صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
عورتوں کے نماز باجماعت ادا کرنے کے ابواب کا مجموعہ
1137. (186) بَابُ الرُّخْصَةِ فِي إِمَامَةِ الْمَمَالِيكِ الْأَحْرَارِ إِذَا كَانَ الْمَمَالِيكُ أَقْرَأَ مِنَ الْأَحْرَارِ.
1137. غلام شخص کا آزاد لوگوں کو امامت کرانا درست ہے جبکہ غلام آزاد لوگوں سے زیادہ بڑا قاری اور عالم دین ہو
حدیث نمبر: 1701
Save to word اعراب
نا محمد بن بشار ، حدثنا سالم بن نوح ، اخبرنا الجريري ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا اجتمع ثلاثة امهم احدهم، واحقهم بالإمامة اقرؤهم" . قال ابو بكر: في هذا الخبر، وخبر قتادة عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، وخبر اوس بن ضمعج، عن ابي مسعود، دلالة على ان العبيد إذا كانوا اقرا من الاحرار كانوا احق بالإمامة، إذ النبي صلى الله عليه وسلم لم يستثن في الخبر حرا دون مملوكنا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا اجْتَمَعَ ثَلاثَةٌ أَمَّهُمْ أَحَدُهُمْ، وَأَحَقُّهُمْ بِالإِمَامَةِ أَقْرَؤُهُمْ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي هَذَا الْخَبَرِ، وَخَبَرِ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَخَبَرِ أَوْسِ بْنِ ضَمْعَجٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ الْعَبِيدَ إِذَا كَانُوا أَقْرَأَ مِنَ الأَحْرَارِ كَانُوا أَحَقَّ بِالإِمَامَةِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَسْتَثْنِ فِي الْخَبَرِ حُرًّا دُونَ مَمْلُوكٍ
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تین افراد جمع ہو جائیں تو اُن میں سے ایک ان کی امامت کرائے، اور اُن میں امامت کا زیادہ حقدار اُن میں سے بڑا قاری اور عالم دین ہے - امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اور قتادہ سیدنا ابو قتادہ رضی الله عنہ کی سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت اور سیدنا اوس رضی اللہ عنہ کی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت میں اس بات کی دلیل ہے کہ غلام جب آزاد لوگوں سے زیادہ قرآن مجید جانتے ہوں تو وہ امامت کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں آزاد شخص کو غلام سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ (بلکہ سب کا حُکم ایک ہی ہے)۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
1138. (187) بَابُ الصَّلَاةِ جَمَاعَةً فِي الْأَسْفَارِ
1138. سفر میں نماز باجماعت کا بیان
حدیث نمبر: 1702
Save to word اعراب
حضرت حارثہ بن وہب خزاعی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منیٰ میں دو رکعت نماز باجماعت پڑھائی حالانکہ ہماری تعداد بھی بہت زیادہ تھی اور ہم خوب امن و امان کی حالت میں تھے (دشمن کا خوف بالکل نہ تھا)۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
1139. (188) بَابُ الصَّلَاةِ جَمَاعَةً بَعْدَ ذَهَابِ وَقْتِهَا.
