حماد نے ایوب سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قرآن کے ساتھ سفر نہ کرو، کیونکہ مجھے اس بات پر اطمینان نہیں کہ وہ دشمن کے ہاتھ لگ جائے گا۔" ایوب نے کہا: قرآن مجید دشمن کے ہاتھ لگ گیا تو وہ قرآن مجید کے ذریعے سے (اسے آڑ بنا کر) تمہارے ساتھ مقابلہ کرے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم قرآن مجید کے ساتھ سفر نہ کرو، کیونکہ میں اس سے بے خوف نہیں ہوں کہ وہ دشمن کے ہاتھ لگ جائے۔“ ایوب کہتے ہیں وہ دشمن کے ہاتھ لگ گیا اور انہوں نے اس کے ذریعہ تمہارے ساتھ بحث و مباحثہ شروع کر دیا۔
اسماعیل بن علیہ، سفیان اور ثقفی سب نے ایوب سے حدیث بیان کی، ایوب اور ضحاک بن عثمان نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ ابن علیہ اور ثقفی کی حدیث میں ہے: "مجھے خوف ہے" اور سفیان اور ضحاک بن عثمان کی حدیث میں ہے: "اس خوف سے کہ دشمن کے ہاتھ لگ جائے۔"
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی سندوں سے مذکورہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں، ابن علیہ اور ثقفی کی روایت میں ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیونکہ میں ڈرتا ہوں۔“ سفیان اور ضحاک کی روایت میں ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مبادا وہ دشمن کے ہاتھ لگ جائے۔“
حدثنا يحيي بن يحيي التميمي ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " سابق بالخيل التي قد اضمرت من الحفياء، وكان امدها ثنية الوداع، وسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق، وكان ابن عمر فيمن سابق بها.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " سَابَقَ بِالْخَيْلِ الَّتِي قَدْ أُضْمِرَتْ مِنَ الْحَفْيَاءِ، وَكَانَ أَمَدُهَا ثَنِيَّةَ الْوَدَاعِ، وَسَابَقَ بَيْنَ الْخَيْلِ الَّتِي لَمْ تُضْمَرْ مِنَ الثَّنِيَّةِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ فِيمَنْ سَابَقَ بِهَا.
امام مالک نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے گھوڑوں کی حفیاء کے مقام سے مسابقت (دوڑ) کروائی جنہیں (عربی طریقے سے) فالتو چربی زائل کر کے سبک اندام بنایا گیا تھا۔ ان کی دوڑ ثنیۃ الوداع تک تھی اور جن کو سبک اندام نہ بنایا گیا تھا ان کی دوڑ ثنیہ سے مسجد بنی زُریق تک کرائی۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ ان میں شامل تھے جنہوں نے گھوڑے دوڑائے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تضمیر شدہ گھوڑوں کا حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک دوڑ کا مقابلہ کروایا اور غیر تضمیر شدہ کا، ثنیہ سے مسجد زریق تک مقابلہ کروایا، ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے بھی اس دوڑ میں حصہ لیا تھا۔
یحییٰ بن یحییٰ، محمد بن رمح اور قتیبہ بن سعید نے لیث بن سعد سے حدیث بیان کی۔ خلف بن ہشام، ابو ربیع اور ابو کامل نے کہا: ہمیں حماد بن زید نے ایوب سے حدیث بیان کی۔ زہیر نے کہا: ہمیں اسماعیل نے ایوب سے حدیث بیان کی۔ عبداللہ بن نمیر، ابو اسامہ اور یحییٰ قطان سب نے عبیداللہ سے روایت کی۔ علی بن حجر، احمد بن عبدہ اور ابن ابی عمر نے مجھے حدیث سنائی، سب نے کہا: ہمیں سفیان نے اسماعیل بن امیہ سے حدیث سنائی۔ ابن جریج نے کہا: مجھے موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی۔ ابن وہب نے کہا: مجھے اسامہ بن زید نے خبر دی۔ ان سب (لیث بن سعد، ایوب، عبیداللہ، اسماعیل بن امیہ، موسیٰ بن عقبہ اور اسامہ بن زید) نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مالک کی نافع سے روایت کردہ حدیث کے ہم معنی روایت کی، حماد اور ابن علیہ کی ایوب سے روایت میں یہ اضافہ کیا: حضرت عبداللہ (بن عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں اول آیا اور گھوڑا مجھ سمیت مسجد (بنو زُریق) سے آگے نکل گیا۔ (جہاں پہنچنا تھا، تیز رفتاری کی بنا پر اس جگہ سے آگے نکل گیا۔)
امام صاحب نے اپنے بہت سارے اساتذہ کی نو (9) سندوں سے مذکورہ بالا روایت کے ہم معنی روایت بیان کی ہے، حماد اور ابن علیہ، ایوب سے یہ اضافہ بیان کرتے ہیں، حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میں سب سے آگے آیا اور مجھے گھوڑا لے کر مسجد میں کود گیا۔
حدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " الخيل في نواصيها الخير إلى يوم القيامة "،حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْخَيْلُ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "،
4845. مالک نے نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لیے برکت (رکھ دی گئی) ہے۔“
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر ہے۔“
4846. لیث بن سعد، عبیداللہ اور اسامہ، ان سب نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے اسی حدیث کے مطابق روایت کی جو مالک نے نافع سے روایت کی۔
امام صاحب مختلف اساتذہ کی پانچ سندوں سے یہی روایت بیان کرتے ہیں۔
4847. یزید بن زریع نے کہا: ہمیں یونس بن عبید نے عمرو بن سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوزرعہ بن عمرو بن جریر سے، انہوں نے حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنی انگلی سے ایک گھوڑے کی پیشانی کے بالوں کو بل دے رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”قیامت تک کے لیے خیر (و برکت) گھوڑوں کی پیشانی سے باندھ دی گئی ہے (یعنی) اجر (بھی) اور غنیمت (بھی۔)“
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی سے گھوڑے کی پیشانی کے بالوں کو (بٹ) رہے تھے اور فرما رہے تھے، ”گھوڑوں کی پیشانیوں کے ساتھ قیامت تک خیر یعنی اجر و غنیمت باندھی گئی ہے۔“
4849. زکریا نے عامر (بن شراحیل شعبی) سے، انہوں نے حضرت عروہ بارقی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑوں کی پیشانیوں سے قیامت تک کے لیے خیر (اور برکت) وابستہ کر دی گئی ہے، یعنی اجر اور غنیمت۔“
حضرت عروہ بارقی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑوں کی پیشانیوں کے ساتھ قیامت تک خیر، اجر و غنیمت باندھ دی گئی ہے۔“
4850. ابن فضیل اور ابن ادریس نے حصین سے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے حضرت عروہ بارقی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیر (اور برکت) گھوڑوں کی پیشانی کے بالوں کے ساتھ گندھی ہوئی ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کس طرح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت تک (گھوڑوں میں) اجر بھی ہے اور غنیمت بھی۔“
حضرت عروہ بارقی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیر گھوڑوں کی پیشانیوں میں بندھی ہوئی ہے۔“ آپصلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیسے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت تک اجر و غنیمت ہے۔“