سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میرے والد صاحب فوت ہوگئے ہیں اور کچھ مال بھی چھوڑ گئے ہیں۔ جبکہ وصیت کرکے نہیں گئے۔ تو کیا ان کی طرف سے میں صدقہ کروں تو ان کے گناہوں کا کفارہ بنیگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، میری والدہ اچانک فوت ہوگئی ہیں اور مجھے یقین ہے اگر (مرنے سے پہلے) وہ بات چیت کرتیں تو صدقہ کرنے کی وصیت ضرور کرتیں اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کردوں تو کیا انہیں اجر و ثواب ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں انہیں ثواب ملے گا۔“ جناب ابوکریب کی روایت میں ہے کہ انہوں نے وصیت نہیں کی، میرا یقین ہے کہ اگر وہ بات کر سکتیں تو ضرور صدقہ کرتیں۔
جناب سعید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے میں شرکت کے لئے چلے گئے اس دوران میں ام سعد رضی اللہ عنہا کی وفات کا وقت آپہنچا۔ اُن سے کہا گیا کہ وصیت کرجائیں۔ وہ فرمانے لگیں، میں کیسی وصیت کروں؟ بلا شبہ سارا مال سعد ہی کا ہے۔ پھر وہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے واپس آنے سے پہلے ہی فوت ہوگئیں۔ جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ واپس آئے تو انہیں ساری بات بتائی گئی۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اگر میں اپنی والدہ کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا وہ انہیں فائدہ دیگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں انہیں فائدہ دیگا۔“ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا تو میرا فلاں فلاں باغ اُس کا نام لیکر کہا کہ وہ میری والدہ کی طرف سے صدقہ ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بنی ساعدہ کے سردار سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، میری والدہ اس وقت فوت ہوگئی ہیں جبکہ میں اُن کے پاس موجود نہیں تھا اگر میں اُن کی طرف سے کوئی چیز صدقہ کروں تو وہ صدقہ اُنہیں فائدہ دیگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف (کھجوروں) والا باغ اُن کی طرف سے صدقہ ہے۔
حدثنا محمد بن سنان القزاز ، حدثنا ابو عاصم، عن ابن جريج ، عن يعلى ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، ان رجلا قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إن امه توفيت افينفعها إن تصدقت به عنها؟ وقال احمد بن منيع، قال: يا رسول الله، إن امي توفيت، وقال: فإن لي مخرفا يعني: بستانا.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الْقَزَّازُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ يَعْلَى ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَجُلا قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أُمَّهُ تُوُفِّيَتْ أَفَيَنْفَعُهَا إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا؟ وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ، وَقَالَ: فَإِنَّ لِي مَخْرَفًا يَعْنِي: بُسْتَانًا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول االلہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا میری والدہ فوت ہوگئی ہیں، اگر میں اُن کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اُنہیں اس کا فائدہ ہوگا؟ جناب احمد بن منیع کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، میری والدہ وفات پا گئی ہیں اور میرا ایک کھجوروں کا باغ ہے۔
جناب کدیر الضہی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنّت میں داخل کردے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عدل وانصاف کی بات کرو اور زائد مال صدقہ خیرات کردیا کرو۔“ اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اگر میں یہ کام نہ کرسکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے جواب دیا کہ جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں سے ایک اونٹ لیکر مشکیزہ رکھو اور ایسے لوگوں کو پانی پلاوَ جنھیں ایک دن چھوڑ کر پانی ملتا ہے بیشک تمہارے اونٹ کے تھک ہار کر مرنے اور تمہارے مشکیزے کے پھٹنے سے پہلے تمہارے لئے جنّت واجب ہوجائیگی۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ مجھے ابوسحاق کے کدیر سے سماع کا علم نہیں ہے۔