1139. نماز کا وقت گزرنے کے بعد اسے باجماعت ادا کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1703
Save to word اعراب
نا محمد بن بشار ، نا يحيى يعني ابن سعيد ، وعثمان يعني ابن عمر ، قالا: حدثنا ابن ابي ذئب ، عن سعيد بن ابي سعد ، عن عبد الرحمن بن ابي سعيد الخدري ، عن ابيه ، قال: حبسنا يوم الخندق عن الصلاة، حتى كان بعد المغرب بهوي من الليل، حتى كفينا، وذلك قوله: وكفى الله المؤمنين القتال وكان الله قويا عزيزا سورة الاحزاب آية 25" فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بلالا، فاقام الصلاة، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر، كاحسن ما كان يصليها، ثم اقام، فصلى العصر مثل ذلك، ثم اقام، فصلى المغرب مثل ذلك، ثم اقام، فصلى العشاء كذلك" ، قبل ان تنزل صلاة الخوف فرجالا او ركبانا سورة البقرة آية 239. قال ابو بكر: قد خرجت إمامة النبي صلى الله عليه وسلم في صلاة الفجر بعد طلوع الشمس ليلة ناموا عن الصلاة حتى طلعت الشمس، فيما مضى من هذا الكتاب، وهو من هذا الباب ايضانا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، نا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ ، وَعُثْمَانُ يَعْنِي ابْنَ عمر ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: حُبِسْنَا يَوْمَ الْخَنْدَقِ عَنِ الصَّلاةِ، حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ بِهَوِيٍّ مِنَ اللَّيْلِ، حَتَّى كُفِينَا، وَذَلِكَ قَوْلُهُ: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا سورة الأحزاب آية 25" فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلالا، فَأَقَامَ الصَّلاةَ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ، كَأَحْسَنِ مَا كَانَ يُصَلِّيهَا، ثُمَّ أَقَامَ، فَصَلَّى الْعَصْرَ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ أَقَامَ، فَصَلَّى الْمَغْرِبَ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ أَقَامَ، فَصَلَّى الْعِشَاءَ كَذَلِكَ" ، قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ صَلاةُ الْخَوْفِ فَرِجَالا أَوْ رُكْبَانًا سورة البقرة آية 239. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ خَرَّجْتُ إِمَامَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلاةِ الْفَجْرِ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ لَيْلَةَ نَامُوا عَنِ الصَّلاةِ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فِيمَا مَضَى مِنْ هَذَا الْكِتَابِ، وَهُوَ مِنْ هَذَا الْبَابِ أَيْضًا
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خندق والے دن ہمیں نماز سے روک دیا گیا حتّیٰ کہ جب مغرب کے بعد رات کا کچھ حصّہ گزر گیا تو ہماری کفایت کی گئی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے «‏‏‏‏وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا» ‏‏‏‏ [ سورة الأحزاب: 25 ] اور (اس) لڑائی میں اللہ مؤمنوں کو کافی ہوگیا اور اللہ طاقتور اور غلبے والا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو بلایا تو اُنہوں نے اقامت کہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر ادا فرمائی، اپنے بہترین طریقے کے مطابق جیسا کہ آپ ادا کیا کرتے تھے۔ پھر اُنہوں نے عصر کی اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی انداز سے عصر کی نماز ادا کی۔ پھر اُنہوں نے اقامت پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مغرب بھی اسی طریقے سے ادا کی۔ پھر اقامت کہی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح نماز عشاء ادا کی اور یہ واقعہ نماز خوف کے متعلق حُکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے یعنی «‏‏‏‏فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا» ‏‏‏‏ [ سورة البقرة: 39 ] پیدل چلتے ہوئے یا سوار ہوکر نماز ادا کرلو - اس حُکم کے نازل ہونے سے پہلے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں اسی کتاب کے گزشتہ اوراق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سورج طلوع ہونے کے بعد نماز فجر کی امامت کروانے کے بارے میں روایت بیان کر چکا ہوں، جس رات (دورانِ سفر آپ سمیت) تمام صحابہ کرام طلوع آفتاب تک سوئے رہ گئے تھے ـ اس حدیث کا تعلق بھی اس باب سے بھی ہے ـ

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
1140. (189) بَابُ الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْجَمَاعَةِ فِي السَّفَرِ.
