سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں بلال (رضی اللہ عنہ) کی اذان اور صبح کی عمودی سفیدی دھوکے میں نہ ڈالے (اور تم سحری کھانا چھوڑ بیٹھو) یہاں تک (صبح صادق کی) روشنی چوڑائی میں پھیل جائے۔“
1326. اس بات کی دلیل کا بیان کہ دوسری فجر جو ہم نے ذکر کی ہے وہ چوڑائی میں پھیلنے والی سفیدی ہے اور اس کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے - بشر طیکہ روایت صحیح ہو- کیونکہ میں عبداللہ بن نعمان کے بارے میں جرح وتعدیل نہیں جانتا- اور ملازم بن عمرو کے سوا اُن سے روایت کرنے والا کوئی شاگرد بھی مجھے معلوم نہیں ہے -
جناب طلق بن علی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(سحری) کھاتے اور پیتے رہو اور تم کو اوپر چڑھنے والی سفید روشنی دھوکے میں نہ ڈالے۔ اور تم کھاتے پیتے رہو حتّیٰ کہ تمہارے لئے سرخ دھاری واضح ہو جائے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا۔
1327. اس بات کی دلیل کا بیان کہ فجر سے پہلے کی اذان روزے دار کو اس کے کھانے، پینے اور جماع کرنے سے نہیں روکتی۔ عوام کے خیال کے بر خلاف جو اسے روکنے والی خیال کرتے ہیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ بلال (رضی اللہ عنہ) رات کے وقت اذان دیتے ہیں تو تم کھاتے اور پیتے رہو حتّیٰ کہ ابن ام مکتوم اذان دے دیں۔“
حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا حفص يعني ابن غياث . ح وحدثنا بندار ، نا يحيى ، جميعا عن عبيد الله ، قال: سمعت القاسم ، عن عائشة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن بلالا يؤذن بليل , فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن ام مكتوم" . قال: ولم يكن بينهما إلا قدر ما ينزل هذا , ويرقى هذا. وقال الدورقي: عن قاسم , وقال ايضا:" إذا اذن بلال فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن ام مكتوم". قال: ولم يكن بينهما إلا ان ينزل هذا , ويصعد هذا. قال ابو بكر: هذا الخبر من الجنس الذي اقول من الاخبار المعللة التي يجوز القياس عليها , ويتعين العلم ان النبي صلى الله عليه وسلم لما امر بالاكل والشرب بعد نداء بلال اعلمهم ان الجماع وكل ما جاز للمفطر فجائز فعله في ذلك الوقت , لا انه اباح الاكل والشرب فقط دون غيرهماحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ يَعْنِي ابْنَ غِيَاثٍ . ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نا يَحْيَى ، جَمِيعًا عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ بِلالا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ , فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ" . قَالَ: وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا إِلا قَدْرُ مَا يَنْزِلُ هَذَا , وَيَرْقَى هَذَا. وَقَالَ الدَّوْرَقِيُّ: عَنْ قَاسِمٍ , وَقَالَ أَيْضًا:" إِذَا أَذَّنَ بِلالٌ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ". قَالَ: وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا إِلا أَنْ يَنْزِلَ هَذَا , وَيَصْعَدَ هَذَا. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا الْخَبَرُ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَقُولُ مِنَ الأَخْبَارِ الْمُعَلِّلَةِ الَّتِي يَجُوزُ الْقِيَاسُ عَلَيْهَا , وَيَتَعَيَّنُ الْعِلْمُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَمَرَ بِالأَكْلِ وَالشُّرْبِ بَعْدَ نِدَاءِ بِلالٍ أَعْلَمَهُمْ أَنَّ الْجِمَاعَ وَكُلَّ مَا جَازَ لِلْمُفْطِرِ فَجَائِزٌ فِعْلُهُ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ , لا أَنَّهُ أَبَاحَ الأَكْلَ وَالشُّرْبَ فَقَطْ دُونَ غَيْرِهِمَا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک بلال (رضی اللہ عنہ) رات کے وقت اذان دیتے ہیں تو تم (سحری) کھاؤ اور پیو حتّیٰ کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دے دیں۔“ اور فرمایا کہ ان دونوں کی اذانوں کے درمیان وقفہ اتنا ہی تھا کہ یہ اذان دینے کے لئے اُترتے اور وہ چڑھ جاتے۔ اور جناب الدورقی کی قاسم سے روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ”جب بلال اذان دے تو تم کھاؤ اور پیو حتّیٰ کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دے دیں۔“ اور ان دونوں کی اذان میں بس اتنا سا وقفہ ہوتا تھا کہ یہ اذان دے کر اُترتے اور وہ چڑھ جاتے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت اسی قسم سے ہے جن کے بارے میں میں کہتا ہوں کہ وہ ایسی علتوں پر مشتمل ہیں جن پر قیاس کرنا جائز ہے ـ اور یہ بات یقینی ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کے بعد کھانے پینے کی اجازت دی ہے تو اُنہیں یہ بتا دیا کہ اس وقت میں جماع کرنا اور غیر روزے دار کے لئے مباح ہر کام اس وقت میں جائز ہے ـ یہ بات نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف کھانے پینے کو مباح قرار دیا ہے اور باقی چیزوں کو ممنوع قرار دیا ہے ـ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے فجر سے پہلے روزے کا پختہ ارادہ و نیت نہ کی تو اُس کا روزہ نہیں ہو گا۔“
1330. ہر روزے کے لئے نیت اس دن کے طلوع فجر سے پہلے پہلے کرنا واجب ہے۔ اُن لوگوں کے قول کے برخلاف جو کہتے ہیں کہ پورے مہینے کے لئے ایک ہی وقت میں ایک ہی بار نیت کرلینا جائز ہے
امام ابوبکر رحمه ﷲ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث کہ بیشک اعمال کی قبولیت کا دارومدار نیت پر ہے اور بلاشبہ ہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی اُس نے نیت کی کتاب الوضوء میں لکھوا چکا ہوں۔
1331. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان: ”جس نے رات کے وقت روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ہے۔“ سے آپ کی مراد فرضی روزہ ہے نفلی روزہ مراد نہیں۔
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس تشریف لاتے اور پو چھتے: ”کیا تمہارے پاس کھانا موجود ہے وگرنہ میں روزے سے ہوں“ میں نفلی روزوں کے باب میں بیان کرچکا ہوں۔