1556. اس بات کا بیان کہ دو امانتداروں کے حُکم سے زکاۃ ارکان اسلام میں سے ہے۔ ایک آسمانی امین جبرائیل عليه السلام ہیں اور دوسرے زمین پر (اللہ تعالیٰ کے) امین نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس درمیان کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے باہر) لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے جب ایک شخص چلتے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان یہ ہے کہ تُو اللہ تعالیٰ، اُس کے فرشتوں، اُس کی کتاب، اُس کی ملاقات اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے اور تُو آخرت کے دن اُٹھنے پر یقین رکھے۔“ اُس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام یہ ہے کہ تُو اللہ کی عبادت کرے اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے، اور نماز قائم کرے اور تُو فرض زکاۃ ادا کرے اور رمضان المبارک کے روزے رکھے۔“ اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، احسان کی حقیقت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احسان یہ ہے کہ تُو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا تُو اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے کیونکہ اگر تُو اُسے دیکھ نہیں رہا تو بلاشبہ وہ تو تجھےدیکھ رہا ہے۔“ اُس نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول، قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص سے قیامت کے بارے میں پوچھا، جارہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ لیکن میں تمہیں اس کی نشانیاں بتا دیتا ہوں۔ جب لونڈی اپنے مالک کو جنے گی تو یہ قیامت کی نشانی ہوگی اور جب بکریوں کے چرواہے بلند وبالا عمارات بنانے میں فخر و غرور کا اظہار کریں گے تو یہ قیامت کی نشانی ہوگی اور جب ننگے بدن، ننگے پاؤں چلنے والے (فقراء) لوگوں کے سردار بن جائیں گے تو یہ قیامت کی نشانی ہوگی۔ قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے یا آیت تلاوت فرمائی «إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ» [ سورة لقمان: 34 ]”بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش نازل کرتا ہے اور وہی جانتا ہے جو ماؤں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بیشک اللہ خوب جاننے والا پوری طرح باخبر ہے۔“ پھر وہ شخص پشت پھیر کر چلا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جبرائیل عليه السلام ہیں، لوگوں کو اُن کا دین سکھانے آئے تھے“ یہ روایت جناب محمد بن بشر کی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عبد القیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، یہ ربیعہ قبیلے کے لوگ ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان مضر قبیلے کے کافر حائل ہیں اور ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینے میں ہی آسکتے ہیں تو آپ ہمیں کوئی ایسی چیز بتادیں جس پرہم خود عمل پیرا ہوں اور اپنے پیچھے رہ جانے والے افراد کو اُس کی دعوت دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں چارکاموں کا حُکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں۔ میں تمہیں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس بات کی گواہی دینے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور تمہیں جو غنیمت حاصل ہو اُس میں سے خمس ادا کرنے کا حُکم دیتا ہوں اور میں تمہیں کدو کے برتن، سبزرنگ کے گھڑے، لکڑی کرید کربنائے گئے برتن اور تارکول لگے ہوئے برتن سے منع کرتا ہوں۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔ پھر مذکورہ بالا کی طرح روایت بیان کی۔ اور فرمایا: ”اللہ پر ایمان لانا“ پھر اُنہیں اس کی تفسیر یہ بتائی کہ اس سے مراد یہ گواہی دینا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی سچامعبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔“ پھر لمبی حدیث بیان کی۔