1140. سفر میں دو نمازوں کو جمع کرکے باجماعت ادا کرنا
حدیث نمبر: 1704
Save to word اعراب
نا يونس بن عبد الاعلى ، اخبرنا ابن وهب ، ان مالكا حدثه، عن ابي الزبير المكي ، عن ابي الطفيل عامر بن واثلة ، عن معاذ بن جبل ، اخبره انهم، خرجوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام تبوك، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يجمع بين الظهر والعصر، والمغرب والعشاء"، قال:" فاخر الصلاة يوما، ثم خرج فصلى الظهر والعصر جميعا، ثم دخل، ثم خرج فصلى المغرب والعشاء جميعا" . فذكر الحديثنا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَنَّ مَالِكًا حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُمْ، خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ تَبُوكَ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَجْمَعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ"، قَالَ:" فَأَخَّرَ الصَّلاةَ يَوْمًا، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ دَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا" . فَذَكَرَ الْحَدِيثَ
سیدنا معاذ جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک والے سال نکلے تو (دوران سفر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر اور عصر اور نماز مغرب اور عشاء کو جمع کر کے ادا فرماتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز کو مؤخر کردیا، پھر آپ خیمے سے باہر تشریف لائے تو نماز ظہر اور عصر کو جمع کر کے ادا فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لے گئے، پھر آپ باہر آئے اور نماز مغرب اور عشاء کو جمع کرکے ادا فرمایا۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
1141. (190) بَابُ الْأَمْرِ بِالْفَصْلِ بَيْنَ الْفَرِيضَةِ وَالتَّطَوُّعِ بِالْكَلَامِ أَوِ الْخُرُوجِ.
1141. فرض اور نفل نماز کے درمیان بات چیت یا جگہ تبدیل کرکے فرق کرنے کے حُکم کا بیان
حدیث نمبر: 1705
Save to word اعراب
نا عبد الرحمن بن بشر ، نا حجاج بن محمد ، عن ابن جريج ، حدثنا عمر بن عطاء ، وحدثنا محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني عمر بن عطاء بن ابي الخوار . ح وحدثنا علي بن سهل الرملي ، حدثنا الوليد ، حدثني ابن جريج ، عن عمر بن عطاء ، قال: ارسلني نافع بن جبير إلى السائب بن يزيد اساله، فسالته فقال: نعم صليت الجمعة في المقصورة مع معاوية ، فلما سلم قمت اصلي، فارسل إلي فاتيته، فقال: " إذا صليت الجمعة فلا تصلها بصلاة، إلا ان تخرج او تتكلم ؛ فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم امر بذلك" . وقال ابن رافع، وعبد الرحمن: امر بذلك الا توصل صلاة بصلاة حتى تخرج او تتكلم. قال ابو بكر: عمر بن عطاء بن ابي الخوار هذا ثقة، والآخر هو عمر بن عطاء، تكلم اصحابنا في حديثه لسوء حفظه، قد روى ابن جريج عنهما جميعانا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ ، نا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَطَاءٍ ، وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ عَطَاءِ بْنِ أَبِي الْخُوَارِ . ح وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَهْلٍ الرَّمْلِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ ، حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَطَاءٍ ، قَالَ: أَرْسَلَنِي نَافِعُ بْنُ جُبَيْرٍ إِلَى السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ أَسْأَلُهُ، فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: نَعَمْ صَلَّيْتُ الْجُمُعَةَ فِي الْمَقْصُورَةِ مَعَ مُعَاوِيَةَ ، فَلَمَّا سَلَّمَ قُمْتُ أُصَلِّي، فَأَرْسَلَ إِلَيَّ فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ: " إِذَا صَلَّيْتَ الْجُمُعَةَ فَلا تَصِلْهَا بِصَلاةٍ، إِلا أَنْ تَخْرُجَ أَوْ تَتَكَلَّمَ ؛ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِذَلِكَ" . وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ: أَمَرَ بِذَلِكَ أَلا تُوصِلَ صَلاةٌ بِصَلاةٍ حَتَّى تَخْرُجَ أَوْ تَتَكَلَّمَ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: عُمَرُ بْنُ عَطَاءِ بْنِ أَبِي الْخُوَارِ هَذَا ثِقَةٌ، وَالآخَرُ هُوَ عُمَرُ بْنُ عَطَاءٍ، تَكَلَّمَ أَصْحَابُنَا فِي حَدِيثِهِ لِسُوءِ حِفْظِهِ، قَدْ رَوَى ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْهُمَا جَمِيعًا
