5. باب: حاکم عادل کی فضیلت اور حاکم ظالم کی برائی۔
Chapter: The virtue of a just ruler and the punishment of a tyrant; Encouragement to treat those under one's authority with kindness and the prohibition against causing them hardship
ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب اور ابن نمیر تینوں نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار سے حدیث بیان کی، انہوں نے عمرو بن اوس سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، ابن نمیر اور ابوبکر نے کہا: انہوں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، زہیر کی حدیث میں ہے (عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے) کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عدل کرنے والے اللہ کے ہاں رحمٰن عزوجل کی دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، یہ وہی لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں، اپنے اہل و عیال اور جن کے یہ ذمہ دار ہیں ان کے معاملے میں عدل کرتے ہیں
حضرت عبدالرحمٰن بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عدل و انصاف کرنے والے حکمران اللہ کے ہاں، رحمٰن عزوجل کے دائیں طرف، نور کے منبروں پر ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں میں اہل و عیال اور اپنی رعایا کے ساتھ عدل کرتے ہیں۔“
حدثني هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، حدثني حرملة ، عن عبد الرحمن بن شماسة ، قال: اتيت عائشة اسالها عن شيء، فقالت: " ممن انت؟، فقلت: رجل من اهل مصر، فقالت: كيف كان صاحبكم لكم في غزاتكم هذه؟، فقال: ما نقمنا منه شيئا إن كان ليموت للرجل منا البعير، فيعطيه البعير، والعبد فيعطيه العبد، ويحتاج إلى النفقة فيعطيه النفقة، فقالت: اما إنه لا يمنعني الذي فعل في محمد بن ابي بكر اخي ان اخبرك ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: في بيتي هذا اللهم من ولي من امر امتي شيئا، فشق عليهم فاشقق عليه، ومن ولي من امر امتي شيئا فرفق بهم فارفق به "،حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ ، قَالَ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ أَسْأَلُهَا عَنْ شَيْءٍ، فَقَالَتْ: " مِمَّنْ أَنْتَ؟، فَقُلْتُ: رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ، فَقَالَتْ: كَيْفَ كَانَ صَاحِبُكُمْ لَكُمْ فِي غَزَاتِكُمْ هَذِهِ؟، فَقَالَ: مَا نَقَمْنَا مِنْهُ شَيْئًا إِنْ كَانَ لَيَمُوتُ لِلرَّجُلِ مِنَّا الْبَعِيرُ، فَيُعْطِيهِ الْبَعِيرَ، وَالْعَبْدُ فَيُعْطِيهِ الْعَبْدَ، وَيَحْتَاجُ إِلَى النَّفَقَةِ فَيُعْطِيهِ النَّفَقَةَ، فَقَالَتْ: أَمَا إِنَّهُ لَا يَمْنَعُنِي الَّذِي فَعَلَ فِي مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَخِي أَنْ أُخْبِرَكَ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: فِي بَيْتِي هَذَا اللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا، فَشَقَّ عَلَيْهِمْ فَاشْقُقْ عَلَيْهِ، وَمَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ فَارْفُقْ بِهِ "،
ابن وہب نے کہا: مجھے حرملہ نے عبدالرحمان بن شماسہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس کسی مسئلے کے بارے میں پوچھنے کے لیے گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: تم کن لوگوں میں سے ہو؟ میں نے عرض کی: میں اہلِ مصر میں سے ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: تمہارا حاکم حالیہ جنگ کے دوران میں تمہارے ساتھ کیسا رہا؟ میں نے کہا: ہمیں اس کی کوئی بات بری نہیں لگی، اگر ہم میں سے کشی شخص کا اونٹ مر جاتا تو وہ اس کو اونٹ دے دیتا، اور اگر غلام مر جاتا تو وہ اس کو غلام دے دیتا اور اگر کسی کو خرچ کی ضرورت ہوتی تو وہ اس کو خرچ دیتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: "میرے بھائی محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے معاملے میں اس نے جو کچھ کیا وہ مجھے اس سے نہیں روک سکتا کہ میں تمہیں وہ بات سناؤں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس گھر میں کہتے ہوئے سنی، (فرمایا:) "اے اللہ! جو شخص بھی میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان پر سختی کرے، تو اس پر سختی فرما، اور جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا اور ان کے ساتھ نرمی کی، تو اس کے ساتھ نرمی فرما
عبدالرحمٰن بن شمامہ بیان کرتے ہیں، میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں کوئی مسئلہ پوچھنے کی خاطر حاضر ہوا، تو انہوں نے پوچھا، تم کہاں سے ہو، (کن لوگوں سے ہو)؟ میں نے عرض کیا، میں اہل مصر سے ہوں، انہوں نے پوچھا، تمہارا امیر، تمہارے اس غزوہ میں تمہارے حق میں کیسا تھا؟ تو اس نے کہا، ہم نے اس میں کوئی ناپسندیدہ، ناگوار بات نہیں دیکھی، صورت حال یہ تھی، جب ہم میں سے کسی کا اونٹ مر جاتا تھا، تو وہ اونٹ دے دیتا تھا، اگر غلام مرتا تھا، تو غلام دیتا تھا اور جب وہ خرچ کا محتاج ہوتا تھا تو اسے خرچ دیتا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایاِ ہاں، اس نے میرے بھائی محمد بن ابوبکر کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ مجھے اس حدیث کے بیان کرنے سے نہیں روکتا، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اس گھر میں سنی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! جو شخص میری امت کے کسی کام کا والی بنا اور ان سے نرمی برتی، تو اس سے نرمی کا سلوک فرمانا۔“
