سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ سے سوال کیا گیا کہ فرض نماز کے بعد کونسی نماز افضل ہے؟ اور رمضان المبارک کے بعد کون سے روزے افضل ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز آدھی رات کی نماز (تہجّد) ہے۔ اور رمضان المبارک کے روزوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم کے روزے سب سے افضل ہیں۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مہینوں میں سے ماہ شعبان کے روزے رکھنا زیادہ محبوب تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے رمضان کے ساتھ ملا دیتے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سال کے مہینوں میں سے ماہ شعبان سے زیادہ کسی مہینے کے روزے نہیں رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ کے سارے روزے رکھتے تھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مذکورہ بالا کی مثل مروی ہے۔ اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اتنا عمل کرو جتنی تم طاقت رکھتے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ (اجر و ثواب دیتے ہوئے) نہیں تھکتا حتّیٰ کہ تم ہی (عمل کرکے) تھک جاتے ہو“ اور آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب (نفلی) نماز وہ تھی جس پر ہمیشگی کی جاتی، اگرچہ وہ تھوڑی سی ہو اور آپ کا عمل مبارک یہ تھا کہ آپ جب کوئی نماز پڑھتے تو اُسے ہمیشہ ادا کرتے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ عاشوراء کے دن قریش زمانہ جاہلیت میں روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ منوّرہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حُکم دیا۔ پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہو گئے تو پھر فرض روزے رمضان المبارک ہی کے ہوتے تھے اور عاشوراء کا روزہ چھوڑ دیا گیا۔ لہٰذا جو شخص چاہتا اس دن کا روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا نہ رکھتا۔
جناب عبدالرحمان بن یزید بیان کرتے ہیں کہ اشعث بن قیس سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عاشوراء کے دن حاضر ہوئے جبکہ وہ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے ابومحمد، قریب ہو جاؤ اور کھانا کھاؤ۔اُنہوں نے عرض کی کہ میں روزے سے ہوں۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ عاشوراء کیا تھا؟ اُنہوں نے پوچھا کہ عاشوراء کیا تھا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت نازل ہونے سے پہلے اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا۔ جناب علی بن خشرم اور یوسف کی روایت میں ہے کہ پھر جب رمضان کی فرضیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ چھوڑ دیا۔
1429. اس بات کی دلیل کا بیان کہ ماہ رمضان کے روزے فرض ہو جانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشوراء کا روزہ چھوڑنا آپ کی مرضی پر منحصر تھا۔ یہ مطلب نہیں کہ آپ نے اسے ہر حال میں بالکل چھوڑ دیا تھا۔ بلکہ آپ چاہتے تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر چاہتے تو اس کا روزہ رکھ لیتے
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عاشوراء کے دن اہل جاہلیت روزہ رکھا کرتے تھے۔ پھر جب رمضان المبارک کی فرضیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا گیا۔ تو آپ نے فرمایا: ”یہ اللہ تعالیٰ کے دنوں میں سے ایک دن ہے۔ لہٰذا جو شخص روزہ رکھنا چاہے وہ رکھ لے اور جو چاہے روزہ نہ رکھے۔“
1430. اس حدیث کا بیان جس کا معنی نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک عالم دین کو اس کے معنی میں غلطی لگی ہے -اس کا خیال ہے کہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے عاشوراء کا روزہ مکمّل طور پر منسوخ ہوگیا ہے