سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں پندرہ یا بیس صاع کھجوریں تھیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لے اور اپنی طرف سے (مساکین کو) کھلادو۔“
حدثنا يوسف بن موسى ، حدثنا مهران بن ابي عمر الرازي ، عن سفيان الثوري ، قال: حدثني إبراهيم بن عامر ، وحبيب بن ابي ثابت ، عن سعيد بن المسيب ، ومنصور ، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة، ان رجلا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم. فذكر الحديث. وقال: فاتي بمكتل فيه خمسة عشر صاعا , او عشرين صاعا. إلا انه غلط في الإسناد , فقال: عن ابي سلمة. وفي خبر حجاج ايضا , عن الزهري: فجيء بمكتل فيه خمسة عشر صاعا من تمر , إلا ان الحجاج لم يسمع من الزهري. سمعت محمد بن عمرة يحكي عن احمد بن ابي ظبية , عن هشيم، قال: قال الحجاج: صف لي الزهري لم يكن يراهحَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا مِهْرَانُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الرَّازِيُّ ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَامِرٍ ، وَحَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، وَمَنْصُورٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. وَقَالَ: فَأُتِيَ بِمِكْتَلٍ فِيهِ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا , أَوْ عِشْرِينَ صَاعًا. إِلا أَنَّهُ غَلَطَ فِي الإِسْنَادِ , فَقَالَ: عَنْ أَبِي سَلَمَةَ. وَفِي خَبَرِ حَجَّاجٍ أَيْضًا , عَنِ الزُّهْرِيِّ: فَجِيءَ بِمِكْتَلٍ فِيهِ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ , إِلا أَنَّ الْحَجَّاجَ لَمْ يَسْمَعْ مِنَ الزُّهْرِيِّ. سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرَةَ يَحْكِي عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي ظَبْيَةَ , عَنْ هُشَيْمٍ، قَالَ: قَالَ الْحَجَّاجُ: صِفْ لِيَ الزُّهْرِيَّ لَمْ يَكُنْ يَرَاهُ
سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ پھر بقیہ حدیث بیان کی۔ اور فرمایا کہ پس آپ کے پاس ایک بڑا ٹو کرا لایا گیا جس میں پندرہ یا بیس صاع کھجوریں تھیں۔ مگر اس کی سند میں غلطی ہوئی ہے۔ کہا کہ ”عن ابی سلمة“ اور حجاج کی روایت میں ہے کہ ”عن الزهري“۔ تو آپ کے پاس ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا جس میں پندرہ صاع کھجوریں تھیں ـ لیکن حجاج نے امام زہری سے سنا نہیں ہے ـ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن عمرہ کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ احمد بن ابی ظبیہ کی سند سے ہشیم سے بیان کرتے ہیں کہ حجاج نے کہا کہ مجھے امام زہری رحمه الله کا حلیہ بیان کرو۔ اُنہوں نے امام زہری کو دیکھا نہیں تھا۔
1345. ان لوگوں کے قول کے برخلاف دلیل کا بیان جو کہتے ہیں کہ رمضان المبارک کے روزے کے دوران جماع کرنے کے کفّارے میں ایک مسکین کو ساٹھ دنوں میں ساٹھ مساکین کا کھانا کھلانا جائز ہے۔ ہر روز ایک مسکین کو کھانا اسے دے دیا جائے۔ اس شخص نے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے اور ساٹھ مسکینوں کے کھانے میں فرق نہیں کیا۔ جو شخص لغتِ عرب کو سمجھتا ہو وہ جانتا ہے کہ ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا اسی وقت ممکن ہے جب ہر مسکین دوسرے سے مختلف ہو
1347. اس بات کی دلیل کا بیان کہ جب جماع کرنے والے پر دو ماہ کے مسلسل روزے واجب ہوں اور وہ ان کی ادائیگی میں کوتاہی برتے حتیٰ کہ اسے موت آجائے تو اُس کی طرف سے روزے کی قضا دی جائے گی جیسا کہ اس کا مالی قرض ادا کیا جاتا ہے۔ اس بات کی دلیل کے ساتھ کہ اللہ تعالی کا قرض بندوں کے قرض کی نسبت ادائیگی کا زیادہ مستحق ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اُس نے عرض کیا کہ میر ی بہن فوت ہوگئی ہے اور اس پر مسلسل دو ماہ کے روزے واجب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہاری بہن پر (مالی) قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں؟“ اُس نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اللہ کا حق ادا ئیگی کا زیادہ حق دار ہے۔“
1348. جماع کرنے والے کو اس دن کے بدلے ایک روزے کی قضا دینے کے حُکم کا بیان جس دن میں اس نے جماع کیا تھا۔ جبکہ اس کے پاس مذکورہ کفّارہ موجود نہ ہو۔ بشرطیکہ حدیث صحیح ہو۔ کیونکہ میرا دل اس روایت سے مطمئن نہیں ہے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور وہ رمضان المبارک میں اپنی بیوی سے ہمبستری کر چکا تھا ـ پھر مکمّل حدیث بیان کی اور آخر میں فرمایا کہ تو (اس کی قضا میں) ایک روزہ رکھو اور اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرو۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ سند وہم ہے۔
الخبر عن ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، هو الصحيح لا عن ابي سلمة. وقد روى ايضا الحجاج بن ارطاة، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه , عن جده مثل خبر الزهري. وقال في خبر عمرو بن شعيب. حدثنا محمد بن العلاء بن كريب , وهارون بن إسحاق ، قالا: حدثنا ابو خالد , قال هارون: قال حجاج : واخبرني عمرو بن شعيب , وقال محمد بن العلاء، عن الحجاج , عن عمرو بن شعيب. حدثنا الحسين بن مهدي، نا عبد الرزاق , اخبرنا ابن المبارك، قال: الحجاج بن ارطاة لم يسمع من الزهري شيئاالْخَبَرُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، هُوَ الصَّحِيحُ لا عَنْ أَبِي سَلَمَةَ. وَقَدْ رَوَى أَيْضًا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ مِثْلَ خَبَرِ الزُّهْرِيِّ. وَقَالَ فِي خَبَرِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ كُرَيْبٍ , وَهَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ , قَالَ هَارُونُ: قَالَ حَجَّاجٌ : وَأَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ , وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، عَنِ الْحَجَّاجِ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ. حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ، نا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنَ الزُّهْرِيِّ شَيْئًا
امام صاحب فرماتے ہیں کہ مذکورہ بالا حدیث کی سند میں ابن شہاب زہری رحمه الله حمید بن عبدالرحمٰن سے بیان کریں تو یہ صحیح ہوگا۔ اور ابوسلمہ سے بیان کریں تو یہ صحیح نہیں ہوگا۔ جناب حجاج بن ارطاہ نے بھی یہ روایت ”عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده“ کی سند سے روایت کی ہے۔ امام ابن مبارک کہتے ہیں کہ حجاج بن اطاہ نے امام زہری رحمه الله سے کچھ نہیں سنا۔
سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قے کی تو روزہ چھوڑ دیا ـ جناب معدان کہتے ہیں کہ پس میں دمشق کی مسجد میں سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے ملا تو میں نے اُنہیں سیدنا ابودردا ء رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بیان کی۔ تو اُنہوں نے فرمایا کہ اُنہوں نے سچ فرمایا ہے۔ میں نے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وضو کا پانی انڈیلا تھا۔