قال مالك: إذا ابتاع الرجل ثوبا وبه عيب من حرق او غيره قد علمه البائع. فشهد عليه بذلك. او اقر به. فاحدث فيه الذي ابتاعه حدثا من تقطيع ينقص ثمن الثوب. ثم علم المبتاع بالعيب. فهو رد على البائع. وليس على الذي ابتاعه غرم في تقطيعه إياه. قَالَ مَالِكٌ: إِذَا ابْتَاعَ الرَّجُلُ ثَوْبًا وَبِهِ عَيْبٌ مِنْ حَرْقٍ أَوْ غَيْرِهِ قَدْ عَلِمَهُ الْبَائِعُ. فَشُهِدَ عَلَيْهِ بِذَلِكَ. أَوْ أَقَرَّ بِهِ. فَأَحْدَثَ فِيهِ الَّذِي ابْتَاعَهُ حَدَثًا مِنْ تَقْطِيعٍ يُنَقِّصُ ثَمَنَ الثَّوْبِ. ثُمَّ عَلِمَ الْمُبْتَاعُ بِالْعَيْبِ. فَهُوَ رَدٌّ عَلَى الْبَائِعِ. وَلَيْسَ عَلَى الَّذِي ابْتَاعَهُ غُرْمٌ فِي تَقْطِيعِهِ إِيَّاهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص کپڑا خریدے اور اس میں عیب نکلے، مثلاً پھٹا ہوا ہو یا اور کچھ عیب بائع کے پاس کا ہو، گواہوں کی گواہی سے، یا بائع کے اقرار سے، اب مشتری نے اس کپڑے میں تصرف کیا، جیسے اس کو کتر بیونت کر ڈالا، جس سے کپڑے کی قیمت گھٹ گئی، پھر اس کو عیب معلوم ہوا تو وہ کپڑا بائع کو پھیر دے، اور کاٹنے کا ضمان مشتری پر نہ ہوگا۔
قال مالك: وإن ابتاع رجل ثوبا وبه عيب من حرق او عوار، فزعم الذي باعه انه لم يعلم بذلك. وقد قطع الثوب الذي ابتاعه. او صبغه. فالمبتاع بالخيار، إن شاء ان يوضع عنه قدر ما نقص الحرق او العوار من ثمن الثوب، ويمسك الثوب، فعل. وإن شاء ان يغرم ما نقص التقطيع او الصبغ من ثمن الثوب، ويرده، فعل. وهو في ذلك بالخيار. فإن كان المبتاع قد صبغ الثوب صبغا يزيد في ثمنه، فالمبتاع بالخيار. إن شاء ان يوضع عنه قدر ما نقص العيب من ثمن الثوب. وإن شاء ان يكون شريكا للذي باعه الثوب، فعل. وينظر كم ثمن الثوب وفيه الحرق او العوار. فإن كان ثمنه عشرة دراهم، وثمن ما زاد فيه الصبغ خمسة دراهم، كانا شريكين في الثوب لكل واحد منهما بقدر حصته. فعلى حساب هذا يكون ما زاد الصبغ في ثمن الثوب. قَالَ مَالِكٌ: وَإِنِ ابْتَاعَ رَجُلٌ ثَوْبًا وَبِهِ عَيْبٌ مِنْ حَرْقٍ أَوْ عَوَارٍ، فَزَعَمَ الَّذِي بَاعَهُ أَنَّهُ لَمْ يَعْلَمْ بِذَلِكَ. وَقَدْ قَطَعَ الثَّوْبَ الَّذِي ابْتَاعَهُ. أَوْ صَبَغَهُ. فَالْمُبْتَاعُ بِالْخِيَارِ، إِنْ شَاءَ أَنْ يُوضَعَ عَنْهُ قَدْرُ مَا نَقَصَ الْحَرْقُ أَوِ الْعَوَارُ مِنْ ثَمَنِ الثَّوْبِ، وَيُمْسِكُ الثَّوْبَ، فَعَلَ. وَإِنْ شَاءَ أَنْ يَغْرَمَ مَا نَقَصَ التَّقْطِيعُ أَوِ الصِّبْغُ مِنْ ثَمَنِ الثَّوْبِ، وَيَرُدُّهُ، فَعَلَ. وَهُوَ فِي ذَلِكَ بِالْخِيَارِ. فَإِنْ كَانَ الْمُبْتَاعُ قَدْ صَبَغَ الثَّوْبَ صِبْغًا يَزِيدُ فِي ثَمَنِهِ، فَالْمُبْتَاعُ بِالْخِيَارِ. إِنْ شَاءَ أَنْ يُوضَعَ عَنْهُ قَدْرُ مَا نَقَصَ الْعَيْبُ مِنْ ثَمَنِ الثَّوْبِ. وَإِنْ شَاءَ أَنْ يَكُونَ شَرِيكًا لِلَّذِي بَاعَهُ الثَّوْبَ، فَعَلَ. وَيُنْظَرُ كَمْ ثَمَنُ الثَّوْبِ وَفِيهِ الْحَرْقُ أَوِ الْعَوَارُ. فَإِنْ كَانَ ثَمَنُهُ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ، وَثَمَنُ مَا زَادَ فِيهِ الصِّبْغُ خَمْسَةَ دَرَاهِمَ، كَانَا شَرِيكَيْنِ فِي الثَّوْبِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِقَدْرِ حِصَّتِهِ. فَعَلَى حِسَابِ هَذَا يَكُونُ مَا زَادَ الصِّبْغُ فِي ثَمَنِ الثَّوْبِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے کپڑا خریدا اور اس میں عیب پایا، مثلاً پھٹا ہو یا چرا ہوا ہے، بائع نے کہا: مجھے اس عیب کی خبر نہ تھی، اور مشتری اس کپڑے کو کاٹ بیونت کر چکا ہے، یا رنگ چکا ہے، تو مشتری کو اختیار ہے چاہے کپڑا رکھ لے اور بائع سے عیب کے موافق نقصان مجرا لے، چاہے کپڑا پھیر دے اور جس قدر کاٹ بیونت یا رنگ سے کپڑے کی قیمت گھٹ گئی ہے اس قدر بائع کو مجرا دے، اگر مشتری نے اس پر وہ رنگ کیا ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت بڑھ گئی، تب بھی مشتری کو اختیار ہوگا چاہے عیب کا نقصان بائع سے وصول کر کے کپڑا رکھ لے، چاہے بائع کا شریک ہوجائے اس کپڑے میں۔ اب دیکھا جائے گا کہ اس کپڑے کی قیمت عیب کے لحاظ سے کتنی ہے، مثلاً دس درہم ہو اور مشتری کے رنگنے کی وجہ سے پندرہ درہم قیمت ہوگئی ہو تو بائع دو تہائی کا اور مشتری ایک تھائی کا اس کپڑے میں شریک ہوگا، جب وہ کپڑا بکے اس کی قیمت کو اسی حساب سے بانٹ لیں گے۔
حدثنا يحيى، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف ، وعن محمد بن النعمان بن بشير انهما حدثاه، عن النعمان بن بشير ، انه قال: إن اباه بشيرا اتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اكل ولدك نحلته مثل هذا؟" فقال: لا. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فارتجعه" حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ أَبَاهُ بَشِيرًا أَتَى بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا كَانَ لِي. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَهُ مِثْلَ هَذَا؟" فَقَالَ: لَا. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَارْتَجِعْهُ"
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے باپ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام ہبہ کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا سب بیٹوں کو تو نے ایسا ہی غلام دیا ہے؟“ بولا: نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رجوع کر ہبہ سے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2586، 2587، 2650، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1623، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5097، 5098، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3703، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5979، 6466، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3542، 3543، 3544، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1367، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2375، 2376، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12115، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18572، والحميدي فى «مسنده» برقم: 948، 951، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 39»
وحدثني وحدثني مالك، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: إن ابا بكر الصديق كان نحلها جاد عشرين وسقا من ماله بالغابة، فلما حضرته الوفاة، قال:" والله يا بنية، ما من الناس احد احب إلي غنى بعدي منك، ولا اعز علي فقرا بعدي منك، وإني كنت نحلتك جاد عشرين وسقا، فلو كنت جددتيه واحتزتيه كان لك، وإنما هو اليوم مال وارث، وإنما هما اخواك واختاك، فاقتسموه على كتاب الله". قالت عائشة: فقلت: يا ابت، والله لو كان كذا وكذا لتركته، إنما هي اسماء فمن الاخرى؟ فقال ابو بكر:" ذو بطن بنت خارجة اراها جارية" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ كَانَ نَحَلَهَا جَادَّ عِشْرِينَ وَسْقًا مِنْ مَالِهِ بِالْغَابَةِ، فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، قَالَ:" وَاللَّهِ يَا بُنَيَّةُ، مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَيَّ غِنًى بَعْدِي مِنْكِ، وَلَا أَعَزُّ عَلَيَّ فَقْرًا بَعْدِي مِنْكِ، وَإِنِّي كُنْتُ نَحَلْتُكِ جَادَّ عِشْرِينَ وَسْقًا، فَلَوْ كُنْتِ جَدَدْتِيهِ وَاحْتَزْتِيهِ كَانَ لَكِ، وَإِنَّمَا هُوَ الْيَوْمَ مَالُ وَارِثٍ، وَإِنَّمَا هُمَا أَخَوَاكِ وَأُخْتَاكِ، فَاقْتَسِمُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ". قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا أَبَتِ، وَاللَّهِ لَوْ كَانَ كَذَا وَكَذَا لَتَرَكْتُهُ، إِنَّمَا هِيَ أَسْمَاءُ فَمَنِ الْأُخْرَى؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:" ذُو بَطْنِ بِنْتِ خَارِجَةَ أُرَاهَا جَارِيَةً"
