قال ابو بكر: وفي خبر ابن مسعود" ان النبي صلى الله عليه وسلم قد خطب ايضا قبل الصلاة". فينبغي للإمام في الكسوف ان يخطب قبل الصلاة وبعدهاقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَفِي خَبَرِ ابْنِ مَسْعُودٍ" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ خَطَبَ أَيْضًا قَبْلَ الصَّلاةِ". فَيَنْبَغِي لِلإِمَامِ فِي الْكُسُوفِ أَنْ يَخْطُبَ قَبْلَ الصَّلاةِ وَبَعْدَهَا
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے پہلے بھی خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ لہٰذا امام کو چاہیے کہ وہ نماز کسوف سے پہلے اور بعد میں خطبہ دے۔
جناب ثعلبہ بن عباد عبدی بصری بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے ایک دن سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں حاضری دی۔ تو اُنہوں نے اپنے خطبہ میں بتایا۔ اس دوران کہ ایک دن میں اور ایک انصاری لڑکا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اپنی نشانہ بازی کی مشق کر رہے تھے حتّیٰ کہ سورج افق میں دیکھنے والوں کی نظر میں دو یا تین نیزوں کے بقدر رہ گیا تو وہ سیاہ ہو گیا گو یا کہ وہ کلونجی کا دانہ ہو۔ ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا، چلو مسجد میں چلتے ہیں، اللہ کی قسم، سورج کی اس حالت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمّت کو کوئی نیا حُکم دیں گے۔ لہٰذا ہم مسجد کی طرف چل پڑے اچانک ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر ہی تشریف فرما ہیں۔ ہم اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے جب آپ لوگوں کے پاس باہر تشریف لائے تھے۔ سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور ہمیں اتنی طویل قیام والی نماز پڑھائی کہ اتنی طویل نماز ہم نے کبھی نہ پڑھی تھی۔ آپ کی آواز سنائی نہیں دی رہی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس قدر طویل رکوع کرایا کہ اتنا طویل رکوع آپ نے ہمیں کبھی نہیں کرایا تھا۔ آپ کی آواز سنائ نہیں دے رہی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اتنا لمبا سجدہ کرایا کہ ہم نے آپ کے ساتھ اتنا طویل سجدہ کبھی نہیں کیا تھا۔ آپ کی آواز نہیں آرہی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا، صحابی فرماتے ہیں کہ دوسری رکعت کے تشہد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے کہ سورج روشن ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء بیان کی اور گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور گواہی دی کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر فرمایا: ”اے لوگو، یقیناًً میں ایک انسان اور اللہ کا رسول ہوں۔ میں تمہیں اللہ کے نام کے ساتھ وعظ و نصیحت کرتا ہوں۔ اگر تم جانتے ہو کہ میں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچانے میں کوئی کمی کی ہے تو تم مجھے جواب نہ دینا، حتّیٰ کہ میں اپنے رب کے پیغامات اس طرح پہنچا دوں جس طرح پہنچانے کا حق ہے۔ اور اگر تم جانتے ہو کہ میں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچادیے ہیں تو تم مجھے ضرور بتادو۔ کہتے ہیں کہ لوگ کھڑے ہوگئے اور اُنہوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے ہیں۔ اور اپنی اُمّت کی خو ب خیر و خواہی کی ہے اور اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ پھر وہ خاموش ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امابعد، بیشک کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سورج گرہن اور یہ چاند گرہن اور یہ ستاروں کا اپنے مطالع سے زائل ہونا، اہل زمین کے کسی عظیم شخص کی موت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بلا شبہ وہ جھوٹ بولتے ہیں، لیکن یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ تاکہ وہ دیکھے کہ ان میں سے کون توبہ کرتا ہے۔ اللہ کی قسم، میں جب سے کھڑا نمازپڑھ رہا تھا میں نے ہر وہ چیز دیکھی ہے جو تمہاری دنیا اور آخرت میں تمہیں ملے گی۔ اور بیشک اللہ کی قسم، قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتّیٰ کہ تیس جھوٹے (نبی) نکلیں گے۔ ان میں سے آخری کا نام دجال ہوگا جس کی بائیں آنکھ مٹی ہوگی گویا کہ وہ انصاری بوڑھے ابو یحییٰ یا تحیا کی آنکھ ہے۔ اور بیشک جب وہ نکلے گا تو دعویٰ کرے گا کہ وہی اللہ ہے۔ تو جو شخص اس پر ایمان لے آیا، اور اُس کی تصدیق کی اور اُس کی پیروی کی تو اُس کے گذشتہ نیک اعمال اُسے کچھ نفع نہیں دیں گے۔ اور جس شخص نے اُس کا کُفر کیا اور اُسے جھٹلایا تو اُس کے گذشتہ کسی عمل کا مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ اور وہ (حرمین مکّہ مکرّمہ اور مدینہ منوّرہ) اور بیت المقدس کے علاوہ ساری زمین پر غالب آ جائے گا۔ اور وہ مؤمنوں کو بیت المقدس میں محصور کردے گا تو اُن پر بڑا شدید زلزلہ آئے گا۔ فرماتے ہیں کہ تو اللہ تعالیٰ اُسے اور اُس کے لشکروں کو شکست دے دیگا۔ حتّیٰ کہ (ٹوٹی ہوئی) دیوار کا باقی حصّہ اور درخت کا تنا پکار کر کہے گا کہ اے مومن، یہ کافر میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آؤ اسے قتل کردو۔