حدثنا محمد بن المثنى ، ومحمد بن بشار ، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سماك بن حرب ، عن علقمة بن وائل الحضرمي ، عن ابيه ، قال: " سال سلمة بن يزيد الجعفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا نبي الله، ارايت إن قامت علينا امراء يسالونا حقهم ويمنعونا حقنا فما تامرنا، فاعرض عنه؟، ثم ساله، فاعرض عنه؟، ثم ساله في الثانية او في الثالثة، فجذبه الاشعث بن قيس، وقال: اسمعوا واطيعوا فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم "،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " سَأَلَ سَلَمَةُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ قَامَتْ عَلَيْنَا أُمَرَاءُ يَسْأَلُونَا حَقَّهُمْ وَيَمْنَعُونَا حَقَّنَا فَمَا تَأْمُرُنَا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ؟، ثُمَّ سَأَلَهُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ؟، ثُمَّ سَأَلَهُ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الثَّالِثَةِ، فَجَذَبَهُ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ، وَقَالَ: اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِّلُوا وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ "،
محمد بن جعفر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے سماک بن حرب سے حدیث بیان کی، انہوں نے علقمہ بن وائل حضرمی سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ سلمہ بن یزید جعفی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور کہا: اللہ کے نبی! آپ کیسے دیکھتے ہیں کہ اگر ہم پر ایسے لوگ حکمران بنیں جو ہم سے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں اور ہمارے حق ہمیں نہ دیں تو اس صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے اس سے اعراض فرمایا، اس نے دوبارہ سوال کیا، آپ نے پھر اعراض فرمایا، پھر جب اس نے دوسری یا تیسری بار سوال کیا تو اس کو اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ نے کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سنو اور اطاعت کرو کیونکہ جو ذمہ داری ان کو دی گئی اس کا بار ان پر ہے اور جو ذمہ داری تمہیں دی گئی ہے، اس کا بوجھ تم پر ہے
علقمہ بن وائل حضرمی اپنے باپ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلمہ بن یزید جعفی رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، کہ اے نبی اللہ! بتائیے، اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوں جو ہم سے اپنے حقوق کی ادائیگی کا مطالبہ کریں اور ہمیں ہمارے حقوق سے محروم رکھیں تو آپ اس صورت میں ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ تو آپ نے اس سے منہ پھیر لیا، اس نے پھر سوال کیا، تو آپ نے اس سے بے رخی اختیار کی، پھر اس نے آپ سے دوسری یا تیسری بار سوال کیا تو اسے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ نے کھینچ لیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو اور مانو، کیونکہ ان کا بار ان پر ہے اور تمہارا بار تم پر ہے۔“
شبابہ نے کہا: ہمیں شعبہ نے سماک سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی اور کہا: اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ نے اس (پوچھنے والے) کو کھینچا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سنو اور اطاعت کرو، جو ذمہ داری ان پر ڈالی گئی اس کا بوجھ ان پر ہے اور جو تم پر ڈالی گئی اس کا بوجھ تم پر ہے
امام صاحب ایک اور استاد سے یہی حدیث بیان کرتے ہیں، اس میں ہے کہ اسے اشعث بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ نے کھینچ لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو اور مانو، کیونکہ ان کا بار ان پر ہے اور تمہارا بار تم پر ہے۔“
13. باب: فتنہ اور فساد کے وقت بلکہ ہر وقت مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنا۔
Chapter: The obligation of staying with the Jama'ah (main body) of the muslims when Fitn (tribulations) appear, and in all circumstances. The prohibition of refusing to obey and on splitting away from the Jama'ah
حدثني محمد بن المثنى ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ، حدثني بسر بن عبيد الله الحضرمي ، انه سمع ابا إدريس الخولاني ، يقول: سمعت حذيفة بن اليمان ، يقول: " كان الناس يسالون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير، وكنت اساله عن الشر مخافة ان يدركني، فقلت: يا رسول الله، إنا كنا في جاهلية، وشر فجاءنا الله بهذا الخير فهل بعد هذا الخير شر؟، قال: نعم، فقلت: هل بعد ذلك الشر من خير؟، قال: نعم وفيه دخن، قلت: وما دخنه؟، قال: قوم يستنون بغير سنتي، ويهدون بغير هديي تعرف منهم وتنكر، فقلت: هل بعد ذلك الخير من شر؟، قال: نعم دعاة على ابواب جهنم من اجابهم إليها قذفوه فيها، فقلت: يا رسول الله، صفهم لنا، قال: نعم، قوم من جلدتنا ويتكلمون بالسنتنا، قلت: يا رسول الله، فما ترى إن ادركني ذلك؟، قال: تلزم جماعة المسلمين وإمامهم، فقلت: فإن لم تكن لهم جماعة ولا إمام؟، قال: فاعتزل تلك الفرق كلها، ولو ان تعض على اصل شجرة حتى يدركك الموت وانت على ذلك ".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ ، يَقُولُ: " كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ، وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَقُلْتُ: هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟، قَالَ: نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ، قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟، قَالَ: قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِي، وَيَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ، فَقُلْتُ: هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟، قَالَ: نَعَمْ دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا، قَالَ: نَعَمْ، قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا تَرَى إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟، قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، فَقُلْتُ: فَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟، قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ عَلَى أَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ ".