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے باپ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو ہبہ کئے تھے کھجور کے درخت، جن میں سے بیس وسق کھجور نکلتی تھی، اپنے باغ میں سے جو غابہ میں تھے (غابہ ایک موضع ہے شام کی راہ میں)۔ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہونے لگی، انہوں نے کہا: اے بیٹی! کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کا مالدار رہنا مجھے پسند ہو بعد اپنے تجھ سے زیادہ، اور نہ کسی آدمی کا مفلس رہنا نا پسند ہے مجھ کو بعد اپنے تجھ سے زیادہ، میں نے تجھے بیس وسق کھجور کے درخت ہبہ کیے تھے، اگر تو ان درختوں سے کھجور کاٹتی اور ان پر قبضہ کر لیتی تو وہ تیرا مال ہو جاتا، اب تو وہ سب وارثوں کا مال ہے، اور وارث کون ہیں، دو بھائی ہیں تمہارے (عبدالرحمٰن اور محمد) اور دو بہنیں ہیں، تو بانٹ لینا اس کو کتاب اللہ کے موافق۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے میرے باپ قسم اللہ کی! اگر بڑے سے بڑا مال ہوتا تو میں اس کو چھوڑ دیتی، لیکن میں حیران ہوں (ایک بہن تو میری اسماء ہے) اور دوسری بہن کون ہے؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ جو (حبیبہ) بنت خارجہ کے پیٹ میں ہے، میں اس کو لڑکی سمجھتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11948، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3761، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16507، 16508، 16512، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 20506، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 5844، 5845، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 40»
وحدثني وحدثني مالك، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عبد الرحمن بن عبد القاري ، ان عمر بن الخطاب ، قال: " ما بال رجال ينحلون ابناءهم نحلا ثم يمسكونها، فإن مات ابن احدهم، قال: ما لي بيدي لم اعطه احدا، وإن مات هو، قال: هو لابني قد كنت اعطيته إياه، من نحل نحلة فلم يحزها الذي نحلها حتى يكون إن مات لورثته فهي باطل" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ: " مَا بَالُ رِجَالٍ يَنْحَلُونَ أَبْنَاءَهُمْ نُحْلًا ثُمَّ يُمْسِكُونَهَا، فَإِنْ مَاتَ ابْنُ أَحَدِهِمْ، قَالَ: مَا لِي بِيَدِي لَمْ أُعْطِهِ أَحَدًا، وَإِنْ مَاتَ هُوَ، قَالَ: هُوَ لِابْنِي قَدْ كُنْتُ أَعْطَيْتُهُ إِيَّاهُ، مَنْ نَحَلَ نِحْلَةً فَلَمْ يَحُزْهَا الَّذِي نُحِلَهَا حَتَّى يَكُونَ إِنْ مَاتَ لِوَرَثَتِهِ فَهِيَ بَاطِلٌ"
حضرت عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا حال ہے لوگوں کا کہ ہبہ کرتے ہیں اپنے بیٹوں کو پھر روک لیتے ہیں، اگر بیٹا مر جاتا ہے تو کہتے ہیں: میرا مال میرے قبضے میں ہے کسی کو نہیں دیا، اگر باپ مر جاتا ہے تو کہہ جاتا ہے کہ وہ میرے بیٹے کا ہے اس کو میں ہبہ کر چکا ہوں، جو کوئی ہبہ کرے اور اس کو نافذ نہ کرے، یعنی موہوب لہُ اس پر قبضہ نہ کرے اس طرح سے کہ جب موہوب لہُ مرے تو وہ اس کے وارثوں کو ملے، تو وہ ہبہ باطل ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11949، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3782، 3784، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16509، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 20117، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 41»
