وحدثني، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن صفوان بن عبد الله بن صفوان ، ان صفوان بن امية، قيل له: إنه من لم يهاجر هلك. فقدم صفوان بن امية المدينة فنام في المسجد وتوسد رداءه، فجاء سارق فاخذ رداءه، فاخذ صفوان السارق فجاء به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اسرقت رداء هذا؟" قال: نعم. فامر به رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تقطع يده". فقال له صفوان: إني لم ارد هذا يا رسول الله، هو عليه صدقة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فهلا قبل ان تاتيني به" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ ، أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ، قِيلَ لَهُ: إِنَّهُ مَنْ لَمْ يُهَاجِرْ هَلَكَ. فَقَدِمَ صَفْوَانُ بْنُ أُمَيَّةَ الْمَدِينَةَ فَنَامَ فِي الْمَسْجِدِ وَتَوَسَّدَ رِدَاءَهُ، فَجَاءَ سَارِقٌ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ، فَأَخَذَ صَفْوَانُ السَّارِقَ فَجَاءَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَسَرَقْتَ رِدَاءَ هَذَا؟" قَالَ: نَعَم. فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُقْطَعَ يَدُهُ". فَقَالَ لَهُ صَفْوَانُ: إِنِّي لَمْ أُرِدْ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، هُوَ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَهَلَّا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ"
حضرت صفوان بن عبداللہ بن صفوان سے روایت ہے کہ صفوان بن امیہ سے کسی نے کہا کہ جس نے ہجرت نہیں کی تو وہ تباہ ہوا، تو صفوان مدینہ میں آئے اور مسجد نبوی میں اپنی چادر سر کے تلے رکھ کر سو رہے، چور آیا اور چادر ان کی لے گیا، صفوان نے اٹھ کر چور کو گرفتار کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چور سے پوچھا: ”کیا تو نے صفوان کی چادر چرائی؟“ وہ بولا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم کیا۔ صفوان نے کہا: میری نیت یہ نہ تھی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ چادر تو اس پر صدقہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھ کو یہ امر میرے پاس لانے سے پہلے کرنا تھا۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 4394، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8241، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4885، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2595، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2352، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17311، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15379، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 28»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن ، ان الزبير بن العوام لقي رجلا قد اخذ سارقا وهو يريد ان يذهب به إلى السلطان، فشفع له الزبير ليرسله، فقال: لا، حتى ابلغ به السلطان. فقال الزبير :" إذا بلغت به السلطان، فلعن الله الشافع والمشفع" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ لَقِيَ رَجُلًا قَدْ أَخَذَ سَارِقًا وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِهِ إِلَى السُّلْطَانِ، فَشَفَعَ لَهُ الزُّبَيْرُ لِيُرْسِلَهُ، فَقَالَ: لَا، حَتَّى أَبْلُغَ بِهِ السُّلْطَانَ. فَقَالَ الزُّبَيْرُ :" إِذَا بَلَغْتَ بِهِ السُّلْطَانَ، فَلَعَنَ اللَّهُ الشَّافِعَ وَالْمُشَفِّعَ"
حضرت ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ چور کو پکڑے ہوئے حاکم کے پاس لئے جاتا تھا۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے سفارش کی، کہا: چھوڑ دے، وہ بولا: کبھی نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ حاکم کے پاس نہ لے جاؤں گا۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب تو حاکم کے پاس لے گیا تو اللہ کی لعنت سفارش کرنے والے پر اور سفارش ماننے والے پر۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17697، 17698، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3467، 3468، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18927، 18928، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 28657، 28658، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2284، والطبراني فى «الصغير» برقم: 158، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 29»