“ اور فرمایا: ”اس طرح اُس وقت تک نہیں ہوگا حتّیٰ کہ تم اپنی جانوں میں بڑے سنگین اور شدید امور کو دیکھ لو گے۔ تم آپس میں پوچھو گے کیا تمہارے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہارے لئے اس کا کچھ تذکرہ کیا ہے۔ حتّیٰ کہ اس گرفتاری کے بعد پہاڑ اپنی جگہوں سے ہل جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ جناب ثعلبہ کہتے ہیں کہ پھر میں (سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ کے) ایک اور خطبے میں حاضر ہوا تو اُنہوں نے یہ حدیث بیان کی۔ اُنہوں نے کوئی بات بھی آگے پیچھے نہ کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ الفاظ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ یہ مسئلہ اسی جنس سے تعلق رکھتا ہے جسے ہم بیان کر چکے ہیں کہ جس خبر کو قبول کرنا واجب ہے وہ اس راوی کی خبر ہوتی ہے جو کسی چیز کے ہونے کی خبر دے، نہ کہ اس شخص کی جو کسی چیز کے نہ ہونے کی خبر دیتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبری دی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز کسوف میں) جہری قراء ت کی ہے۔ لہٰذا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خبر کو قبول کرنا واجب ہے۔ کیونکہ اُنہوں نے جہری قراءت کو یاد رکھا ہے اگر چہ ان کے علاوہ راویوں نے اسے یاد نہیں رکھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور صف میں کھڑے ہوں لہٰذا اُن کا یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، اس کا مطلب ہے کہ مجھے آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں کہ عرب لوگ کہتے ہیں۔ کہ یہ کام نہیں ہوا یعنی اس کام کے ہونے کا علم نہیں ہوسکا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نمازپڑھائی، پھر مکمّل حدیث بیان کی۔ آخر میں یہ الفاظ روایت کیے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”بیشک سورج اور چاند کو کسی شخص کی موت وحیا سے گرہن نہیں لگتا، لیکن وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ لہٰذا جب تم گرہن لگا دیکھو تو نماز کی طرف دوڑو۔ امام زہری فرماتے ہیں کہ اس میں ہشام نے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ ”جب تم گرہن لگا دیکھو تو صدقہ خیرات کرو اور نماز پڑھو۔“
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں سورج گرہن لگا۔ پھر طویل حدیث بیان کی اور فرمایا: ”لہٰذا جب تم گرہن لگا دیکھو تو نماز کی طرف لپکو، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو اور صدقہ وخیرات کرو۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سورج کو اس دن گرہن لگ گیا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ تو لوگوں نے سمجھا کہ سورج گرہن اُن کی موت کی وجہ سے لگا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (خطاب کے لئے) کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”لوگو، سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں کسی شخص کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا، لہٰذا جب تم گرہن لگا دیکھو تو نماز پڑھنے میں جلدی کرو، اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف لپکو، دعا کیا کرو اور صدقہ و خیرات کیا کرو۔“
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حُکم دیا۔ امام صاحب جناب دراوردی کی سند سے بیان کرتے ہیں، اس میں الفاظ یہ ہیں کہ آپ نے سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حُکم دیا۔
فإني لا اخال ابا قلابة سمع من النعمان بن بشير، ولا اقف القبيصة البجلي صحبة ام لا؟فَإِنِّي لَا أَخَالُ أَبَا قِلَابَةَ سَمِعَ مِنَ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، وَلَا أَقِفُ أَلِقَبِيصَةَ الْبَجَلِيِّ صُحْبَةٌ أَمْ لَا؟
بشر طیکہ اس سلسلے میں مروی حدیث صحیح ہو، کیونکہ میرا خیال نہیں کہ جناب ابوقلابہ نے سیدنا نعمان بن بشر رضی اللہ عنہ سے سنا ہو اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ حضرت قبیصہ صحابی ہیں یا نہیں۔
حضرت قبیصہ بجلی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سورج کو گرہن لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات ادا کیں حتّیٰ کہ سورج روشن ہو گیا، پھر فرمایا: ”بلاشبہ سورج اور چاند کو کسی شخص کی موت کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے دو مخلوقات ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جو تبدیلی چاہتا ہے کرلیتا ہے پھر اللہ تعالیٰ جب اپنی مخلوق میں سے کسی چیز کے لئے تجلی فرماتے ہیں تو وہ عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتی ہے۔ لہٰذا سورج اور چاند میں سے جسے بھی گرہن لگے تو ان کے روشن ہونے تک نماز پڑھو، یا اللہ تعالیٰ اس کے لئے کوئی نیا حُکم لے آئے۔“
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج گرہن لگا پھر راوی نے مکمّل حدیث بیان کی۔ اور یہ الفاظ بیان کیے ”پھر جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں کسی چیز کے لئے تجلی فرماتے ہیں تو وہ چیز اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی کا اظہار کرتی ہے۔“