حدثنا محمد بن عبد الاعلى الصنعاني ، حدثنا بشر يعني ابن المفضل ، حدثنا ابن عون ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، قال: انطلقت انا، ومسروق إلى ام المؤمنين نسالها عن المباشرة، فاستحيينا، قال: قلت: جئنا نسال حاجة، فاستحيينا. فقالت: ما هي؟ سلا عما بدا لكما. قال: قلنا: كان النبي صلى الله عليه وسلم يباشر وهو صائم؟ قالت:" قد كان يفعل، ولكنه كان املك لإربه منكم" . قال ابو بكر: إنما خاطب الله جل ثناؤه نبيه صلى الله عليه وسلم وامته بلغة العرب اوسع اللغات كلها، التي لا يحيط بعلم جميعها احد غير نبي، والعرب في لغاتها توقع اسم الواحد على شيئين، وعلى اشياء ذوات عدد، وقد يسمى الشيء الواحد باسماء، وقد يزجر الله عن الشيء، ويبيح شيئا آخر غير الشيء المزجور عنه، ووقع اسم الواحد على الشيئين جميعا: على المباح، وعلى المحظور، وكذلك قد يبيح الشيء المزجور عنه، ووقع اسم الواحد عليهما جميعا، فيكون اسم الواحد واقعا على الشيئين المختلفين، احدهما مباح، والآخر محظور، واسمها واحد. فلم يفهم هذا من سفه لسان العرب، وحمل المعنى في ذلك على شيء واحد، يوهم ان الامرين متضادان، إذ ابيح فعل مسمى باسم، وحظر فعل تسمى بذلك الاسم سواء. فمن كان هذا مبلغه من العلم، لم يحل له تعاطي الفقه، ولا الفتيا، ووجب عليه التعلم، او السكت، إلى ان يدرك من العلم ما يجوز معه الفتيا، وتعاطي العلم. ومن فهم هذه الصناعة علم ان ما ابيح غير ما حظر، وإن كان اسم الواحد قد يقع على المباح وعلى المحظور جميعا، فمن هذا الجنس الذي ذكرت ان الله عز وجل دل في كتابه ان مباشرة النساء في نهار الصوم غير جائز كقوله تبارك وتعالى: فالآن باشروهن وابتغوا ما كتب الله لكم وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر ثم اتموا الصيام إلى الليل سورة البقرة آية 187 فاباح الله عز وجل مباشرة النساء والاكل والشرب بالليل، ثم امرنا بإتمام الصيام إلى الليل، على ان المباشرة المباحة بالليل المقرونة إلى الاكل والشرب هي الجماع المفطر للصائم، واباح الله عز وجل بفعل النبي المصطفى صلى الله عليه وسلم المباشرة التي هي دون الجماع في الصيام، إذ كان يباشر وهو صائم. والمباشرة التي ذكرها الله في كتابه انها تفطر الصائم هي غير المباشرة التي كان النبي صلى الله عليه وسلم يباشرها في صيامه. والمباشرة اسم واحد واقع على فعلين: إحداهما: مباحة في نهار الصوم، والاخرى: محظورة في نهار الصوم، مفطرة للصائم. ومن هذا الجنس قوله عز وجل: يايها الذين آمنوا إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع سورة الجمعة آية 9 فامر ربنا جل وعلا بالسعي إلى الجمعة، والنبي المصطفى صلى الله عليه وسلم قال:" إذا اتيتم الصلاة فلا تاتوها وانتم تسعون، إيتوها تمشون وعليكم السكينة". فاسم السعي يقع على الهرولة، وشدة المشي، والمضي إلى الموضع، فالسعي الذي امر الله به ان يسعى إلى الجمعة، هو المضي إليها، والسعي الذي زجر النبي صلى الله عليه وسلم عنه إتيان الصلاة هو الهرولة وسرعة المشي. فاسم السعي واقع على فعلين: احدهما مامور، والآخر منهي عنه. وسابين إن شاء الله تعالى هذا الجنس في كتاب معاني القرآن، إن وفق الله لذلكحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا، وَمَسْرُوقٌ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ نَسْأَلُهَا عَنِ الْمُبَاشَرَةِ، فَاسْتَحْيَيْنَا، قَالَ: قُلْتُ: جِئْنَا نَسْأَلُ حَاجَةً، فَاسْتَحْيَيْنَا. فَقَالَتْ: مَا هِيَ؟ سَلا عَمَّا بَدَا لَكُمَا. قَالَ: قُلْنَا: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ؟ قَالَتْ:" قَدْ كَانَ يَفْعَلُ، وَلَكِنَّهُ كَانَ أَمْلَكَ لإِرْبِهِ مِنْكُمْ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّمَا خَاطَبَ اللَّهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمَّتَهُ بِلُغَةِ الْعَرَبِ أَوْسَعِ اللُّغَاتِ كُلِّهَا، الَّتِي لا يُحِيطُ بِعِلْمِ جَمِيعِهَا أَحَدٌ غَيْرُ نَبِيٍّ، وَالْعَرَبُ فِي لُغَاتِهَا تُوقِعُ اسْمَ الْوَاحِدِ عَلَى شَيْئَيْنِ، وَعَلَى أَشْيَاءَ ذَوَاتِ عَدَدٍ، وَقَدْ يُسَمَّى الشَّيْءُ الْوَاحِدُ بِأَسْمَاءَ، وَقَدْ يَزْجُرُ اللَّهُ عَنِ الشَّيْءِ، وَيُبِيحُ شَيْئًا آخَرَ غَيْرَ الشَّيْءِ الْمَزْجُورِ عَنْهُ، وَوَقَعَ اسْمُ الْوَاحِدِ عَلَى الشَّيْئَيْنِ جَمِيعًا: عَلَى الْمُبَاحِ، وَعَلَى الْمَحْظُورِ، وَكَذَلِكَ قَدْ يُبِيحُ الشَّيْءَ الْمَزْجُورَ عَنْهُ، وَوَقَعَ اسْمُ الْوَاحِدِ عَلَيْهِمَا جَمِيعًا، فَيَكُونُ اسْمُ الْوَاحِدِ وَاقِعًا عَلَى الشَّيْئَيْنِ الْمُخْتَلِفَيْنِ، أَحَدُهُمَا مُبَاحٌ، وَالآخَرُ مَحْظُورٌ، وَاسْمُهَا وَاحِدٌ. فَلَمْ يَفْهَمْ هَذَا مَنْ سَفِهَ لِسَانَ الْعَرَبِ، وَحَمَلَ الْمَعْنَى فِي ذَلِكَ عَلَى شَيْءٍ وَاحِدٍ، يُوهِمُ أَنَّ الأَمْرَيْنِ مُتَضَادَّانِ، إِذْ أُبِيحَ فِعْلٌ مُسَمًّى بِاسْمٍ، وَحُظِرَ فِعْلٌ تَسَمَّى بِذَلِكَ الاسْمِ سَوَاءً. فَمَنْ كَانَ هَذَا مَبْلَغُهُ مِنَ الْعِلْمِ، لَمْ يَحِلَّ لَهُ تَعَاطِي الْفِقْهِ، وَلا الْفُتْيَا، وَوَجَبَ عَلَيْهِ التَّعَلُّمُ، أَوِ السَّكْتُ، إِلَى أَنْ يُدْرِكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا يَجُوزُ مَعَهُ الْفُتْيَا، وَتَعَاطِي الْعِلْمِ. وَمَنْ فَهِمَ هَذِهِ الصَّنَاعَةَ عَلِمَ أَنَّ مَا أُبِيحَ غَيْرُ مَا حُظِرَ، وَإِنْ كَانَ اسْمُ الْوَاحِدِ قَدْ يَقَعُ عَلَى الْمُبَاحِ وَعَلَى الْمَحْظُورِ جَمِيعًا، فَمِنْ هَذَا الْجِنْسِ الَّذِي ذَكَرْتُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ دَلَّ فِي كِتَابِهِ أَنَّ مُبَاشَرَةَ النِّسَاءِ فِي نَهَارِ الصَّوْمِ غَيْرُ جَائِزٍ كَقَوْلِهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: فَالآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ سورة البقرة آية 187 فَأَبَاحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُبَاشَرَةَ النِّسَاءِ وَالأَكْلَ وَالشُّرْبَ بِاللَّيْلِ، ثُمَّ أَمَرَنَا بِإِتْمَامِ الصِّيَامِ إِلَى اللَّيْلِ، عَلَى أَنَّ الْمُبَاشَرَةَ الْمُبَاحَةَ بِاللَّيْلِ الْمَقْرُونَةَ إِلَى الأَكْلِ وَالشُّرْبِ هِيَ الْجِمَاعُ الْمُفَطِّرُ لِلصَّائِمِ، وَأَبَاحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِفِعْلِ النَّبِيِّ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُبَاشَرَةَ الَّتِي هِيَ دُونَ الْجِمَاعِ فِي الصِّيَامِ، إِذْ كَانَ يُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ. وَالْمُبَاشَرَةُ الَّتِي ذَكَرَهَا اللَّهُ فِي كِتَابِهِ أَنَّهَا تُفَطِّرُ الصَّائِمَ هِيَ غَيْرُ الْمُبَاشَرَةِ الَّتِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَاشِرُهَا فِي صِيَامِهِ. وَالْمُبَاشَرَةُ اسْمٌ وَاحِدٌ وَاقِعٌ عَلَى فِعْلَيْنِ: إِحْدَاهُمَا: مُبَاحَةٌ فِي نَهَارِ الصَّوْمِ، وَالأُخْرَى: مَحْظُورَةٌ فِي نَهَارِ الصَّوْمِ، مُفَطِّرَةٌ لِلصَّائِمِ. وَمِنْ هَذَا الْجِنْسِ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ سورة الجمعة آية 9 فَأَمَرَ رَبُّنَا جَلَّ وَعَلا بِالسَّعْيِ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَالنَّبِيُّ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا أَتَيْتُمُ الصَّلاةَ فَلا تَأْتُوهَا وَأَنْتُمْ تَسْعَوْنَ، إِيتُوهَا تَمْشُونَ وَعَلَيْكُمُ السَّكِينَةُ". فَاسْمُ السَّعْيِ يَقَعُ عَلَى الْهَرْوَلَةِ، وَشِدَّةِ الْمَشْيِ، وَالْمُضِيِّ إِلَى الْمَوْضِعِ، فَالسَّعْيُ الَّذِي أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُسْعَى إِلَى الْجُمُعَةِ، هُوَ الْمُضِيُّ إِلَيْهَا، وَالسَّعْيُ الَّذِي زَجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ إِتْيَانَ الصَّلاةِ هُوَ الْهَرْوَلَةُ وَسُرْعَةُ الْمَشْيِ. فَاسْمُ السَّعْيِ وَاقِعٌ عَلَى فِعْلَيْنِ: أَحَدُهُمَا مَأْمُورٌ، وَالآخَرُ مَنْهِيٌّ عَنْهُ. وَسَأُبَيِّنُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى هَذَا الْجِنْسَ فِي كِتَابِ مَعَانِي الْقُرْآنِ، إِنْ وَفَّقَ اللَّهُ لِذَلِكَ
جناب اسود بیان کرتے ہیں کہ میں اور مسروق اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں مباشرت کی متعلق سوال کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو ہمیں شرم آ گئی، میں نے عرض کی کہ ہم ایک سوال پوچھنے کے لئے حاضر ہوئے تھے مگر ہم شرما گئے ہیں تو اُنہوں نے کہا کہ وہ سوال کیا ہے؟ جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو۔ ہم نے عرض کی کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں مباشرت کرلیتے تھے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ آپ کبھی کبھار ایسا کر لیتے تھے لیکن آپ اپنی خواہش اور نفس پر تم سے کہیں زیادہ قابو رکھنے والے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور اُن کی اُمّت کو عربی زبان میں خطاب کیا ہے جو تمام زبانوں سے زیادہ وسیع ہے۔ جس کے تمام علوم وفنون کا احاطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ اور عرب اپنی اپنی لغت میں ایک ہی اسم کا دو چیزوں پر اطلاق کرتے ہیں اور کئی چیزوں پر بھی کردیتے ہیں اور کبھی ایک ہی چیز کو کئی کئی نام دے دیتے ہیں۔ کبھی الله تعالی ایک چیز سے منع کر دیتا ہے اور ایک دوسری چیز کو مباح قرار دے دیتا ہے حالانکہ ان مباح اورممنوع دونوں چیزوں پر ایک ہی نام کا اطلاق کرتا ہے۔ اسی طرح کبھی ممنوع چیز کو مباح قرار دے دیتا ہے اور دونوں پر ایک ہی نام کا اطلاق کیا گیا ہوتا ہے۔ اس طرح ایک ہی نام دو مختلف چیزوں پر واقع ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک مباح اور دوسرا ممنوع ہوتا ہے جبکہ دونوں کا نام ایک ہی ہوتا ہے۔ عربی زبان سے نا واقف شخص یہ بات سمجھ نہیں سکتا اور وہ ایک ہی چیز پر دونوں معانی محمول کر دیتا ہے۔ وہ یہ وہم دیتا ہے کہ دونوں چیزیں متضاد ہیں کیونکہ ایک کام ایک نام سے جائز قرار دیا گیا ہے تو دوسرا فعل اسی نام سے ممنوع کیا گیا ہے۔ جس شخص کا کلی علم اتنا ہی ہو تو اُس کے لئے فقہی مسائل بیان کرنا اور فتوے جاری کرنا جائز نہیں ہے۔ اس پر واجب ہے کہ علم حاصل کرے یا خاموش بیٹھ جائے۔ یہاں تک کہ وہ اتنا علم حاصل کرلے جس کے ساتھ فتوے دینا اور علمی مسائل حل کرنا جائز ہو۔ اور جوشخص یہ فن سمجھ لے وہ جان لیتا ہے کہ جو چیز جائز قرار دی گئی ہے وہ منوع چیز کے علاوہ ہے۔ اگرچہ دونوں پر ایک ہی اسم کا اطلاق ہوا ہو۔ اسی قسم سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے جسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ روزے والے دن عورتوں سے مباشرت کرنا جائز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے «فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ» [ سورة البقرة: 187 ]”اس لئے اب تم ان سے ہمبستری کرسکتے ہو اور اللہ نے تمہارے لئے جو لکھ رکھا ہے وہ تلاش کرو اور کھاؤ اور پیو حتّیٰ کہ تمہارے لئے صبح کی سفید دھاری، کالی داری سے واضح ہو جائے پھرتم روزے کو رات تک پورا کرو۔“ لہٰذا اللہ تعالی نے رات کے وقت عورتوں سے مباشرت اور کھانا پینا جائز قرار دیا ہے۔ پھر ہمیں رات تک روزہ مکمّل کرنے کا حُکم دیا ہے اس شرط کے ساتھ کہ رات کو مباشرت کرنا اور کھانا پینا جائز تھا اب وہ مباشرت جو جماع ہے وہ روزے دار کا روزہ توڑ دیگی اور اللہ تعالی نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے روزے کی حالت میں جماع سے کم مباشرت (بوس و کنار اور پیار ومحبت) کو جائز قرار دیا ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں مباشرت کرلیتے تھے۔ وہ مباشرت جو اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ذکر کی ہے کہ وہ روزہ توڑ دیتی ہے وہ اس مباشرت سے مختلف ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ مباشرت ایک ہی اسم ہے جو دو فعلوں پر واقع ہوا ہے۔ ان میں سے ایک روزے کی حالت میں دن کے وقت جائز ہے جبکہ دوسرا روزے کی حالت میں منع ہے اور روزے کو توڑ دیتا ہے۔ اسی قسم سے اللہ تعالی کا یہ ارشا ہے «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ» [ سورة الجمعة: 9 ]”اے ایمان والو، جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دے دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت کرنا چھوڑ دو۔“ پس اللہ تعالی نے جمعہ کے لئے سعی (دوڑنے) کا حُکم دیا ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”جب تم نماز کے لئے آو تو تم دوڑتے ہوئے مت آؤ بلکہ آرام و سکون کے ساتھ چلتے ہوئے آؤ“ لہٰذا سعی ایک ایسا اسم ہے جو دوڑنے اور تیز چلنے پر واقع ہوتا ہے اور کسی جگہ کی طرف جانے پر بھی واقع ہوتا ہے۔ لہٰذا جس سعی کا الله تعالی نے حُکم دیا ہے اس سے مراد جمعہ کے لئے مسجد میں جانا ہے۔ اور جس سعی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے اس سے مراد دوڑ نا اور تیز رفتاری ہے۔ اس طرح سعی کا اسم دو فعلوں پر واقع ہوا ہے۔ ایک جائز ہے جس کا حُکم دیا گیا ہے اور دوسرا ممنوع ہے۔ میں عنقریب یہ قسم، کتاب معاني القرآن میں بیان کروں گا۔ اگر الله تعالیٰ نے اس کام کی توفیق عطا کی۔ ان شاء الله تعالیٰ
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں اپنی بیوی کو دیکھ کر خوش ہوا تو میں نے اُس کا بوسہ لے لیا، حالانکہ میں روزے دار تھا۔ تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، میں نے آج بہت بڑا خطرناک کام کرلیا ہے۔ میں نے روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتاؤ اگر تم روزے کی حالت میں پانی کے ساتھ کلّی کرلیتے تو کیا ہوتا؟“ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی، اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جناب ربیع کرتے ہیں) میرے خیال میں آپ نے فرمایا: ”پھر پریشانی کی بات کیا ہے؟“(پھر اس میں حرج کیا ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ عبد الملک بن سعید سے مراد ابن سوید ہے۔
امام سفیان رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن بن قاسم سے پوچھا، کیا تم نے اپنے والد گرامی کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بوسہ لے لیتے تھے؟ تو وہ کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا کہ ہاں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے یہ مکمّل باب کتاب الکبیر میں بیان کردیا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں ہوتے اور افطاری تک میرے چہرے کا بوسہ لینے میں کوئی پروانہ کرتے۔“ جناب یوسف کی روایت میں ہے کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم جتنی بار چاہتے میرے چہرے کا بوسہ لے لیتے۔“ اور جناب زعفرانی کی روایت میں ہے کہ“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے چہرے کا جہاں سے چاہتے بوسہ لے لیتے۔“
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ جناب عبداللہ بن شقیق کی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں (اپنی بیویوں کے) سروں کا بوسہ لے لیتے تھے۔
1368. روزے دار کے لئے اپنی بیوی کی زبان چوسنے کی رخصت ہے، ان علماء کے موقف کے برخلاف جو روزے دار کے لئے منہ کا بوسہ لینا مکروہ قرار دیتے ہیں۔ بشرطیکہ مصدع ابی یحییٰ کی روایت کو حجت بنانا درست ہو، کیونکہ مجھے اس کے متعلق جرح و تعدیل کا علم نہیں
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بوسہ لینے کے لئے میری طرف بڑھے تو میں نے عرض کی بیشک میں روزے سے ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا بھی روزہ ہے۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا بوسہ لے لیا۔ جناب بشیر بن معاذ اپنی قوم کے طلحہ نامی ایک شخص سے روایت کرتے ہیں۔