4784. ابو ادریس خولانی نے کہا: میں نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں اس خوف سے کہیں میں اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شر کے متعلق پوچھا کرتا تھا، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم جاہلیت اور شر میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر (اسلام) عطا کی، تو کیا اس خیر کے بعد پھر سے شر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، لیکن اس (خیر) میں کچھ دھندلاہٹ ہو گی۔“ میں نے عرض کی: اس کی دھندلاہٹ کیا ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت کے بجائے دوسرا طرزِ عمل اختیار کریں گے اور میرے نمونہ عمل کے بجائے دوسرے طریقوں پر چلیں گے، تم ان میں اچھائی بھی دیکھو گے اور برائی بھی دیکھو گے۔“ میں نے عرض کی: کیا اس خیر کے بعد، پھر کوئی شر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہو کر بلانے والے، جو ان کی بات مان لے گا وہ اس کو جہنم میں پھینک دیں گے۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے سامنے ان کی (بری) صفات بیان کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، وہ لوگ بظاہر ہماری طرح کے ہوں گے اور ہماری ہی طرح گفتگو کریں گے۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر وہ زمانہ میری زندگی میں آ جائے تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مسلمانوں کی جماعت اور مسلمانوں کے امام کے ساتھ وابستہ رہنا۔“ میں نے عرض کی: اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت ہو نہ امام؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان تمام فرقوں (بٹے ہوئے گروہوں) سے الگ رہنا، چاہے تمہیں درخت کی جڑیں چبانی پڑیں یہاں تک کہ تمہیں موت آئے تو تم اسی حال میں ہو۔“
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں آپ سے شر کے بارے میں اس خوف سے سوال کرتا تھا کہ کہیں میں اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں، تو میں نے آپ سے پوچھا، یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ! ہم جاہلیت اور شر میں تھے تو اللہ ہمارے پاس (اسلام کی صورت میں) یہ خیر لے آیا، تو کیا اس خیر کے بعد شر (بے دینی) ہو گی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ تو میں نے پوچھا، کیا اس شر (بے دینی) کے بعد خیر ہو گی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں، اس میں کدورت ہو گی“ پھر میں نے پوچھا: اس میں کدورت کیا ہو گی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت (طریقہ) کے سوا راہ اختیار کریں گے اور میری سیرت کے سوا طرز عمل اپنائیں گے، ان میں معروف و منکر دونوں پاؤ گے۔“ میں نے پوچھا، کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہو گا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔ جہنم کے دروازے پر بلانے والے ہوں گے جو ان کی اس دعوت کو قبول کر لیں گے تو وہ انہیں اس جہنم میں پھینک دیں گے۔“ تو میں نے کہا، یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں ان کی صفت بتائیے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری بولی بولیں گے۔“ میں نے کہا، یا رسول اللہ! اگر یہ دور مجھے پا لے تو آپ کے خیال میں میں کیا کروں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو مسلمانوں کی جمعیت اور ان کے امام کے ساتھ وابستہ رہنا۔“ میں نے عرض کیا، اگر ان کی جمعیت اور امام نہ ہو؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان تمام فرقوں سے الگ رہو، اگرچہ تمہیں کسی درخت کے تنے کو چبانا پڑے، حتیٰ کہ تمہیں موت آئے اور تم اسی حالت پر ہو۔“
