اذان ، خطبہ جمعہ ، اور اس دوران مقتدیوں کا بغور خطبہ سُننا اور خاموش رہنا اور ان افعال کے ابواب کا مجموعہ جو اُن کے لئے جائز ہیں اور جو منع ہیں
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ اپنے خطبے میں اللہ تعالی کی شان کے لائق حمد وثناء بیان کرتے تھے پھر فرماتے: ”جسے اللہ تعالیٰ راہ راست پر ڈال دے اُسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے گمراہ کر دے، اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔ یقیناً سب سے اچھی بات اللہ کی کتاب (قرآن مجید) ہے اور بہترین سیرت و طریقه محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و طریقہ ہے اور بدترین کام دین میں نئے کام ایجاد کرنا ہے۔ اور نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی جہنّم میں جانے کا سبب ہوگی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح قریب قریب بھیجے گئے ہیں“ اور جب آپ قیامت کا ذکر فرماتے تو آپ کے رخسار سرخ ہو جاتے آپ کی آواز بلند ہوجاتی اور آپ شدید غصّے میں آجاتے، گویا کہ آپ لشکر جرار سے ڈرانے والے ہوں۔ صبح کو قیامت برپا ہونے والی ہے، رات کو قیامت آنے والی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”جوشخص مال چھوڑ گیا وہ اس کے وارثوں کا ہے اور جس نے قرض یا بچّے چھوڑے تو وہ میرے ذمے ہیں اور میں ان کی پرورش کروں گا اور میں مؤمنوں کا ولی اور دوست ہوں۔“ یہ ابن مبارک کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ اور انس بن عیاض کی حدیث کے الفاظ اس سے مختلف ہیں۔