صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
اذان، خطبہ جمعہ، اور اس دوران مقتدیوں کا بغور خطبہ سُننا اور خاموش رہنا اور ان افعال کے ابواب کا مجموعہ جو اُن کے لئے جائز ہیں اور جو منع ہیں
1200.
1200. اس لکڑی کا بیان جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر بنایا گیا تھا
حدیث نمبر: 1779
Save to word اعراب
نا نا عبد الجبار بن العلاء، ثنا سفيان، عن ابي حازم، قال: اختلفوا في منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم من اي شيء هو؟ فارسلوا إلى سهل بن سعد , فقال: " ما بقي من الناس احد اعلم به مني , هو من اثل الغابة" . قال ابو بكر: الاثل هو الطرفاءنا نا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: اخْتَلَفُوا فِي مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ هُوَ؟ فَأَرْسَلُوا إِلَى سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , فَقَالَ: " مَا بَقِيَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَعْلَمَ بِهِ مِنِّي , هُوَ مِنْ أَثْلِ الْغَابَةِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: الأَثْلُ هُوَ الطَّرْفَاءُ
جناب ابوحازم بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے متعلق اختلاف کیا کہ وہ کس چیز سے بنا تھا تو اُنہوں نے سیدنا سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس (ایک شخص کو پوچھنے کے لئے) بھیجا تو اُنہوں نے فرمایا کہ لوگوں میں مجھ سے زیادہ اس بات کو جاننے والا کوئی شخص باقی نہیں ہے۔ وہ جنگل کے جھاؤ کی لکڑی سے بنا تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ الاثل سے مراد الطرفاء (جھاؤ سے ملتا جلتا درخت) ہے۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
1201.
1201. جمعہ کے دن امام کا منبر پر تشریف فرما ہوتے وقت لوگوں کو بیٹھنے کا حُکم دینا، اگر ولید بن مسلم اور ان کے نیچے والے راویوں نے اس سند میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا واسطہ یاد رکھا ہو کیونکہ ابن جریج کے شاگردوں نے یہ روایت عطاء کے واسطے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا واسطہ ذکر نہیں کیا)
حدیث نمبر: Q1780
Save to word اعراب

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1780
Save to word اعراب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے تو آپ نے لوگوں سے کہا: بیٹھ جاؤ۔ تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آپ کا یہ حُکم سنا جبکہ وہ مسجد کے دروازے پر تھے تو وہ (وہیں) بیٹھ گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے ابن مسعود (اندر) آجاؤ۔

تخریج الحدیث: حسن
1202.
1202. جمعہ کے دن خطبوں کی تعداد، دو خطبوں کے درمیان بیٹھنے کا بیان۔ اس شخص کے قول کے برخلاف جو سنّت نبوی سے جاہل ہے اور سنّت کو بدعت سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ دو خطبوں کے درمیان بیٹھنا بدعت ہے
حدیث نمبر: Q1781
Save to word اعراب