جریر بن حازم نے حرملہ مصری سے، انہوں نے عبدالرحمان بن ابی شماسہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی کے مانند روایت کی۔ (4724) لیث نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "سن رکھو! تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا، سو جو امیر لوگوں پر مقرر ہے وہ راعی (لوگوں کی بہبود کا ذمہ دار) ہے اس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا اور مرد اپنے اہل خانہ پر راعی (رعایت پر مامور) ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہو گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی راعی ہے، اس سے ان کے متعلق سوال ہو گا اور غلام اپنے مالک کے مال میں راعی ہے، اس سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا، سن رکھو! تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
عبیداللہ بن عمر، ایوب، ضحاک بن عثمان اور اسامہ (بن زید لیثی) سب نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح لیث نے نافع سے بیان کی
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبردار! تم سے ہر انسان نگران اور ذمہ دار ہے اور تم میں سے ہر انسان سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا، تو وہ حاکم جو سب انسانوں پر مقرر ہے، وہ نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا اور انسان اپنے اہل بیت کا نگران ہے اور اسے ان کے بارے میں سوال ہو گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہو گا اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا، خبردار، تم میں سے ہر انسان نگران ہے اور تم میں سے ہر انسان سے، اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔“
عبیداللہ بن عمر، ایوب، ضحاک بن عثمان اور اسامہ (بن زید لیثی) سب نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح لیث نے نافع سے بیان کی
امام صاحب مذکورہ بالا حدیث اپنے نو (9) اساتذہ کی آٹھ سندوں سے بیان کرتے ہیں۔
قال ابو إسحاق وحدثنا الحسن بن بشر، حدثنا عبد الله بن نمير، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر بهذا مثل حديث الليث، عن نافع،قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ بِهَذَا مِثْلَ حَدِيثِ اللَّيْثِ، عَنْ نَافِعٍ،
وحدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا ابو الاشهب ، عن الحسن ، قال: عاد عبيد الله بن زياد معقل بن يسار المزني في مرضه الذي مات فيه، فقال: معقل إني محدثك حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، لو علمت ان لي حياة ما حدثتك، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته، إلا حرم الله عليه الجنة "،وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ ، عَنْ الْحَسَنِ ، قَالَ: عَادَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ الْمُزَنِيَّ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَقَالَ: مَعْقِلٌ إِنِّي مُحَدِّثُكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ لِي حَيَاةً مَا حَدَّثْتُكَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللَّهُ رَعِيَّةً يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ، إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ "،
ابو اشہب نے حضرت حسب بصری سے روایت کی کہ عبیداللہ بن زیاد حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کے پاس اس مرض میں ان کی عیادت کرنے کے لیے گئے جس میں ان کی وفات ہوئی۔ حضرت معقل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تم کو ایک ایسی حدیث سناتا ہوں جس کو میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، اگر مجھے (پکا) علم ہوتا کہ میں ابھی اور زندہ رہوں گا تو میں تمہیں یہ حدیث نہ سناتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "کوئی شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے کسی بھی رعیت کا ذمہ دار بنایا وہ جس دن مرے اس حال میں مرے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ خیانت کرنے والا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا
حضرت حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ حضرت معقل بن یسار مزنی رضی اللہ تعالی عنہ کے مرض الموت میں، عبیداللہ بن زیاد ان کی بیمار پرسی کے لیے گیا، تو وہ فرمانے لگے، میں تمہیں ایک حدیث سنانے لگا ہوں، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں زندہ رہوں گا، تو میں تمہیں نہ سناتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس بندے کو بھی اللہ تعالیٰ کسی رعایا کا نگران اور محافظ بناتا ہے اور وہ جس دن مرتا ہے، اس حال میں مرتا ہے کہ وہ اپنے رعایا کے ساتھ دھوکے باز اور خائن ہوتا ہے، تو اللہ اس کے لیے جنت حرام ٹھہراتا ہے۔“
یونس نے حضرت حسن بصری سے روایت کی، کہا: ابن زیاد حضرت معقل رضی اللہ عنہ کے پاس گیا وہ اس وقت (بیمار تھے اور) درد میں مبتلا تھے، جیسے ابو اشہب کی حدیث ہے اور انہوں نے اضافہ کیا: اس (ابن زیاد) نے کہا: آپ نے آج سے پہلے مجھے یہ حدیث کیوں نہیں بیان کی؟ حضرت معقل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے تمہیں کبھی حدیث نہیں سنائی، (تم نے حدیث کا سماع ہی نہیں کیا) یا فرمایا: میں تمہیں حدیث بیان نہیں کیا کرتا تھا (حدیث میں تمہارا استاد نہ تھا
امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ کی بیماری میں ابن زیاد ان کے پاس گیا، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے، اور اس میں یہ اضافہ ہے، ابن زیاد نے کہا، آپ نے آج سے پہلے یہ حدیث مجھے کیوں نہیں سنائی؟ تو انہوں نے جواب دیا، میں نے بیان نہیں کی، یا میں تمہیں سنانا نہیں چاہتا تھا۔