4785. ابوسلام سے روایت ہے، کہا: حضرت حذیفہ بن یمان نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم شر میں مبتلا تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں خیر عطا فرمائی، ہم اس خیر کی حالت میں ہیں، کیا اس خیر کے پیچھے شر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے عرض کی: کیا اس شر کے پیچھے خیر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے پیچھے پھر شر ہو گا؟ فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے پوچھا: وہ کس طرح ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد ایسے امام (حکمران اور رہنما) ہوں گے جو زندگی گزارنے کے میرے طریقے پر نہیں چلیں گے اور میری سنت کو نہیں اپنائیں گے اور جلد ہی ان میں ایسے لوگ کھڑے ہوں گے جن کی وضع قطع انسانی ہو گی، دل شیطانوں کے دل ہوں گے۔“(حضرت حذیفہ ؓ نے) کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر میں وہ زمانہ پاؤں (تو کیا کروں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امیر کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا، چاہے تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں اور تمہارا مال چھین لیا جائے پھر بھی سننا اور اطاعت کرنا۔“
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے کہا، یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ! ہم شر میں مبتلا تھے، تو اللہ خیر لے آیا اور ہم اس سے وابستہ ہیں، تو کیا اس خیر کے بعد شر ہو گا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے پوچھا، کیا اس شر کے بعد بھی خیر کا دور ہو گا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے دریافت کیا، کیا اس خیر کے بعد شر ہو گا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے کہا، کیا کیفیت ہو گی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد ایسے امام ہوں گے، جو میری ہدایت سے رہنمائی حاصل نہیں کریں گے، اور نہ میرا طریقہ اپنائیں گے اور ان میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جن کے دل شیطانوں کے دل ہوں گے اور بدن انسانوں کے ہوں گے۔“ میں نے پوچھا، اگر میں ان کو پا لوں، تو اے اللہ کے رسول! میں کیا کروں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سننا اور امیر کی اطاعت کرنا، اگرچہ تیری پشت پر مار پڑے اور تیرا مال چھین لیا جائے، سن اور مان۔“
4786. جریر بن حازم نے کہا: ہمیں غیلان بن جریر نے ابوقیس بن ریاح سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (امامِ وقت کی) اطاعت سے نکل گیا اور جماعت چھوڑ دی اور مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جو شخص اندھے تعصب کے جھنڈے کے نیچے لڑا، اپنی عصبیت (قوم، قبیلے) کی خاطر غصے میں آیا یا اس نے کسی عصبیت کی طرف دعوت دی یا کسی عصبیت کی خاطر مارا گیا تو (یہ) جاہلیت کی موت ہو گی اور جس نے میری امت کے اچھوں اور بروں (دونوں) کو مارتے ہوئے ان کے خلاف خروج (بغاوت کا رستہ اختیار) کیا، کسی مومن کا لحاظ کیا نہ کسی معاہد کے عہد کا پاس کیا تو نہ اس کا میرے ساتھ کوئی رشتہ ہے، نہ میرا اس سے کوئی رشتہ ہے۔“
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (حاکم) کی اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے الگ ہو گیا اور اسی حالت پر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جو اندھیرے میں کسی جھنڈے تلے لڑا، محض عصبیت کی بنا پر غضبناک ہوتا ہے، یا عصبیت کی دعوت دیتا ہے یا عصبیت کی بنا پر مدد کرتا ہے اور قتل کر دیا جاتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے اور جو میری امت کے خلاف نکلتا ہے، نیک اور بد ہر ایک کو مارتا ہے اور مومن سے بھی احتراز نہیں کرتا اور نہ کسی سے کیا ہوا عہد پورا کرتا ہے تو اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور میں اس سے بری ہوں۔“
4787. ایوب نے غیلان بن جریر سے، انہوں نے زیاد بن ریاح قیسی سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس طرح جریر کی حدیث ہے، البتہ انہوں نے لا يتحاشى من مومنها کہا۔ (معنی ”کنارے پر نہیں رہتا، لحاظ نہیں کرتا“ ہی کے ہیں۔)
امام صاحب ایک اور استاد کی سند سے یہی روایت بیان کرتے ہیں اس میں لا يتحاش