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1781
Save to word اعراب
نا يحيى بن حكيم ، حدثنا ابو بحر عبد الرحمن بن عثمان البكراوي ، نا عبيد الله بن عمر ، حدثنا نافع ، عن ابن عمر ، قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يخطب يوم الجمعة خطبتين , يجلس بينهما" . قال ابو بكر: سمعت بندارا يقول: كان يحيى بن سعيد يجل هذا الشيخ يعني البكراوينا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَحْرٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ الْبَكْرَاوِيُّ ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ خُطْبَتَيْنِ , يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ بُنْدَارًا يَقُولُ: كَانَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ يُجِلُّ هَذَا الشَّيْخَ يَعْنِي الْبَكْرَاوِيَّ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن دو خطبے دیا کرتے تھے، ان کے درمیان بیٹھتے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے جناب بندار کو فرماتے ہوئے سُنا کہ امام یحییٰ بن سعید رحمه الله شیخ بکراوی کو بلند مرتبہ قرار دیتے تھے اور ان کی عزت وتکریم کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
1203.
1203. خطبہ جمعہ کو مختصر کرنا اور اسے طویل نہ کرنا مستحب ہے
حدیث نمبر: 1782
Save to word اعراب
نا محمد بن عمر بن هياج ابو عبد الله الهمداني ، نا يحيى بن عبد الرحمن بن مالك بن الحارث الارحبي ، حدثني عبد الرحمن بن عبد الملك بن ابجر ، عن ابيه ، عن واصل بن حيان ، قال: قال ابو وائل : خطبنا عمار بن ياسر , فابلغ واوجز , فلما نزل، قلنا له: يا ابا اليقظان , لقد ابلغت واوجزت , فلو كنت نفست. قال: إنني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن طول صلاة الرجل , وقصر خطبته مئنة من فقهه , فاطيلوا الصلاة واقصروا الخطبة , فإن من البيان سحرا" . نا به رجاء بن محمد العذري ابو الحسن , حدثنا العلاء بن عصيم الجعفي , حدثنا عبد الرحمن بن عبد الملك بن ابجر بهذا الإسناد بمثله , ولم يقل:" فلو كنت نفست"نا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ هَيَّاجٍ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ ، نا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ الأَرْحَبِيُّ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْمَلَكِ بْنِ أَبْجَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ وَاصِلِ بْنِ حَيَّانَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو وَائِلٍ : خَطَبَنَا عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ , فَأَبْلَغَ وَأَوْجَزَ , فَلَمَّا نَزَلَ، قُلْنَا لَهُ: يَا أَبَا الْيَقْظَانِ , لَقَدْ أَبَلَغْتَ وَأَوْجَزْتَ , فَلَوْ كُنْتُ نَفَّسْتَ. قَالَ: إِنَّنِي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ طُولَ صَلاةِ الرَّجُلِ , وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ , فَأَطِيلُوا الصَّلاةَ وَأَقْصِرُوا الْخُطْبَةَ , فَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا" . نا بِهِ رَجَاءُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعُذْرِيُّ أَبُو الْحَسَنِ , حَدَّثَنَا الْعَلاءُ بْنُ عُصَيْمٍ الْجُعْفِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ بِهَذَا الإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ , وَلَمْ يَقُلْ:" فَلَوْ كُنْتَ نَفَّسْتَ"
جناب ابووائل بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے ہمیں بڑا بلیغ اور مختصر خطبہ ارشاد فرمایا ـ پھر جب وہ منبر سے اُترے تو ہم نے ان سے عرض کی کہ اے ابویقظان آپ نے بڑا بلیغ اور مختصر خطبہ ارشاد فرمایا ہے، اگر آپ اسے طویل کرتے تو بہت اچھا ہوتا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: بلا شبہ آدمی کی لمبی نماز اور مختصر خطبہ کے فقیہ ہونے کی علامت ہے۔ لہٰذا تم نماز کو طویل اور خطبہ کو مختصر کیا کرو۔ کیونکہ بعض بیان جادو (کا اثر) رکھتے ہیں - جناب عبدالرحمان بن عبدالملک بن ابجر نے مذکورہ بالا کی طرح روایت بیان کی ہے مگر یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ اگر آپ طویل خطبہ دیتے تو اچھا تھا ـ

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 1783
Save to word اعراب
قال ابو بكر: في خبر جابر بن سمرة:" كانت خطبة رسول الله صلى الله عليه وسلم قصدا"قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي خَبَرِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ:" كَانَتْ خُطْبَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَصْدًا"
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ درمیانہ ہوتا تھا۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 1784
Save to word اعراب
وفي خبر الحكم بن حزن، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" فحمد الله , واثنى عليه كلمات طيبات خفيفات مباركات"وَفِي خَبَرِ الْحَكَمِ بْنِ حَزَنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَحَمِدَ اللَّهَ , وَأَثْنَى عَلَيْهِ كَلِمَاتٍ طَيِّبَاتٍ خَفِيفَاتٍ مُبَارَكَاتٍ"
حضرت حکم بن حزن کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی حمد بیان کی اور پاکیزه، مختصر اور بابرکت کلمات کے ساتھ اللہ کی ثناء بیان کی۔

