سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تین افراد جمع ہو جائیں تو اُن میں سے ایک ان کی امامت کرائے، اور اُن میں امامت کا زیادہ حقدار اُن میں سے بڑا قاری اور عالم دین ہے -“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اور قتادہ سیدنا ابو قتادہ رضی الله عنہ کی سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت اور سیدنا اوس رضی اللہ عنہ کی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت میں اس بات کی دلیل ہے کہ غلام جب آزاد لوگوں سے زیادہ قرآن مجید جانتے ہوں تو وہ امامت کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں آزاد شخص کو غلام سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ (بلکہ سب کا حُکم ایک ہی ہے)۔“
حضرت حارثہ بن وہب خزاعی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منیٰ میں دو رکعت نماز باجماعت پڑھائی حالانکہ ہماری تعداد بھی بہت زیادہ تھی اور ہم خوب امن و امان کی حالت میں تھے (دشمن کا خوف بالکل نہ تھا)۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خندق والے دن ہمیں نماز سے روک دیا گیا حتّیٰ کہ جب مغرب کے بعد رات کا کچھ حصّہ گزر گیا تو ہماری کفایت کی گئی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے «وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا» [ سورة الأحزاب: 25 ]” اور (اس) لڑائی میں اللہ مؤمنوں کو کافی ہوگیا اور اللہ طاقتور اور غلبے والا ہے۔“ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو بلایا تو اُنہوں نے اقامت کہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر ادا فرمائی، اپنے بہترین طریقے کے مطابق جیسا کہ آپ ادا کیا کرتے تھے۔ پھر اُنہوں نے عصر کی اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی انداز سے عصر کی نماز ادا کی۔ پھر اُنہوں نے اقامت پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مغرب بھی اسی طریقے سے ادا کی۔ پھر اقامت کہی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح نماز عشاء ادا کی اور یہ واقعہ نماز خوف کے متعلق حُکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے یعنی «فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا» [ سورة البقرة: 39 ]”پیدل چلتے ہوئے یا سوار ہوکر نماز ادا کرلو -“ اس حُکم کے نازل ہونے سے پہلے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں اسی کتاب کے گزشتہ اوراق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سورج طلوع ہونے کے بعد نماز فجر کی امامت کروانے کے بارے میں روایت بیان کر چکا ہوں، جس رات (دورانِ سفر آپ سمیت) تمام صحابہ کرام طلوع آفتاب تک سوئے رہ گئے تھے ـ اس حدیث کا تعلق بھی اس باب سے بھی ہے ـ
سیدنا معاذ جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک والے سال نکلے تو (دوران سفر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر اور عصر اور نماز مغرب اور عشاء کو جمع کر کے ادا فرماتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز کو مؤخر کردیا، پھر آپ خیمے سے باہر تشریف لائے تو نماز ظہر اور عصر کو جمع کر کے ادا فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لے گئے، پھر آپ باہر آئے اور نماز مغرب اور عشاء کو جمع کرکے ادا فرمایا۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔
جناب عمر بن عطاء کہتے ہیں کہ مجھے نافع بن جبیر نے حضرت سائب بن یزید کے پاس مسئلہ پوچھنے کے لئے بھیجا۔ میں نے اُن سے دریافت کیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ ہاں میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے سا تھ محراب میں جمعہ ادا کیا جب اُنہوں نے سلام پھیرا تو میں نے کھڑے ہوکر نماز پڑھنی شروع کردی، اُنہوں نے مجھے بلانے کے لئے ایک شخص کو بھیجا۔ لہٰذا میں ان کے پاس حاضر ہوا تو اُنہوں نے فرمایا کہ جب تم نماز جمعہ پڑھ لو تو گفتگوکرنے یا وہاں نکلنے سے پہلے اس کے ساتھ کوئی دوسری نماز نہ ملاؤ کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا حُکم دیا ہے۔ جناب ابن رافع اور عبدالرحمان کی روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ اس بات کا حُکم دیا گیا ہے کہ ایک نماز کے ساتھ دوسری نماز کو نہ ملایا جائے حتّیٰ کہ تم گفتگو کرلو یا وہاں سے نکل جاؤ۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عمر بن عطا بن ابی الخوار ثقہ راوی ہے۔ جبکہ دوسرے عمر بن عطاء کے بارے میں ہمارے اصحاب محدثین نے اس کے حافظے کی خرابی کی وجہ سے اس کی احادیث میں جرح کی ہے اور جناب ابن جریج نے ان دونوں سے روایات بیان کی ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فرض نماز سے فارغ ہونے پر بلند آواز سے ذکر کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں موجود تھا ـ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ نماز سے فارغ ہو کر بلند آواز سے ذکر کرتے تو میں اس سے (نماز کی تکمیل اور اختتام کو) پہچان لیتا ـ
1143. نمازی جب اپنی دائیں طرف سلام پھیرے تو اس کی نیت دائیں طرف والے (نمازیوں) کو سلام کرنے کی ہو اور جب اپنی بائیں طرف سلام پھیرے تو اس کی نیت اپنے بائیں جانب والوں کو سلام کرنے کی ہو
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو ہم سے ایک شخص اپنی دائیں اور بائیں جانب (سلام پھیرتے وقت) اپنے بھائی کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتا۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی تو فرمایا: ”کیا بات ہے کہ تم میں سے ایک شخص اس طرح اشارہ کر تا ہے گویا کہ وہ سرکش گھوڑے کی دُمیں ہوں؟ یقیناً تم میں سے کسی شخص کو صرف اتنا ہی کافی ہے، یا (کہا کہ) کیا تم میں سے کسی شخص کو اتنا کافی نہیں ہے کہ وہ اس طر ح کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اپنی دائیں ران پر رکھا اور اُنگلی کے ساتھ اشارہ کیا پھر وہ اپنی دائیں اور بائیں جانب والے کو سلام کہے۔
امام ابن شہاب رحمه ﷲ فرماتے ہیں کہ مجھے سیدنا محمود بن ربیع انصاری رضی اﷲ عنہ نے بتایا کہ اُنہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب یاد رکھا ہے اور انہیں وہ کُلّی بھی یاد ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر کے کنویں سے ڈول میں پانی لیکر اُن کے مُنہ پر کی تھی۔ لہٰذا سیدنا محمود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے سیدنا عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ میں اپنی قوم بنی سالم کو نماز پڑھاتا تھا اور جب بارشیں نازل ہوتیں تو میرے اور میری قوم کے درمیان ایک وادی (سیلابی پانی کی وجہ سے) حائل ہو جاتی - اس لئے میرے لئے بڑا مشکل ہو جاتا ہے کہ میں اسے عبور کرکے اُن کی مسجد میں پہنچتا۔ اس لئے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، بلا شبہ میری نظر کمزور ہوچکی ہے اور جب بارش آتی ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان وادی بہنے لگتی ہے اور میرے لئے اسے عبور کرنا مشکل ہو جاتا ہے لہٰذا میری خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں اور میرے گھر میں میری نماز گاہ میں نماز ادا کریں جسے میں نماز گاہ بنا سکوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب میں تمہاری خواہش پوری کردوں گا۔“ چنانچہ اگلے دن سورج بلند ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (گھر میں داخلے کی) مجھ سے اجازت چاہی تو میں نے اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھے بغیر فرمایا: ”تم اپنے گھر میں کس جگہ پر مجھ سے نماز پڑھانا پسند کرتے ہو؟ تو میں نے اُس جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھانا پسند کرتا تھا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور تکبیر کہی تو ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بندی کی۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں ادا کیں، پھر سلام پھیر دیا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کے بعد سلام پھیر دیا۔
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دیا کہ ہم اپنی دائیں جانب والوں کو سلام کریں اور ہم ایک دوسرے کے سلام کا جواب دیں۔ جناب محمد بن یزید کی روایت میں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سلام کہیں۔ جناب ابراہیم کی روایت میں اضافہ ہے کہ جناب ہمام کہتے ہیں کہ یعنی نماز میں (سلام پھیرتے وقت سلام کہیں)۔