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا مهدي بن ميمون ، عن غيلان بن جرير ، عن زياد بن رياح ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من خرج من الطاعة وفارق الجماعة ثم مات مات ميتة جاهلية، ومن قتل تحت راية عمية يغضب للعصبة ويقاتل للعصبة فليس من امتي، ومن خرج من امتي على امتي يضرب برها وفاجرها لا يتحاش من مؤمنها ولا يفي بذي عهدها فليس مني "،وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ رِيَاحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ ثُمَّ مَاتَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً، وَمَنْ قُتِلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ يَغْضَبُ لِلْعَصَبَةِ وَيُقَاتِلُ لِلْعَصَبَةِ فَلَيْسَ مِنْ أُمَّتِي، وَمَنْ خَرَجَ مِنْ أُمَّتِي عَلَى أُمَّتِي يَضْرِبُ بَرَّهَا وَفَاجِرَهَا لَا يَتَحَاشَ مِنْ مُؤْمِنِهَا وَلَا يَفِي بِذِي عَهْدِهَا فَلَيْسَ مِنِّي "،
4788. مہدی بن میمون نے ہمیں غیلان بن جریر سے حدیث بیان کی، انہوں نے زیاد بن رباح سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (مسلمان کے امیر کی) اطاعت سے نکلا اور جماعت سے الگ ہو گیا، پھر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اور جو شخص اندھے تعصب کے جھنڈے تلے مارا گیا، عصبیت کے لیے غضب ناک ہوتا رہا اور عصبیت کے لیے لڑتا رہا، وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔ اور میری امت میں سے جس شخص نے میری امت کے خلاف خروج کیا، نیک اور بد ہر شخص کو مارتا رہا، نہ مومن کا لحاظ کیا، جس کے ساتھ اس (اطاعت کے) عہد جیسا عہد کیا اس کے ساتھ وفا نہ کی تو وہ مجھ سے (میرے ساتھ تعلق رکھنے والوں میں سے) نہیں۔“
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو امام کی اطاعت نہیں کرتا، (اور یہاں تک) جماعت سے جدا ہو جاتا ہے، پھر مر جاتا ہے، تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے اور جو اندھے جھنڈے تلے قتل کر دیا جاتا ہے، عصبیت کی خاطر غصہ میں آتا ہے اور عصبیت کی بنا پر جنگ کرتا ہے تو اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور میری امت کا جو شخص میری امت کے خلاف کھڑا ہوتا ہے اور اس کے نیک و بد ہر ایک کو قتل کرتا ہے، امت کے مومن فرد سے بھی پرہیز نہیں کرتا اور جس سے عہد کیا ہے اس کو بھی پورا نہیں کرتا تو وہ مجھ سے نہیں۔“
4789. محمد بن مثنیٰ اور ابن بشار نے ہمیں حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں محمد بن جعفر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے غیلان بن جریر سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی۔ ابن مثنیٰ نے اپنی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اور ابن بشار نے اپنی روایت میں دوسروں کی روایت کی طرح کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
امام صاحب اپنے دو اساتذہ ابن مثنیٰ اور ابن بشار سے روایت کرتے ہیں، ابن المثنیٰ کی روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں ہے، لیکن ابن بشار نے دوسروں کی طرح کہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
4790. حماد بن زید نے ہمیں جعد ابوعثمان سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابو رجاء سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے یہ حدیث روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے امیر میں ایسی بات دیکھے جو اسے ناپسند ہے تو صبر کرے، کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی ہٹا اور (اسی حالت میں) مر گیا تو یہ جاہلیت کی موت ہے۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے امیر میں کوئی ناگوار چیز دیکھتا ہے وہ صبر سے کام لے (بغاوت نہ کرے) کیونکہ جو شخص ایک بالشت بھر جماعت سے الگ ہوتا ہے اور مر جاتا ہے تو اس کی موت جاہلیت کے انداز کی ہے۔“