سیدہ اُم ورقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ”ہمارے ساتھ چلو ہم شہید خاتون کی زیارت کریں -“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی تھی کہ ان کے لئے اذان کہی جائے اور وہ اپنے گھر والوں (عورتوں، بچّوں) کی فرض نماز میں امامت کرائیں اور وہ قرآن مجید کی حافظہ تھیں۔
حضرت سالم اپنے والد گرامی سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی شخص کی بیوی مسجد میں جانے کی اجازت طلب کرے تو اُسے نہ روکو۔“ جناب علی بن خشرم کہتے ہیں کہ سفیان رحمه الله فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ اجازت رات کے وقت (مساجد میں نماز پڑھنے کے لئے جانے کے بارے میں) ہے۔ جناب عبدالجبار، سعید اور یحییٰ بن حکیم امام سفیان رحمه الله سے بیان کر تے ہیں کہ ہمیں ایک شخص نے امام نافع سے یہ بیان کیا ہے کہ یہ حُکم رات کے وقت ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنی عورتوں کو رات کے وقت مساجد میں حاضر ہونے سے مت روکو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم اللہ کی باندیوں کو اللہ کی مسجدوں (میں حاضر ہونے) سے نہ روکو۔ اور اُنہیں چاہیے کہ جب وہ (مساجد کی طرف) نکلیں تو سادگی کے ساتھ (بغیر زیب و زینت کے) نکلیں۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی عورت مسجد میں حاضر ہو تو وہ خوشبو نہ لگائے۔“ جناب بکیر کی روایت میں ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (یہ فرمان) سنا۔
والدليل على ان اسم الزاني قد يقع على من يفعل فعلا لا يوجب ذلك الفعل جلدا ولا رجما، مع الدليل على ان التشبيه الذي يوجب ذلك الفعل إنما يكون إذا اشتبهت العلتان لا لاجتماع الاسم، إذ المتعطرة التي تخرج ليوجد ريحها قد سماها النبي صلى الله عليه وسلم زانية، وهذا الفعل لا يوجب جلدا ولا رجما، ولو كان التشبيه بكون الاسم على الاسم، لكانت الزانية بالتعطر يجب عليها ما يجب على الزانية بالفرج، ولكن لما كانت العلة الموجبة للحد في الزنا الوطء بالفرج لم يجز ان يحكم لمن يقع عليه اسم زان، وزانية بغير جماع بالفرج في الفرج بجلد ولا رجم. وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ اسْمَ الزَّانِي قَدْ يَقَعُ عَلَى مَنْ يَفْعَلْ فِعْلًا لَا يُوجِبُ ذَلِكَ الْفِعْلُ جَلْدًا وَلَا رَجْمًا، مَعَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ التَّشْبِيهَ الَّذِي يُوجِبُ ذَلِكَ الْفِعْلَ إِنَّمَا يَكُونُ إِذَا اشْتَبَهَتِ الْعِلَّتَانِ لَا لِاجْتِمَاعِ الِاسْمِ، إِذِ الْمُتَعَطِّرَةُ الَّتِي تَخْرُجُ لِيُوجَدَ رِيحُهَا قَدْ سَمَّاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَانِيَةً، وَهَذَا الْفِعْلُ لَا يُوجِبُ جَلْدًا وَلَا رَجْمًا، وَلَوْ كَانَ التَّشْبِيهُ بِكَوْنِ الِاسْمِ عَلَى الِاسْمِ، لَكَانَتِ الزَّانِيَةُ بِالتَّعَطُّرِ يَجِبُ عَلَيْهَا مَا يَجِبُ عَلَى الزَّانِيَةِ بِالْفَرْجِ، وَلَكِنْ لَمَّا كَانَتِ الْعِلَّةُ الْمُوجِبَةُ لِلْحَدِّ فِي الزِّنَا الْوَطْءَ بِالْفَرْجِ لَمْ يَجُزْ أَنْ يُحْكَمَ لِمَنْ يَقَعُ عَلَيْهِ اسْمُ زَانٍ، وَزَانِيَةٍ بِغَيْرِ جِمَاعٍ بِالْفَرْجِ فِي الْفَرْجِ بِجَلْدٍ وَلَا رَجْمٍ.
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو بھی عورت خوشبو لگاتی ہے پھر لوگوں کے پاس سے گزرتی ہے تاکہ وہ اس کی خوشبو کو محسوس کریں تو وہ زانیہ ہے اور (اسے دیکھنے والی) ہر آنکھ زانیہ ہے۔“
جناب موسٰی بن یسار سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے اس حال میں گزری کہ اُس کی خوشبو خوب مہک رہی تھی - تو اُنہوں نے فرمایا کہ اے جبار کی باندی، کہاں جارہی ہو؟ اُس نے جواب دیا کہ مسجد کی طرف جارہی ہوں۔ اُنہوں نے پوچھا، کیا خوشبو لگائی ہے؟ اُس نے کہا کہ جی ہاں۔ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) نے فرمایا تو پھرواپس لوٹ جاؤ اور غسل کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”اللہ تعالیٰ اُس عورت کی نماز قبول نہیں فرماتا جو مسجد کی طرف اس حال میں نکلتی ہے کہ اُس کی خوشبو خوب مہک رہی ہو - حتّیٰ کہ وہ واپس جاکر غسل کرلے ـ“
فإني لا اعرف السائب مولى ام سلمة بعدالة ولا جرح، ولا اقف على سماع حبيب بن ابي ثابت هذا الخبر من ابن عمر، ولا هل سمع قتادة خبره من مورق، عن ابي الاحوص ام لا؛ بل كاني لا اشك ان قتادة لم يسمع من ابي الاحوص؛ لانه ادخل في بعض اخبار ابي الاحوص بينه وبين ابي الاحوص مورقا، وهذا الخبر نفسه ادخل همام وسعيد بن بشير بينهما مورقا. فَإِنِّي لَا أَعْرِفُ السَّائِبَ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ بِعَدَالَةٍ وَلَا جَرْحٍ، وَلَا أَقِفُ عَلَى سَمَاعِ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ هَذَا الْخَبَرَ مِنِ ابْنِ عُمَرَ، وَلَا هَلْ سَمِعَ قَتَادَةُ خَبَرَهُ مِنْ مُوَرِّقٍ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ أَمْ لَا؛ بَلْ كَأَنِّي لَا أَشُكُّ أَنَّ قَتَادَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي الْأَحْوَصِ؛ لِأَنَّهُ أَدْخَلَ فِي بَعْضِ أَخْبَارِ أَبِي الْأَحْوَصِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَبِي الْأَحْوَصِ مُوَرِّقًا، وَهَذَا الْخَبَرُ نَفْسُهُ أَدْخَلَ هَمَّامٌ وَسَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ بَيْنَهُمَا مُوَرِّقًا.
سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” عورتوں کی بہترین مساجد اُن کے گھروں کے اندرونی حصّے ہیں۔