سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ موزوں پر مسح کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ میں نے دونوں پاؤں کو طہارت کی حالت میں (موزوں میں) داخل کیا ہے۔“
حضرت عبد الرحمان بن ابی بکرہ اپنے والد محترم سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات کی رخصت دی ہے کہ جب وہ وضو کرکے موزے پہنے تو اُن پر مسح کرلے۔
148. اس بات کی دلیل کا بیان کہ دونوں پاؤں دھونے سے پہلے ایک موزہ پہننے والا شخص جب دوسرا موزہ پاؤں دھونے کے بعد پہنے تو وضو ٹو ٹنے کے بعد اس کے لیے موزوں پر مسح کرنا جائز نہیں ہے
إذ هو لابس احد الخفين قبل كمال الطهارة، والنبي صلى الله عليه وسلم إنما رخص في المسح على الخفين إذا لبسهما على طهارة، ومن ذكرنا في هذا الباب صفته هو لابس احد الخفين على غير طهر، إذ هو غاسل إحدى الرجلين لا كلتيهما عند لبسه احد الخفين.إِذْ هُوَ لَابِسٌ أَحَدَ الْخُفَّيْنِ قَبْلَ كَمَالِ الطَّهَارَةِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا رَخَّصَ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ إِذَا لَبِسَهُمَا عَلَى طَهَارَةٍ، وَمَنْ ذَكَرْنَا فِي هَذَا الْبَابِ صِفَتَهُ هُوَ لَابِسٌ أَحَدَ الْخُفَّيْنِ عَلَى غَيْرِ طُهْرٍ، إِذْ هُوَ غَاسِلٌ إِحْدَى الرِّجْلَيْنِ لَا كِلْتَيْهِمَا عِنْدَ لُبْسِهِ أَحَدَ الْخُفَّيْنِ.
کیونکہ اس نے ایک موزه طہارت مکمل ہونے سے پہلے پہنا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت موزوں پر مسح کرنے کی رُخصت دی ہے جب اُس نے انہیں طہارت کی حالت میں پہنا ہو، اس باب میں ہم نے جس شخص کی حالت بیان کی ہے وہ بغیر وضو (مکمّل کیے) ایک موزہ پہننے والا شخص ہے کیونکہ اُس نے ایک موزہ پہنتے وقت ایک پاؤں دھویا ہے دونوں پاؤں نہیں دھوئے۔
حضرت زربن حبیش رحمه اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا کہ کیسے آئے ہو؟ میں نے عرض کی کہ علم حاصل کرنے کےلیے حاضر ہوا ہوں۔ اُنہوں نے فرمایا کہ بیشک میں نے رسول اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے، ”جو شخص بھی حصول علم کے لیے اپنے گھر سے نکلتا ہے تو فرشتے اُس کی طلب و جستجو پر رضا مندی اور پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اُس کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔“ میں نے عرض کی کہ میں آپ سے موزوں پر مسح کے متعلق پوچھنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ اُنہوں نے فرمایا کہ ہاں، ہم اس لشکر میں شامل تھے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (غزوے کے لیے) بھیجا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دیا کہ ہم اپنے موزوں پر مسح کرلیں، جبکہ اُنہیں طہارت کی حالت میں پہنا ہو، تین (دن رات) جب ہم سفر میں ہوں اور ایک رات (دن) جب ہم مقیم ہوں۔ اور ہم اُنہیں پیشاب پاخانے کی وجہ سے نہ اتار دیں، صرف (غسل) جنابت کی وجہ سے اُنہیں اتاریں، اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، بیشک مغرب کی جانب توبہ کے لیے ایک دروازہ کھلا ہوا ہے جس کی مسافت ستّر سال ہے وہ (دروازہ) بند نہیں ہوگا، حتیٰ کہ سورج مغرب کی جانب سے، دروازے کی جہت میں طلوع ہوجائے گا۔ اما م ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے عبدالرزاق کی حدیث امام مزنی کو بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے اصحاب نے یہ حدیث روایت کی ہے کیونکہ امام شافعی رحمه اللہ کی اس سے قوی دلیل اور کوئی نہیں ہے۔
حضرت شریح بن هانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے موزوں پر مسح کے متعلق پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور اُن سے پوچھو کیونکہ وہ اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ (حضرت شریح) سیدنا علی رضی اللہ عنہ اُن کے پاس گئے اور اُن سے موزوں پر مسح کرنے کے متعلق پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسح کرنے کا حُکم دیا کرتے تھے کہ مقیم شخص ایک دن رات اور مسافر تین دن رات مسح کرلے۔
ان المسح يقوم مقام غسل القدمين، إذا كان القدم باديا غير مغطى بالخف، وإن خالع الخف وإن كان لبسه على طهارة، إذا غسل قدميه كان مؤديا للفرض غير عاص، إلا ان يكون تاركا للمسح رغبة عن سنة النبي صلى الله عليه وسلم.أَنَّ الْمَسْحَ يَقُومُ مَقَامَ غَسْلِ الْقَدَمَيْنِ، إِذَا كَانَ الْقَدَمُ بَادِيًا غَيْرَ مُغَطًّى بِالْخُفِّ، وَإِنَّ خَالِعَ الْخُفِّ وَإِنْ كَانَ لَبِسَهُ عَلَى طَهَارَةٍ، إِذَا غَسَلَ قَدَمَيْهِ كَانَ مُؤَدِّيًا لِلْفَرْضِ غَيْرَ عَاصٍ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ تَارِكًا لِلْمَسْحِ رَغْبَةً عَنْ سُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مسح دونوں قدم دھونے کے قائم مقام ہوگا جبکہ قدم کُھلے ہوئے ہوں اور موزوں سے ڈھانپے ہوئے نہ ہوں، اور اگر وہ موزه اتار دے، اگرچہ اس نے طہارت کی حالت میں پہنا ہو، تو جب وہ دونوں پاؤں دھولے گا تو وہ فرض ادا کرے گا، وہ گناہ گار نہیں ہوگا، سوائے اس کے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت سے بے رغبتی کرتے ہوئے مسح نہ کرے (تو پھر گناہ گار ہوگا۔)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کرنے کی رخصت دی ہے، مسافر کے لئے تین دن (رات) اور مقیم کے لئے ایک دن رات۔
حضرت زر بن حبیش رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُن سے موزوں پر مسح کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دیا کہ ہم سفر میں تین دن (رات) تک اپنے موزے نہ اُتاریں مگر (غسل) جنابت کی وجہ سے (اُتارنے ہوں گے) لیکن پاخانے، پیشاب اور نیند کی وجہ سے اتارنے کی ضرورت نہیں۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جُرابوں اور جُوتوں پر مسح کیا۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوعاصم کی روایت میں «والنعلين» ”اور جُوتوں پر“ کے الفاظ نہیں ہیں۔ اُنہوں نے صرف یہ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جُرابوں پرمسح کیا۔ ابورافع کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کیا تو وضو کیا اور جُرابوں اور جُوتوں پر مسح کیا۔