سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم (سونے کے لیے) اپنے بستر پر آنے لگو تو نماز کے وضو جیسا وضو کرلو، پھر اپنی دائیں کروٹ پر لیٹو۔“ پھر بقیہ حدیث بیان کی۔ امام ابوبکر رحم اللہ فرماتے ہیں: حدیث کے یہ الفاظ «اِذَآ اَتَیْتَ مَضْجَعَکَ» اسی جنس سے ہے جسے ہم بیان کرتے ہیں کہ عرب لوگ کہتے ہیں «اذا فعلت كذا» ”جب تو اس طرح کرے“ انکی مراد یہ ہوتی ہے کہ جب تم اس کام کرنے کا ارادہ کرو۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ» [سورة المائدة ]”اے مومنو، جب تم نماز کے لئے اٹھو“ اور اس کا یہ معنی ہے کہ ”جب تم نماز کے لیے اٹھنے کا ارادہ کرو۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنبی شخص کے متعلق پوچھا گیا کہ کیا وہ کچھ کھا سکتا ہے یا وہ سو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ہاں) جب وہ نماز کے وضو جیسا وضو کرلے۔“
172. اس بات کی دلیل کا بیان کہ مستحب وضو کے بارے میں وہ تمام ابواب جنہیں میں نے ذکر کیا ہے ان سے وضو کا حکم ندب وارشاد اور فضیلت کے لیے ہے، فرض اور واجب نہیں ہے
قال ابو بكر، خبر ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إنما امرت بالوضوء إذا قمت إلى الصلاة» قَالَ أَبُو بَكْرٍ، خَبَرُ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّمَا أُمِرْتُ بِالْوُضُوءِ إِذَا قُمْتُ إِلَى الصَّلَاةِ»
امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بیشک مجھے وضو کرنے کا حُکم اُس وقت دیا گیا ہے کہ جب میں نماز کے لیے کھڑا ہوں۔“(یعنی اس کے علاوہ مذکورہ صورتوں میں وضو کرنا واجب نہیں ہے۔)
سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آئے، (اس سے ہمبستری کرے) پھر دوبارہ اراداہ کرے تو اُسے چاہيے کہ وہ وضو کرلے۔ يہ صنعانی کی حديث ہے۔ باقی راويوں نے ابومتوکل سے روايت کرتے وقت «سمعت» کی بجائے « عن» سے بيان کيا ہے۔
سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص دوبارہ (جماع کا) ارادہ کرے تو اُسے چاہیے کہ نماز کے وضو جیسا وضو کرلے، پھر غسل کرنے سے پہلے دوبارہ جماع کرلے۔“
إذ المتوضئ بعد الجماع يكون انشط للعودة إلى الجماع، لا ان الوضوء بين الجماعين واجب، ولا ان الجماع قبل الوضوء وبعد الجماع الاول محظور.إِذِ الْمُتَوَضِّئُ بَعْدَ الْجِمَاعِ يَكُونُ أَنْشَطُ لِلْعَوْدَةِ إِلَى الْجِمَاعِ، لَا أَنَّ الْوُضُوءَ بَيْنَ الْجِمَاعَيْنِ وَاجِبٌ، وَلَا أَنَّ الْجِمَاعَ قَبْلَ الْوُضُوءِ وَبَعْدَ الْجِمَاعِ الْأَوَّلِ مَحْظُورٌ.
کیونکہ جماع کرنے کے بعد وضو کرنے والا دوبارہ جماع کے لیے تازہ دم ہو جاتا ہے، اس لیے نہیں کہ دو مرتبہ جماع کے درمیان وضو کرنا واجب ہے اور نہ اس لیے کہ پہلے جماع کے بعد اور وضو کرنے سے پہلے (دوبارہ) جماع کرنا منع اور ناجائز ہے۔
سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم سے کوئی شخص دوبارہ جماع کا ارداہ کرے تو اُسے چاہیے کہ وضو کرلے کیونکہ وہ اُس کے لئے دوبارہ جماع کرنے میں چُستی اور مستعدی کا باعث ہو گا۔“
وان لا يطرى كما اطرت النصارى عيسى ابن مريم، إذا شهد له بالعبودية مع الشهادة له بالرسالة عند الفراغ من الوضوء.وَأَنْ لَا يُطْرَى كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، إِذَا شَهِدَ لَهُ بِالْعُبُودِيَّةِ مَعَ الشَّهَادَةِ لَهُ بِالرِّسَالَةِ عِنْدَ الْفَرَاغِ مِنَ الْوُضُوءِ.
اور یہ کہ وضو سے فارغ ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت ورسالت کی گواہی دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں غلو نہ کیا جائے جیسا کہ عیسائیوں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی شان میں کیا ہے۔