وقد كنت بينت في كتاب معاني القرآن، ان قوله تعالى: فاقمت لهم الصلاة. تحمل معنيين: اي صليت لهم، والمعنى الثاني اي امرت بإقامة الصلاة لاجتماع الناس للصلاة، واعلمت ان هذا على هذا المعنى من الجنس الذي اعلمنا في غير موضع من كتبنا: ان العرب تضيف الفعل إلى الامر، كما تضيفه إلى الفاعل، فإذا امر الإمام المؤذن بالإقامة جاز ان يقال: اقام الصلاة إذ هو الآمر بها، فاقيم بامره وَقَدْ كُنْتُ بَيَّنْتُ فِي كِتَابِ مَعَانِي الْقُرْآنِ، أَنَّ قَوْلَهُ تَعَالَى: فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ. تَحْمِلُ مَعْنَيَيْنِ: أَيْ صَلَّيْتَ لَهُمْ، وَالْمَعْنَى الثَّانِي أَيْ أَمَرْتَ بِإِقَامَةِ الصَّلَاةِ لِاجْتِمَاعِ النَّاسِ لِلصَّلَاةِ، وَأَعْلَمْتُ أَنَّ هَذَا عَلَى هَذَا الْمَعْنَى مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْنَا فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا: أَنَّ الْعَرَبَ تُضِيفُ الْفِعْلَ إِلَى الْأَمْرِ، كَمَا تُضِيفُهُ إِلَى الْفَاعِلِ، فَإِذَا أَمَرَ الْإِمَامُ الْمُؤَذِّنَ بِالْإِقَامَةِ جَازَ أَنْ يُقَالَ: أَقَامَ الصَّلَاةَ إِذْ هُوَ الْآمِرُ بِهَا، فَأُقِيمَ بِأَمْرِهِ
میں کتاب معانی القرآن میں بیان کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان: «فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ» [ سورة النساء: 102 ]”آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) انہیں نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوں“ کے دو معنی ہو سکتے ہیں
ي صليت لهم، والمعنى الثاني اي امرت بإقامة الصلاة لاجتماع الناس للصلاة، واعلمت ان هذا على هذا المعنى من الجنس الذي اعلمنا في غير موضع من كتبنا: ان العرب تضيف الفعل إلى الامر، كما تضيفه إلى الفاعل، فإذا امر الإمام المؤذن بالإقامة جاز ان يقال: اقام الصلاة إذ هو الآمر بها، فاقيم بامره يْ صَلَّيْتَ لَهُمْ، وَالْمَعْنَى الثَّانِي أَيْ أَمَرْتَ بِإِقَامَةِ الصَّلَاةِ لِاجْتِمَاعِ النَّاسِ لِلصَّلَاةِ، وَأَعْلَمْتُ أَنَّ هَذَا عَلَى هَذَا الْمَعْنَى مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْنَا فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا: أَنَّ الْعَرَبَ تُضِيفُ الْفِعْلَ إِلَى الْأَمْرِ، كَمَا تُضِيفُهُ إِلَى الْفَاعِلِ، فَإِذَا أَمَرَ الْإِمَامُ الْمُؤَذِّنَ بِالْإِقَامَةِ جَازَ أَنْ يُقَالَ: أَقَامَ الصَّلَاةَ إِذْ هُوَ الْآمِرُ بِهَا، فَأُقِيمَ بِأَمْرِهِ
جنا ب یزید الفقیر بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، جبکہ اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا سفر میں دو رکعت نماز قصر ہے؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ بیشک سفر میں دو رکعات نماز قصر نہیں ہے، بلکہ قصر نماز تو جنگ کے وقت ایک رکعت ادا کرنا ہے۔ پھر فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے نماز کی اقامت کہی گئی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ کے پیچھے ایک گروہ کھڑا ہوگیا۔ اور ایک گروہ دشمن کے سامنے صف آراء تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے کھڑے گروہ کو ایک رکعت دو سجدوں کے ساتھ پڑھائی۔ پھر وہ چلے گئے۔ اور اُن کی جگہ پر کھڑے ہو گئے جو دشمن کے سامنے کھڑے تھے پھر وہ گروہ آگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی ایک رکعت اور دو سجدے ادا کرائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو آپ کے پیچھے کھڑے ہونے والوں نے بھی سلام پھیر دیا اور (دشمن کے سامنے کھڑے) گروہ نے بھی سلام پھیرلیا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان کہ سفر میں دو رکعات نماز قصر نہیں۔ ان سے آپ کی مراد یہ ہے کہ وہ دو رکعات مسافر کی نماز قصر نہیں ہے (بلکہ مسافر کی مکمّل نماز ہے)۔