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن ابيه ، ان رجلا من اهل اليمن اقطع اليد والرجل، قدم فنزل على ابي بكر الصديق، فشكا إليه ان عامل اليمن قد ظلمه، فكان يصل من الليل، فيقول ابو بكر:" وابيك، ما ليلك بليل سارق". ثم إنهم فقدوا عقدا لاسماء بنت عميس امراة ابي بكر الصديق، فجعل الرجل يطوف معهم، ويقول: اللهم عليك بمن بيت اهل هذا البيت الصالح. فوجدوا الحلي عند صائغ زعم ان الاقطع جاءه به، فاعترف به الاقطع او شهد عليه به، فامر به ابو بكر الصديق فقطعت يده اليسرى. وقال ابو بكر :" والله لدعاؤه على نفسه اشد عندي عليه من سرقته" . حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ أَقْطَعَ الْيَدِ وَالرِّجْلِ، قَدِمَ فَنَزَلَ عَلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، فَشَكَا إِلَيْهِ أَنَّ عَامِلَ الْيَمَنِ قَدْ ظَلَمَهُ، فَكَانَ يُصَلِّ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَقُولُ أَبُو بَكْرٍ:" وَأَبِيكَ، مَا لَيْلُكَ بِلَيْلِ سَارِقٍ". ثُمَّ إِنَّهُمْ فَقَدُوا عِقْدًا لِأَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ امْرَأَةِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَطُوفُ مَعَهُمْ، وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِمَنْ بَيَّتَ أَهْلَ هَذَا الْبَيْتِ الصَّالِحِ. فَوَجَدُوا الْحُلِيَّ عِنْدَ صَائِغٍ زَعَمَ أَنَّ الْأَقْطَعَ جَاءَهُ بِهِ، فَاعْتَرَفَ بِهِ الْأَقْطَعُ أَوْ شُهِدَ عَلَيْهِ بِهِ، فَأَمَرَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ فَقُطِعَتْ يَدُهُ الْيُسْرَى. وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ :" وَاللَّهِ لَدُعَاؤُهُ عَلَى نَفْسِهِ أَشَدُّ عِنْدِي عَلَيْهِ مِنْ سَرِقَتِهِ" .
حضرت قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن کا رہنے والا ہاتھ پاؤں کٹا ہوا (یعنی داہنا ہاتھ اور بایاں پاؤں کٹا ہوا، دو بار اس نے چوری کی ہوگی) مدینہ میں آیا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس اُتر کر بولا کہ یمن کے حاکم نے مجھ پر ظلم کیا اور وہ راتوں کو نماز پڑھتا تھا (یعنی شب بیداری کرتا تھا)۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قسم تیرے باپ کی! تیری رات چوروں کی رات نہیں ہے۔ اتفاقاً ایک ہار سیدہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بی بی کا گم ہو گیا، لوگوں کے ساتھ وہ لنگڑا بھی ڈھونڈتا پھرتا تھا، اور کہتا تھا کہ اے پروردگار! تباہ کر اس کو جس نے ایسے نیک گھر والوں کے ہاں چوری کی، پھر وہ ہار ایک سنار کے پاس ملا، سنار بولا: مجھے اس لنگڑے نے دیا ہے، اس لنگڑے نے اقرار کیا یا گواہی سے ثابت ہوا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حکم کیا تو اس کا بایاں ہاتھ کاٹا گیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! مجھے اس کی بدعا جو اپنے اوپر کرتا تھا، چوری سے زیادہ سخت معلوم ہوئی۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17263، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 3287، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18769، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 28256، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3368، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 30»
