبیر پہاڑ کی چوٹی پر چمکنے لگ جاتا۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کی مخالفت کرتے ہوئے سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی واپس روانہ ہوگئے۔
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات اور مزدلفہ سے واپس لوٹتے وقت نہایت اطمینان اور سکون سے چلے حتّیٰ کہ آپ منیٰ پہنچ گئے۔
2020. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے منیٰ واپسی پر سکون و آرام سے چلے تھے سوائے وادی محسر کے، آپ نے وہاں پر اونٹنی تیز چلائی تھِی
وفي هذا ما دل على ان الفضل إنما اراد: وعليه السكينة حتى اتى منى، خلا إيضاعه في وادي محسر على ما ترجمت الباب انه لفظ عام اراد به الخاص. وَفِي هَذَا مَا دَلَّ عَلَى أَنَّ الْفَضْلَ إِنَّمَا أَرَادَ: وَعَلَيْهِ السَّكِينَةُ حَتَّى أَتَى مِنًى، خَلَا إِيضَاعِهِ فِي وَادِي مُحَسِّرٍ عَلَى مَا تَرْجَمْتُ الْبَابَ أَنَّهُ لَفْظٌ عَامٌّ أَرَادَ بِهِ الْخَاصَّ.
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وادی محسر میں پہنچے تو آپ کی اونٹنی خوفزدہ ہوکر بھاگنے لگی حتّیٰ کہ آپ وادی سے گزر گئے۔
امام عطاء رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ تیز چلنے کی ابتداء دیہاتی لوگوں نے کی تھی۔ وہ لوگوں کے گرد کھڑے ہوتے تھے، انہوں نے اپنا زادراه، لاٹھیاں اور پیالے وغیرہ لٹکائے ہوتے تھے۔ پھر جب وہ واپس جاتے تو اُن کے برتن اور سامان آپس میں ٹکراتے اور گونجتے، میں بھی لوگوں کے ساتھ واپس روانہ ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا گیا کہ آپ کی اونٹنی کے کانوں کی پچھلی ہڈیاں گردن کی پشت پر لگ رہی تھیں (کیونکہ آپ نے نکیل خوب کھینچی ہوئی تھی) اور آپ فرمارہے تھے: ”اے لوگو، آرام سے چلو، اے لوگو، سکون و اطمینان کے ساتھ چلو“ بعض اوقات امام عطاء نے یہ روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کی ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ پھر آپ درمیانی راستے پر چلے جو کہ آپ کو لیکر جمرہ کبریٰ کے پاس جاکر نکلتا ہے حتّیٰ کہ آپ اس جمرے پر پہنچے جو درخت کے قریب ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عشرہ ذوالحجہ میں کیے گئے اعمال اللہ تعالی کو باقی تمام دنوں کے اعمال سے زیادہ محبوب ہیں“ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی (ان دنوں کے نیک اعمال سے زیاده محبوب) نہیں سوائے اس شخص کے عمل کے جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال لیکر نکلا پھر ان دونوں میں سے کوئی چیز بھی واپس لیکر نہ آیا۔“ یہ روایت جناب ابومعاویہ کی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ تعالی کے نزدیک دنوں میں سے عظیم ترین دن قربانی کا دن ہے اور اس کے بعد دوسرا دن ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یوم القر سے مراد قربانی کا دوسرا دن ہے۔