519. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں کجاوے کی پچھلی لکڑی کی لمبائی کے برابر سُترہ بنانے کا حُکم دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی لمبائی اور چوڑائی دونوں کے برابر سُترہ بنانے کا حُکم نہیں دیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر (کوئی چیز) سُترہ کے لئے کافی ہوگی اگر چہ بال کی طرح باریک ہو۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ مجھے خدشہ ہے کہ اس روایت کو مرفوع بیان کرنے میں محمد بن قاسم کو وہم ہوا ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے اس بات کی پختہ دلیل ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سُترے کے لئے) کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر لمبائی مراد لی ہے، چوڑائی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان روایات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نیزہ گاڑا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے سُترہ بنا کر نماز پڑھتے تھے، اور نیزے کی چوڑائی کجاوے کی پچھلی لکڑی کی چوڑائی جیسی نہیں ہوتی ـ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عیدگاہ میں نیزے کو سُترہ بنا کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نماز میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیر کو سُترہ بنانے کے حُکم سے یہ بات واضح اور ثابت ہوگئی کہ کجاوے کی پچھلی لکڑی کو سُترہ بنانے کے حُکم سے آپ کی صلی اللہ علیہ وسلم مراد اس کی لمبائی ہے، نہ کہ اس کی لمبائی اور چوڑائی دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ہیں۔
جناب عبدالملک بن عبدالعزیز اپنے والد گرامی اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اپنی نمازوں میں سُترہ بناؤ اگرچہ ایک تیر ہی کے ساتھ ہو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اپنے سامنے کوئی چیز رکھ لے“ اور ایک مرتبہ فرمایا: ”اپنے چہرے کے سامنے کچھ رکھ لے پس اگر کوئی چیز نہ ملے تو چھڑی گاڑلے، اور اگر چھڑی بھی میسر نہ ہو تو ایک لکیر کھینچ لے، پھر اُسے اپنے آگے سے گزرنے والی کوئی چیز نقصان نہیں دے گی۔“ محمد بن منصور الجواز نے یہ الفاظ بیان کئے کہ ” تو اسے اپنے چہرے کے سامنے کوئی چیز رکھ لینی چاہئے۔“ باقی روایت سابقہ روایت ہی کی طرح ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا، امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں، لیکن صحیح روایت وہ ہے جو بشربن مفضل نے بیان کی ہے، معمر اور ثوری نے بھی اسی طرح عمرو بن حریث سے روایت کی ہے لیکن ان دونوں نے عمرو بن حریث کے دادا کی بجائے اُن کے والد سے روایت بیان کی ہے۔
والدليل على ان الوقوف مدة طويلة انتظار سلام المصلي خير من المرور بين يدي المصليوَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْوُقُوفَ مُدَّةً طَوِيلَةً انْتِظَارَ سَلَامِ الْمُصَلِّي خَيْرٌ مِنَ الْمُرُورِ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ نمازی کے آگے سے گزرنے کی بجائے نمازی کے سلام پھیرنے کے انتظار میں طویل مدت کھڑے رہنا بہتر ہے۔
جناب بسر بن سعید بیان کرتے ہیں کہ زید بن خالد نے مجھے سیدنا ابوجہیم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ پُوچھنے کے لئے بھیجا کہ نمازی کے آگے گزرنے سے گزرنے والے شخص کو کیا گناہ ہوتا ہے؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ اگر وہ چالیس (سال یا دن) تک کھڑا رہے تو یہ اُس کے لئے نمازی کے آگے گزرنے سے بہتر ہے۔
امام صاحب اپنے دو اساتذہ کرام جناب احمد بن منیع اور محمد بن رافع کی سند سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول االلہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم میں سے کسی شخص کو اپنے بھائی کے آگے سے چوڑائی کے رخ میں گزرنے پر گناہ معلوم ہو جائے، جبکہ وہ اپنے رب سے مناجات کررہا ہو، تو اُسے ایک قدم بھی اُٹھانے سے سو سال تک اسی جگہ کھڑے رہنا زیادہ بہتر لگے۔“ یہ ابن منیع کی روایت ہے۔
إذا كان المصلي يصلي إلى سترة، وإباحة المرور بين يدي المصلي إذا صلى إلى غير سترةإِذَا كَانَ الْمُصَلِّي يُصَلِّي إِلَى سُتْرَةٍ، وَإِبَاحَةِ الْمُرُورِ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي إِذَا صَلَّى إِلَى غَيْرِ سُتْرَةٍ
اُس وقت ہے جب نمازی سُترہ رکھ کر نماز پڑھ رہا ہو۔ اور جب نمازی بغیر سُترہ کے نماز ادا کررہا ہو تو نمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے۔
سیدنا مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے طواف سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطاف کے کنارے پر تشریف لائے اور دو رکعت نماز پڑھی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی نہ تھا۔