قال يحيى: قال مالك: الامر عندنا في الذي يسرق مرارا ثم يستعدى عليه، إنه ليس عليه إلا ان تقطع يده، لجميع من سرق منه إذا لم يكن اقيم عليه الحد، فإن كان قد اقيم عليه الحد قبل ذلك ثم سرق ما يجب فيه القطع، قطع ايضاقَالَ يَحْيَى: قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي الَّذِي يَسْرِقُ مِرَارًا ثُمَّ يُسْتَعْدَى عَلَيْهِ، إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْهِ إِلَّا أَنْ تُقْطَعَ يَدُهُ، لِجَمِيعِ مَنْ سَرَقَ مِنْهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ، فَإِنْ كَانَ قَدْ أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ قَبْلَ ذَلِكَ ثُمَّ سَرَقَ مَا يَجِبُ فِيهِ الْقَطْعُ، قُطِعَ أَيْضًا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص نے کئی بار چوری کی، بعد اس کے گرفتار ہوا تو سب چوریوں کے بدلے میں صرف اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا جب اس کا ہاتھ نہ کٹا ہو، اور جو ہاتھ کٹنے کے بعد اس نے چوری کی چوتھائی دینار کے موافق، تو بایاں پاؤں کاٹا جائے گا۔
وحدثني، عن مالك، ان ابا الزناد اخبره، ان عاملا لعمر بن عبد العزيز اخذ ناسا في حرابة ولم يقتلوا احدا، فاراد ان يقطع ايديهم او يقتل. فكتب إلى عمر بن عبد العزيز في ذلك، فكتب إليه عمر بن عبد العزيز : " لو اخذت بايسر ذلك" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّ أَبَا الزِّنَادِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَامِلًا لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَخَذَ نَاسًا فِي حِرَابَةٍ وَلَمْ يَقْتُلُوا أَحَدًا، فَأَرَادَ أَنْ يَقْطَعَ أَيْدِيَهُمْ أَوْ يَقْتُلَ. فَكَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فِي ذَلِكَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ : " لَوْ أَخَذْتَ بِأَيْسَرِ ذَلِكَ"
ابوالزناد سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کے ایک عامل نے چند آدمیوں کو ڈکیتی میں گرفتار کیا، پر انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا تھا، عامل نے چاہا کہ ان کے ہاتھ کاٹے یا ان کو قتل کرے (کیونکہ ڈاکہ زنوں یا رہزنوں کی سزا یا تو قتل ہے، یا سولی ہے، یا ہاتھ پاؤں کاٹنا، یا جلاوطنی ہے)۔ پھر عمر بن عبدالعزیز کو اس بارے میں لکھا، انہوں نے جواب میں لکھا کہ اگر تو آسان امر کو (یعنی جلا وطنی یا قید کو) اختیار کرے تو بہتر ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ جو شخص بازار کے اُن مالوں کو چرائے جن کو مالکوں نے کسی برتن میں محفوظ کر کے رکھا ہو، ملا کر ایک درسرے سے، چوتھائی دینار کے موافق چرائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، برابر ہے کہ مالک وہاں موجود ہو یا نہ ہو، رات کو ہو یا دن کو۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص چوتھائی دینار کے موافق مال چرائے، پھر مالِ مسروقہ مالک کے حوالے کردے تب بھی اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص نشے کی چیز پی چکا ہو اور اس کی بو آتی ہو اس کے منہ سے، لیکن اس کو نشہ نہ ہو تو پھر بھی حد ماریں گے، کیونکہ اس نے نشے کے واسطے پیا تھا، اگرچہ نشہ نہ ہوا ہو، ایسا ہی چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا اگرچہ وہ چیز مالک کو پھیر دے کیونکہ اس نے لے جانے کے واسطے چرایا تھا اگرچہ لے نہ گیا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کئی آدمی مل کر مال چرانے کے لیے ایک گھر میں گھسے، اور وہاں سے ایک صندوق یا لکڑی یا زیور سب ملا کر اٹھا لائے، اگر اس کی قیمت چوتھائی دینار ہو تو سب کا ہاتھ کاٹا جائے گا، اگر ہر ایک ان میں سے جدا جدا مال لے کر نکلا تو جس کا مال چوتھائی دینار تک پہنچے گا اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، اور جس کا اس سے کم ہوگا اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ اگر ایک گھر ہو، اس میں ایک ہی آدمی رہتا ہو، اب کوئی آدمی اس گھر میں سے کوئی شئے چرائے لیکن گھر سے باہر نہ لے جائے، (مگراسی گھر میں ایک کوٹھڑی سے دوسری کوٹھڑی میں رکھے یا صحن میں لائے) تو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا جب تک گھر سے باہر نہ لے جائے، البتہ اگر ایک گھر میں کئی کوٹھڑیاں الگ الگ ہوں اور ہر کوٹھڑی میں لوگ رہتے ہوں، اب کوئی شخص کوٹھڑی والے کا مال چرا کر کوٹھڑی سے باہر نکال لائے لیکن گھر سے باہر نہ نکالے تب بھی ہاتھ کاٹا جائے گا۔