جناب سلیم بن عبدالسلوالی بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدنا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ طبرستان میں تھے اور اُن کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ کرام بھی موجود تھے۔ اُنہوں نے دیگر صحابہ سے پو چھا، آپ میں سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف پڑھی ہے؟ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے، پھر نماز خوف کا طریقہ بتا تے ہوئے کہا کہ اپنے ساتھیوں کو حُکم دیں کہ وہ دو گرہوں میں کھڑے ہو جائیں ایک گروہ دشمن کے سامنے صف آراء ہو جائے اور دوسرا گروہ آپ کے پیچھے صف بنالے۔ پھر تم تکبیر کہو تو وہ سب بھی تکبیر کہہ کر نماز شروع کر دیں۔ پھر تم رکوع کرو تو وہ بھی رکوع کریں، پھر تم سر اُٹھاؤ تو وہ سب بھی سراُٹھائیں پھر تم سجدہ کرو تو تمہارے قریب والا گروہ سجدہ کرلے۔ اور دوسرا وہ دشمن کے سامنے کھڑا رہے۔ پھر جب سجدے سے سر اُٹھا لو تو تمہارے قریب والے لوگ کھڑے ہو جائیں اور دوسرے گروہ والے سجدہ کرلیں۔ پھر تم رکوع کرو تو وہ سب بھی رکوع کرلیں۔ پھر تم سجدے کروتو تمہارے قریب والا گروہ بھی سجدے کرلے جبکہ دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہے۔ پھر جب تم اپنا سر سجدوں سے اُٹھا لو تو دشمن کے سامنے کھڑے ہونے والے سجدہ کرلیں، پھر تم اُن کے ساتھ مل کر سلام پھیر دو، اور تم اپنے ساتھیوں کو حُکم دو کہ اگر اُن پر زوردار حملہ ہو جائے تو اُن کے لئے جنگ کرنا اور بات چیت کرنا حلال ہو جائے گا۔
قال الله عز وجل: فإن خفتم فرجالا او ركبانا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: «فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا» [ سورة البقرة: 239 ]”پھر اگر تم خوف کی حالت میں ہوتو پیدل یا سوار ہی (نماز پڑھ لو)“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب اُن سے نماز خوف کے متعلق سوال کیا جاتا، تو وہ طویل حدیث بیان کرتے اور فرماتے کہ پھر اگر خوف اس سے بھی شدید ہو تو تم اپنے قدموں پر کھڑے کھڑے یا سوار ہوکر، قبلہ رُخ ہو کر یا قبلہ رُخ ہوئے بغیر ہی نماز پڑھ لو۔ جناب نافع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ امام مالک کے شاگردوں نے یہ روایت ان سے بیان کی تو انہوں نے کہا جناب نافع نے فرمایا، میرے خیال میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے بیان کرتے ہیں۔
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو نماز مغرب (نماز خوف کے طور پر) تین رکعات پڑھائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے، دوسرا گروہ آیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی تین رکعات پڑھائیں، اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چھ رکعات ہوگئیں اور صحابہ کرام کی تین تین رکعات ہوئیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت «إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَىٰ أَن تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ» [ سورة النساء: 102 ]”اگر تمہیں بارش کی وجہ سے تکلیف ہو یا تم بیمار ہو(ہتھیار اتار کر نماز پڑھ لو)“ اُس وقت نازل ہوئی جب سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ زخمی تھے۔