تخریج الحدیث:
1204.
1204. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے کی کیفیت اور آپ کے اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے ساتھ خطبہ شروع کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1785
Save to word اعراب
نا الحسين بن عيسى البسطامي ، نا انس يعني ابن عياض ، عن جعفر بن محمد . ح وحدثنا عتبة بن عبد الله ، اخبرنا عبد الله بن المبارك ، انا سفيان ، عن جعفر ، عن ابيه ، عن جابر بن عبد الله ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في خطبته: يحمد الله , ويثني عليه بما هو له اهل , ثم يقول: " من يهد الله فلا مضل له , ومن يضلل فلا هادي له , إن اصدق الحديث كتاب الله , واحسن الهدي هدي محمد , وشر الامور محدثاتها , وكل محدثة بدعة , وكل بدعة ضلالة , وكل ضلالة في النار" ثم يقول: ثم يقول: " بعثت انا والساعة كهاتين". وكان إذا ذكر الساعة احمرت وجنتاه , وعلا صوته , واشتد غضبه، كانه نذير جيش:" صبحتكم الساعة ومستكم" ثم يقول: ثم يقول: " من ترك مالا فلاهله , ومن ترك دينا او ضياعا فإلي او علي , وانا ولي المؤمنين" . هذا لفظ حديث ابن المبارك. ولفظ انس بن عياض مخالف لهذا اللفظنا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى الْبِسْطَامِيُّ ، نا أَنَسٌ يَعْنِي ابْنَ عِيَاضٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ . ح وَحَدَّثَنَا عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، أنا سُفْيَانُ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ: يَحْمَدُ اللَّهَ , وَيُثْنِي عَلَيْهِ بِمَا هُوَ لَهُ أَهْلٌ , ثُمَّ يَقُولُ: " مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ , وَمَنْ يُضْلِلْ فَلا هَادِيَ لَهُ , إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ , وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ , وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا , وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ , وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ , وَكُلَّ ضَلالَةٍ فِي النَّارِ" ثُمَّ يَقُولُ: ثُمَّ يَقُولُ: " بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ". وَكَانَ إِذَا ذَكَرَ السَّاعَةَ احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ , وَعَلا صَوْتُهُ , وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ، كَأَنَّهُ نَذِيرُ جَيْشٍ:" صَبَّحَتْكُمُ السَّاعَةُ وَمَسَّتْكُمْ" ثُمَّ يَقُولُ: ثُمَّ يَقُولُ: " مَنْ تَرَكَ مَالا فَلأَهْلِهِ , وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَإِلَيَّ أَوْ عَلَيَّ , وَأَنَا وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ" . هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ ابْنِ الْمُبَارَكِ. وَلَفْظُ أَنَسِ بْنِ عِيَاضٍ مُخَالِفٌ لِهَذَا اللَّفْظِ
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ اپنے خطبے میں اللہ تعالی کی شان کے لائق حمد وثناء بیان کرتے تھے پھر فرماتے: جسے اللہ تعالیٰ راہ راست پر ڈال دے اُسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے گمراہ کر دے، اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔ یقیناً سب سے اچھی بات اللہ کی کتاب (قرآن مجید) ہے اور بہترین سیرت و طریقه محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و طریقہ ہے اور بدترین کام دین میں نئے کام ایجاد کرنا ہے۔ اور نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی جہنّم میں جانے کا سبب ہوگی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح قریب قریب بھیجے گئے ہیں اور جب آپ قیامت کا ذکر فرماتے تو آپ کے رخسار سرخ ہو جاتے آپ کی آواز بلند ہوجاتی اور آپ شدید غصّے میں آجاتے، گویا کہ آپ لشکر جرار سے ڈرانے والے ہوں۔ صبح کو قیامت برپا ہونے والی ہے، رات کو قیامت آنے والی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: جوشخص مال چھوڑ گیا وہ اس کے وارثوں کا ہے اور جس نے قرض یا بچّے چھوڑے تو وہ میرے ذمے ہیں اور میں ان کی پرورش کروں گا اور میں مؤمنوں کا ولی اور دوست ہوں۔ یہ ابن مبارک کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ اور انس بن عیاض کی حدیث کے الفاظ اس سے مختلف ہیں۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
1205.
1205. جمعہ کے دن خطبہ میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1786
Save to word اعراب
حضرت حارثہ بن نعمان کی صاحبزادی بیان کرتی ہیں کہ میں نے سورۃ ق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ مبارک سے سن کر یاد کی ہے، آپ یہ سورت ہر جمعہ کو پڑھتے تھے اور ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تنور ایک ہی تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حضرت حارثہ کی بیٹی اُم ہشام بنت حارثہ ہیں۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.