جناب عمر بن عطاء کہتے ہیں کہ مجھے نافع بن جبیر نے حضرت سائب بن یزید کے پاس مسئلہ پوچھنے کے لئے بھیجا۔ میں نے اُن سے دریافت کیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ ہاں میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے سا تھ محراب میں جمعہ ادا کیا جب اُنہوں نے سلام پھیرا تو میں نے کھڑے ہوکر نماز پڑھنی شروع کردی، اُنہوں نے مجھے بلانے کے لئے ایک شخص کو بھیجا۔ لہٰذا میں ان کے پاس حاضر ہوا تو اُنہوں نے فرمایا کہ جب تم نماز جمعہ پڑھ لو تو گفتگوکرنے یا وہاں نکلنے سے پہلے اس کے ساتھ کوئی دوسری نماز نہ ملاؤ کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا حُکم دیا ہے۔ جناب ابن رافع اور عبدالرحمان کی روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ اس بات کا حُکم دیا گیا ہے کہ ایک نماز کے ساتھ دوسری نماز کو نہ ملایا جائے حتّیٰ کہ تم گفتگو کرلو یا وہاں سے نکل جاؤ۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عمر بن عطا بن ابی الخوار ثقہ راوی ہے۔ جبکہ دوسرے عمر بن عطاء کے بارے میں ہمارے اصحاب محدثین نے اس کے حافظے کی خرابی کی وجہ سے اس کی احادیث میں جرح کی ہے اور جناب ابن جریج نے ان دونوں سے روایات بیان کی ہیں۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
1142. (191) بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ بِالتَّكْبِيرِ وَالذِّكْرِ عِنْدَ قَضَاءِ الْإِمَامِ الصَّلَاةَ.
1142. امام کے نماز ختم کرنے پر اللہ اَکُبَر،، اور ذکر الہٰی بلند آواز سے کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1706
Save to word اعراب
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے اختتام کو اللہ اکبر کی آواز سے پہچانتا تھا -

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 1707
Save to word اعراب
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فرض نماز سے فارغ ہونے پر بلند آواز سے ذکر کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں موجود تھا ـ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ نماز سے فارغ ہو کر بلند آواز سے ذکر کرتے تو میں اس سے (نماز کی تکمیل اور اختتام کو) پہچان لیتا ـ

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
1143. (192) بَابُ نِيَّةِ الْمُصَلِّي بِالسَّلَامِ مَنْ عَنْ يَمِينِهِ إِذَا سَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ، وَمَنْ عَنْ شِمَالِهِ إِذَا سَلَّمَ عَنْ يَسَارِهِ.
1143. نمازی جب اپنی دائیں طرف سلام پھیرے تو اس کی نیت دائیں طرف والے (نمازیوں) کو سلام کرنے کی ہو اور جب اپنی بائیں طرف سلام پھیرے تو اس کی نیت اپنے بائیں جانب والوں کو سلام کرنے کی ہو
حدیث نمبر: 1708
Save to word اعراب
نا سلم بن جنادة ، حدثنا وكيع ، عن مسعر ، عن عبيد الله بن القبطية ، عن جابر بن سمرة ، قال: كنا إذا صلينا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم اشار احدنا إلى اخيه بيده , عن يمينه , وعن شماله , فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ما بال احدكم يفعل هذا كانها اذناب خيل شمس؟! إنما يكفي احدكم او الا يكفي احدكم ان يقول هكذا؟" ووضع يده على فخذه اليمنى , واشار باصبعه , ثم سلم على اخيه من عن يمينه , ومن عن شماله نا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَارَ أَحَدُنَا إِلَى أَخِيهِ بِيَدِهِ , عَنْ يَمِينِهِ , وَعَنْ شِمَالِهِ , فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يَفْعَلُ هَذَا كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ؟! إِنَّمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَوْ أَلا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا؟" وَوضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى , وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ , ثُمَّ سَلَّمَ عَلَى أَخِيهِ مَنْ عَنِ يَمِينِهِ , وَمَنْ عَنْ شِمَالِهِ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو ہم سے ایک شخص اپنی دائیں اور بائیں جانب (سلام پھیرتے وقت) اپنے بھائی کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتا۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی تو فرمایا: کیا بات ہے کہ تم میں سے ایک شخص اس طرح اشارہ کر تا ہے گویا کہ وہ سرکش گھوڑے کی دُمیں ہوں؟ یقیناً تم میں سے کسی شخص کو صرف اتنا ہی کافی ہے، یا (کہا کہ) کیا تم میں سے کسی شخص کو اتنا کافی نہیں ہے کہ وہ اس طر ح کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اپنی دائیں ران پر رکھا اور اُنگلی کے ساتھ اشارہ کیا پھر وہ اپنی دائیں اور بائیں جانب والے کو سلام کہے۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
1144. (193) بَابُ سَلَّامِ الْمَأْمُومِ مِنَ الصَّلَاةِ عِنْدَ سَلَّامِ الْإِمَامِ.
