امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص عمداً مارا گیا، اور گواہوں سے قتل ثابت ہوا، اور مقتول کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں، بیٹوں نے تو معاف کر دیا لیکن بیٹیوں نے معاف نہ کیا، تو بیٹیوں کے معاف نہ کرنے سے کچھ خلل واقع نہ ہوگا، بلکہ خون معاف ہوجائے گا، کیونکہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے ان کو اختیار نہیں ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ زخم کا قصاص نہ لیا جائے گا جب تک کہ وہ شخص اچھا نہ ہو لے، جب وہ اچھا جائے گا تو قصاص لیں گے، اب اگر جارح کا بھی زخم اچھا ہو کر مجروح کے مثل ہوگیا تو بہتر، نہیں تو اگر جارح کا زخم بڑھ گیا اور جارح اسی کی وجہ سے مر گیا تو مجروح پر کچھ تاوان نہ ہوگا، اگر جارح کا زخم بالکل اچھا ہوگیا اور مجروح کا ہاتھ شل ہوگیا یا اور کوئی نقص رہ گیا، تو پھر جارح سے قصاص نہ لیا جائے گا لیکن بقدر نقصان کے دیت اس سے وصول کی جائے گی۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے اپنی عورت کی آنکھ پھوڑ دی، یا اس کا ہاتھ توڑ ڈالا، یا اس کی انگلی کاٹ ڈالی قصداً، تو اس سے قصاص لیا جائے گا، البتہ اگر اپنی عورت کو تنبیہاً رسی یا کوڑے سے مارے اور بلا قصد کسی مقام پر لگ کر زخم ہو جائے، یا نقصان ہوجائے تو دیت لازم آئے گی قصاص نہ ہوگا۔
وحدثني يحيى، عن مالك انه بلغه، ان ابا بكر بن محمد بن عمرو بن حزم " اقاد من كسر الفخذ" وَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ أَبَا بَكْرِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ " أَقَادَ مِنْ كَسْرِ الْفَخِذِ"
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ ابوبکر بن حزم نے قصاص لیا ران توڑنے کا۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وانفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 43 - كِتَابُ الْعُقُولِ-ح: 15ق4»
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن ابي الزناد ، عن سليمان بن يسار ، ان سائبة اعتقه بعض الحجاج، فقتل ابن رجل من بني عائذ، فجاء العائذي ابو المقتول إلى عمر بن الخطاب يطلب دية ابنه، فقال عمر : " لا دية له"، فقال العائذي: ارايت لو قتله ابني؟ فقال عمر:" إذا تخرجون ديته"، فقال: هو إذا كالارقم إن يترك يلقم وإن يقتل ينقم حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّ سَائِبَةً أَعْتَقَهُ بَعْضُ الْحُجَّاجِ، فَقَتَلَ ابْنَ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَائِذٍ، فَجَاءَ الْعَائِذِيٌ أَبُو الْمَقْتُولِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَطْلُبُ دِيَةَ ابْنِهِ، فَقَالَ عُمَرُ : " لَا دِيَةَ لَهُ"، فَقَالَ الْعَائِذِيٌ: أَرَأَيْْتَ لَوْ قَتَلَهُ ابْنِي؟ فَقَال عُمَرُ:" إِذًا تُخْرِجُونَ دِيَتَهُ"، فَقَالَ: هُوَ إِذًا كَالْأرْقَمِ إِنْ يُتْرَكْ يَلْقَمْ وإِنْ يُقْتَلْ يَنْقَمْ
حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ایک سائبہ نے جس کو کسی حاجی نے آزاد کر دیا تھا، ایک شخص کے بیٹے کو جو بنی عائذ میں تھا، مار ڈالا۔ مقتول کا باپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے بیٹے کی دیت مانگنے آیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے لئے دیت نہیں ہے۔ وہ شخص بولا: اگر میرا بیٹا سائبہ کو مار ڈالتا تو تم کیا حکم کرتے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس وقت تم کو اس کی دیت ادا کرنی ہوتی۔ وہ شخص بولا: پھر تو سائبہ کیا ہے، ایک چتلا سانپ ہے، اگر چھوڑ دو تو ڈس لے اگر مارو تو بدلہ لے۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16201، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18425، فواد عبدالباقي نمبر: 43 - كِتَابُ الْعُقُولِ-ح: 16»