جناب ابوحازم بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے متعلق اختلاف کیا کہ وہ کس چیز سے بنا تھا تو اُنہوں نے سیدنا سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس (ایک شخص کو پوچھنے کے لئے) بھیجا تو اُنہوں نے فرمایا کہ لوگوں میں مجھ سے زیادہ اس بات کو جاننے والا کوئی شخص باقی نہیں ہے۔ وہ جنگل کے جھاؤ کی لکڑی سے بنا تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ” الاثل سے مراد الطرفاء“(جھاؤ سے ملتا جلتا درخت) ہے۔
1201. جمعہ کے دن امام کا منبر پر تشریف فرما ہوتے وقت لوگوں کو بیٹھنے کا حُکم دینا، اگر ولید بن مسلم اور ان کے نیچے والے راویوں نے اس سند میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا واسطہ یاد رکھا ہو کیونکہ ابن جریج کے شاگردوں نے یہ روایت عطاء کے واسطے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا واسطہ ذکر نہیں کیا)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے تو آپ نے لوگوں سے کہا: ”بیٹھ جاؤ۔“ تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آپ کا یہ حُکم سنا جبکہ وہ مسجد کے دروازے پر تھے تو وہ (وہیں) بیٹھ گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے ابن مسعود (اندر) آجاؤ۔“
1202. جمعہ کے دن خطبوں کی تعداد، دو خطبوں کے درمیان بیٹھنے کا بیان۔ اس شخص کے قول کے برخلاف جو سنّت نبوی سے جاہل ہے اور سنّت کو بدعت سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ دو خطبوں کے درمیان بیٹھنا بدعت ہے
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن دو خطبے دیا کرتے تھے، ان کے درمیان بیٹھتے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے جناب بندار کو فرماتے ہوئے سُنا کہ امام یحییٰ بن سعید رحمه الله شیخ بکراوی کو بلند مرتبہ قرار دیتے تھے اور ان کی عزت وتکریم کرتے تھے۔
جناب ابووائل بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے ہمیں بڑا بلیغ اور مختصر خطبہ ارشاد فرمایا ـ پھر جب وہ منبر سے اُترے تو ہم نے ان سے عرض کی کہ اے ابویقظان آپ نے بڑا بلیغ اور مختصر خطبہ ارشاد فرمایا ہے، اگر آپ اسے طویل کرتے تو بہت اچھا ہوتا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”بلا شبہ آدمی کی لمبی نماز اور مختصر خطبہ کے فقیہ ہونے کی علامت ہے۔ لہٰذا تم نماز کو طویل اور خطبہ کو مختصر کیا کرو۔ کیونکہ بعض بیان جادو (کا اثر) رکھتے ہیں -“ جناب عبدالرحمان بن عبدالملک بن ابجر نے مذکورہ بالا کی طرح روایت بیان کی ہے مگر یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ اگر آپ طویل خطبہ دیتے تو اچھا تھا ـ
قال ابو بكر: في خبر جابر بن سمرة:" كانت خطبة رسول الله صلى الله عليه وسلم قصدا"قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي خَبَرِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ:" كَانَتْ خُطْبَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَصْدًا"
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ درمیانہ ہوتا تھا۔
وفي خبر الحكم بن حزن، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" فحمد الله , واثنى عليه كلمات طيبات خفيفات مباركات"وَفِي خَبَرِ الْحَكَمِ بْنِ حَزَنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَحَمِدَ اللَّهَ , وَأَثْنَى عَلَيْهِ كَلِمَاتٍ طَيِّبَاتٍ خَفِيفَاتٍ مُبَارَكَاتٍ"
حضرت حکم بن حزن کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی حمد بیان کی اور پاکیزه، مختصر اور بابرکت کلمات کے ساتھ اللہ کی ثناء بیان کی۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ اپنے خطبے میں اللہ تعالی کی شان کے لائق حمد وثناء بیان کرتے تھے پھر فرماتے: ”جسے اللہ تعالیٰ راہ راست پر ڈال دے اُسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے گمراہ کر دے، اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔ یقیناً سب سے اچھی بات اللہ کی کتاب (قرآن مجید) ہے اور بہترین سیرت و طریقه محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و طریقہ ہے اور بدترین کام دین میں نئے کام ایجاد کرنا ہے۔ اور نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی جہنّم میں جانے کا سبب ہوگی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح قریب قریب بھیجے گئے ہیں“ اور جب آپ قیامت کا ذکر فرماتے تو آپ کے رخسار سرخ ہو جاتے آپ کی آواز بلند ہوجاتی اور آپ شدید غصّے میں آجاتے، گویا کہ آپ لشکر جرار سے ڈرانے والے ہوں۔ صبح کو قیامت برپا ہونے والی ہے، رات کو قیامت آنے والی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”جوشخص مال چھوڑ گیا وہ اس کے وارثوں کا ہے اور جس نے قرض یا بچّے چھوڑے تو وہ میرے ذمے ہیں اور میں ان کی پرورش کروں گا اور میں مؤمنوں کا ولی اور دوست ہوں۔“ یہ ابن مبارک کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ اور انس بن عیاض کی حدیث کے الفاظ اس سے مختلف ہیں۔
حضرت حارثہ بن نعمان کی صاحبزادی بیان کرتی ہیں کہ میں نے سورۃ ق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ مبارک سے سن کر یاد کی ہے، آپ یہ سورت ہر جمعہ کو پڑھتے تھے اور ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تنور ایک ہی تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حضرت حارثہ کی بیٹی اُم ہشام بنت حارثہ ہیں۔