1144. امام کے سلام پھیرنے کے بعد مقتدی کو نماز سے سلام پھیرنا چاہیے
حدیث نمبر: 1709
Save to word اعراب
انا محمد بن يحيى ، حدثنا سليمان بن داود الهاشمي ، اخبرنا إبراهيم بن سعد ، عن ابن شهاب ، قال: اخبرني محمود بن الربيع الانصاري ، انه عقل رسول الله صلى الله عليه وسلم , وعقل مجة مجها رسول الله صلى الله عليه وسلم من دلو من بئر كانت في دارهم في وجهه , فزعم محمود انه سمع عتبان بن مالك الانصاري وكان ممن شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: كنت اصلي لقومي بني سالم , فكان يحول بيني وبينهم واد إذا جاءت الامطار , قال: فشق علي ان اجتازه قبل مسجدهم , فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلت له: إني قد انكرت من بصري , وإن الوادي الذي يحول بيني وبين قومي يسيل إذا جاءت الامطار , فيشق علي ان اجتازه , فوددت انك تاتيني،" فتصلي من بيتي مصلى اتخذه مصلى" , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سافعل" , فغدا علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر بعد ما امتد النهار , فاستاذن علي رسول الله صلى الله عليه وسلم فاذنت له , فلم يجلس حتى قال: " اين تحب ان اصلي لك في بيتك؟" , فاشرت له إلى المكان الذي احب ان يصلي فيه , فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبر , وصففنا وراءه، فركع ركعتين , ثم سلم , وسلمنا حين سلم أنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيُّ ، أَنَّهُ عَقِلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَعَقِلَ مَجَّةً مَجَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ دَلْو مِنْ بِئْرٍ كَانَتْ فِي دَارِهِمْ فِي وَجْهِهِ , فَزَعَمَ مَحْمُودٌ أَنَّهُ سَمِعَ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الأَنْصَارِيُّ وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بَنِي سَالِمٍ , فَكَانَ يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ وَادٍ إِذَا جَاءَتِ الأَمْطَارُ , قَالَ: فَشَقَّ عَلَيَّ أَنْ أَجْتَازَهُ قِبَلَ مَسْجِدِهِمْ , فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي قَدْ أَنْكَرْتُ مِنْ بَصَرِي , وَإِنَّ الْوَادِيَ الَّذِي يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ قَوْمِي يَسِيلُ إِذَا جَاءَتِ الأَمْطَارُ , فَيَشُقُّ عَلَيَّ أَنْ أَجْتَازَهُ , فَوَدِدْتُ أَنَّكَ تَأْتِيَنِي،" فَتُصَلِّي مِنْ بَيْتِي مُصَلًّى أَتَّخِذُهُ مُصَلًّى" , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَأَفْعَلُ" , فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ بَعْدَ مَا امْتَدَّ النَّهَارُ , فَاسْتَأْذَنَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ , فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى قَالَ: " أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ لَكَ فِي بَيْتِكَ؟" , فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي أُحِبُّ أَنْ يُصَلِّيَ فِيهِ , فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ , وَصَفَفْنَا وَرَاءَهُ، فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ سَلَّمَ , وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ
