سیدنا عویم بن ساعدہ انصاری عجلانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبا والوں سے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے طہارت کے بارے میں تمہاری بڑی اچھی تعریف کی ہے۔“ پھر یہ آیت تلاوت کی «فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُوا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ» [ سورة التوبة ]”اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”وہ کیسی طہارت ہے؟ (کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے تمہاری اتنی تعریف کی ہے)“ انہوں نے عرض کیا کہ ہمیں کسی چیز کا علم نہیں سوائے اس کے کچھ یہودی ہمارے ہمسائے تھے جو قضائے حاجت سے اپنی پُشتوں کو دھوتے تھے تو ہم نے بھی (استنجا کرتے وقت پنی پُشتوں کو) دھونا شروع کردیا جیسے وہ دھوتے تھے۔
تخریج الحدیث: «اسناده حسن: مسند احمد: 422/3، والحاكم: 258/1، والطبراني فى الكبير: 140/17، وفي الاوسط: 89/6، فى الصغير: 86/2، مجمع الزوائد: 212/1»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے باہر نکلتے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی لے کر آتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے استنجا کرتے اور اپنی پُشت دھوتے۔
تخریج الحدیث: «صحيح البخاري: كتاب الوضوء، باب ماجاء فى غسل البول: 217، 150، صحيح مسلم: كتاب الطهارة، باب الاستنجاء بالماء من التبريز: 271، مسند احمد: 112/3، 171، 284، والدارمي: 675»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لئے جاتے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک چھڑی اور پانی کا برتن لے کر جاتا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (فراغت کے بعد) نکلتے تو پانی سے استنجا کرتے اور پانی کے برتن سے وضو کرتے۔
سیدنا ابو معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے جاتے تو میں اور ایک لڑکا پانی کا برتن لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جاتے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ابو معاذ عطاء بن ابی میمونہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح البخاري: كتاب الوضوء، باب من حمل معه الماء لظهوره: 151، صحيح مسلم: كتاب الطهارة، باب الاستنجاء بالماء من التبرز: 271، سنن النسائي: 45، مسند احمد: 112/3، 284، سنن الدارمي: 675»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلا میں داخل ہوتے تو میں اور میرے جیسا ایک اور لڑکا پانی کا برتن اُٹھا کر لے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی سے استنجا کرتے۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: كتاب الوضوء: 150، صحيح مسلم: كتاب الطهارة: باب الاستنجاء بالماء من التبرز: 271، سنن النسائي: 45، مسند احمد: 171/3 203، 259، 284، والدارمي: 675»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس کام فطرت سے ہیں، مونچھیں کاٹنا، ناک میں پانی ڈالنا، اور (اُسے صاف کرنا)، مسواک کرنا، داڑھی بڑھانا، بغلوں کے بال اکھیڑنا، زیر ناف بال صاف کرنا، استنجا کرنا، (یا وضو کے بعد شرم گا کو چھینٹے مارنا) ناخن تراشنا اور اُنگلیوں کے جوڑ دھونا۔“ عبدہ اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ دسویں کام کا مجھے علم نہیں کہ وہ کیا ہے، مگر یہ کہ کُلّی کرنا ہو۔ وکیع کی روایت میں ہے کہ مصعب نے کہا کہ میں دسواں کام بھول گیا ہوں، ممکن ہے کلی کرنا ہو۔ وکیع فرماتے ہیں: «اِنتقَاصُ الْمَاءَ» ”پانی کا کم ہونا“ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اپنی شرم گاہ کو پانی سے چھینٹے مارے گا تو پیشاب کے قطرے نکلنے بند ہو جائیں گے۔ (امام صاحب فرماتے ہیں) ابن رافع اور سفیان نے دسواں کام ذکر نہیں کیا اور نہ شک کرتے ہوئے دسواں کام بیان کیا ہے۔
حضرت ابراہیم جریر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جھاڑی میں داخل ہوئے اور قضائے حاجت کی، تو سیدنا جریر رضی الله عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی کا برتن لے کر حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی سے استنجا کیا، وہ کہتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مٹی سے ملا۔
تخریج الحدیث: «اسناده حسن: سنن ابن ماجة: كتاب الطهارة: باب من ذلك يده بالارض بعد الاستنجاء: رقم الحديث: 359، النسائي: كتاب الطهارة: باب ذلك اليد بالأرض بعد الاستنجاء: رقم: 51، و ابن ماجه: رقم: 356»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیںکہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا تو میں نے اُنہیں فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء سے باہر نکلتے تو کہتے «غُفْرَانَكَ» ”اے اللہ، تجھ سے بخشش ما نگتا ہوں۔“(اما م صاحب فرماتے ہیں) ہمیں محمد بن اسلم نے عبید اللہ بن مو سیٰ سے اور اُنہوں نے اسرائیل سے اسی طرح روایت بیان کی۔
تخریج الحدیث: «اسناده حسن: صحيح ابي داود: 22، ارواء الغليل: 52، سنن ترمذي: كتاب الطهارة: باب ما قيل اذا خرج من الخلاء: 7، سنن ابي داوٗد: 30، سنن ابن ماجة: 300، وابن حبان الأحسان رقم: 1441، والحاكم: 185/1، ووافقه الذهبي»