امام ابن شہاب رحمه ﷲ فرماتے ہیں کہ مجھے سیدنا محمود بن ربیع انصاری رضی اﷲ عنہ نے بتایا کہ اُنہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب یاد رکھا ہے اور انہیں وہ کُلّی بھی یاد ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر کے کنویں سے ڈول میں پانی لیکر اُن کے مُنہ پر کی تھی۔ لہٰذا سیدنا محمود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے سیدنا عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ میں اپنی قوم بنی سالم کو نماز پڑھاتا تھا اور جب بارشیں نازل ہوتیں تو میرے اور میری قوم کے درمیان ایک وادی (سیلابی پانی کی وجہ سے) حائل ہو جاتی - اس لئے میرے لئے بڑا مشکل ہو جاتا ہے کہ میں اسے عبور کرکے اُن کی مسجد میں پہنچتا۔ اس لئے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، بلا شبہ میری نظر کمزور ہوچکی ہے اور جب بارش آتی ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان وادی بہنے لگتی ہے اور میرے لئے اسے عبور کرنا مشکل ہو جاتا ہے لہٰذا میری خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں اور میرے گھر میں میری نماز گاہ میں نماز ادا کریں جسے میں نماز گاہ بنا سکوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب میں تمہاری خواہش پوری کردوں گا۔ چنانچہ اگلے دن سورج بلند ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (گھر میں داخلے کی) مجھ سے اجازت چاہی تو میں نے اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھے بغیر فرمایا: تم اپنے گھر میں کس جگہ پر مجھ سے نماز پڑھانا پسند کرتے ہو؟ تو میں نے اُس جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھانا پسند کرتا تھا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور تکبیر کہی تو ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بندی کی۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں ادا کیں، پھر سلام پھیر دیا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کے بعد سلام پھیر دیا۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
1145. (194) بَابُ رَدِّ الْمَأْمُومِ عَلَى الْإِمَامِ إِذَا سَلَّمَ الْإِمَامُ عِنْدَ انْقِضَاءِ الصَّلَاةِ.
1145. جب نماز کے اختتام پر امام سلام پھیرے گا تو مقتدی کو امام کے سلام کا جواب دینا چاہیے
حدیث نمبر: 1710
Save to word اعراب
نا إبراهيم بن المستمر البصري ، نا عبد الاعلى بن القاسم ابو بشر صاحب اللؤلؤ. ح وحدثنا محمد بن يزيد بن عبد الملك الاسفاطي البصري ، حدثني عبد الاعلى بن القاسم ، نا همام بن يحيى ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن سمرة ، قال:" امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نسلم على ايماننا , وان يرد بعضنا على بعض" . قال محمد بن يزيد: وان يسلم بعضنا على بعض. زاد إبراهيم: قال همام: يعني في الصلاةنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُسْتَمِرِّ الْبَصْرِيُّ ، نا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ الْقَاسِمِ أَبُو بِشْرٍ صَاحِبُ اللُّؤْلُؤِ. ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ الأَسْفَاطِيُّ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ الْقَاسِمِ ، نا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَةَ ، قَالَ:" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُسَلِّمَ عَلَى أَيْمَانِنَا , وَأَنْ يَرُدَّ بَعْضُنَا عَلَى بَعْضٍ" . قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ: وَأَنْ يُسَلِّمَ بَعْضُنَا عَلَى بَعْضٍ. زَادَ إِبْرَاهِيمُ: قَالَ هَمَّامٌ: يَعْنِي فِي الصَّلاةِ
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دیا کہ ہم اپنی دائیں جانب والوں کو سلام کریں اور ہم ایک دوسرے کے سلام کا جواب دیں۔ جناب محمد بن یزید کی روایت میں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سلام کہیں۔ جناب ابراہیم کی روایت میں اضافہ ہے کہ جناب ہمام کہتے ہیں کہ یعنی نماز میں (سلام پھیرتے وقت سلام کہیں)۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.