قال مالك: الامر عندنا فيمن اعطى احدا عطية لا يريد ثوابها، فاشهد عليها. فإنها ثابتة للذي اعطيها. إلا ان يموت المعطي قبل ان يقبضها الذي اعطيها. قال: وإن اراد المعطي إمساكها بعد ان اشهد عليها. فليس ذلك له. إذا قام عليه بها صاحبها، اخذها. _x000D_قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِيمَنْ أَعْطَى أَحَدًا عَطِيَّةً لَا يُرِيدُ ثَوَابَهَا، فَأَشْهَدَ عَلَيْهَا. فَإِنَّهَا ثَابِتَةٌ لِلَّذِي أُعْطِيَهَا. إِلَّا أَنْ يَمُوتَ الْمُعْطِي قَبْلَ أَنْ يَقْبِضَهَا الَّذِي أُعْطِيَهَا. قَالَ: وَإِنْ أَرَادَ الْمُعْطِي إِمْسَاكَهَا بَعْدَ أَنْ أَشْهَدَ عَلَيْهَا. فَلَيْسَ ذَلِكَ لَهُ. إِذَا قَامَ عَلَيْهِ بِهَا صَاحِبُهَا، أَخَذَهَا. _x000D_
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص ثواب کے واسطے کسی کو کوئی شئے دے، اس کا عوض نہ چاہتا ہو اور لوگوں کو اس پر گواہ کر دے، تو وہ نافذ ہوجائے گا، مگر جب دینے والا مرجائے معطیٰ لہُ کے قبضے سے پہلے۔ اگر دینے والا یہ چاہے کہ بعد دینے کے اس کو رکھ چھوڑے تو یہ نہیں ہو سکتا، معطیٰ لہُ جب چاہے تو جبراً اس سے لے سکتا ہے۔
قال مالك: ومن اعطى عطية. ثم نكل الذي اعطاها. فجاء الذي اعطيها بشاهد يشهد له انه اعطاه ذلك. عرضا كان او ذهبا او ورقا او حيوانا. احلف الذي اعطي مع شهادة شاهده. فإن ابى الذي اعطي ان يحلف، حلف المعطي. وإن ابى ان يحلف ايضا، ادى إلى المعطى ما ادعى عليه. إذا كان له شاهد واحد. فإن لم يكن له شاهد، فلا شيء له. قَالَ مَالِكٌ: وَمَنْ أَعْطَى عَطِيَّةً. ثُمَّ نَكَلَ الَّذِي أَعْطَاهَا. فَجَاءَ الَّذِي أُعْطِيَهَا بِشَاهِدٍ يَشْهَدُ لَهُ أَنَّهُ أَعْطَاهُ ذَلِكَ. عَرْضًا كَانَ أَوْ ذَهَبًا أَوْ وَرِقًا أَوْ حَيَوَانًا. أُحْلِفَ الَّذِي أُعْطِيَ مَعَ شَهَادَةِ شَاهِدِهِ. فَإِنْ أَبَى الَّذِي أُعْطِيَ أَنْ يَحْلِفَ، حُلِّفَ الْمُعْطِي. وَإِنْ أَبَى أَنْ يَحْلِفَ أَيْضًا، أَدَّى إِلَى الْمُعْطَى مَا ادَّعَى عَلَيْهِ. إِذَا كَانَ لَهُ شَاهِدٌ وَاحِدٌ. فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَاهِدٌ، فَلَا شَيْءَ لَهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر زید نے عمرو کو ایک شئے اللہ واسطے دی، بعد اس کے زید مرگیا عمرو ایک گواہ لے کر آیا، تو عمرو کو قسم کھانی پڑے گی، اگر وہ قسم کھا لے گا تو ایک گواہی اور ایک قسم پر وہ شئے عمرو کو دلا دیں گے، اگر عمرو نےقسم سے انکار کیا تو زید سے قسم لیں گے، اگر زید نےقسم کھانے سے انکار کیا تو وہ شئے دینی پڑے گی، جب عمرو کے پاس ایک گواہ بھی ہو، اگر ایک بھی گواہ نہ ہو تو عمرو کا صرف دعویٰ مسموع نہ ہوگا۔
قال مالك: من اعطى عطية لا يريد ثوابها ثم مات المعطى، فورثته بمنزلته، وإن مات المعطي، قبل ان يقبض المعطى عطيته، فلا شيء له. وذلك انه اعطي عطاء لم يقبضه. فإن اراد المعطي ان يمسكها، وقد اشهد عليها حين اعطاها، فليس ذلك له، إذا قام صاحبها اخذها. قَالَ مَالِكٌ: مَنْ أَعْطَى عَطِيَّةً لَا يُرِيدُ ثَوَابَهَا ثُمَّ مَاتَ الْمُعْطَى، فَوَرَثَتُهُ بِمَنْزِلَتِهِ، وَإِنْ مَاتَ الْمُعْطِي، قَبْلَ أَنْ يَقْبِضَ الْمُعْطَى عَطِيَّتَهُ، فَلَا شَيْءَ لَهُ. وَذَلِكَ أَنَّهُ أُعْطِيَ عَطَاءً لَمْ يَقْبِضْهُ. فَإِنْ أَرَادَ الْمُعْطِي أَنْ يُمْسِكَهَا، وَقَدْ أَشْهَدَ عَلَيْهَا حِينَ أَعْطَاهَا، فَلَيْسَ ذَلِكَ لَهُ، إِذَا قَامَ صَاحِبُهَا أَخَذَهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص نے ایک شئے اللہ واسطے دی، پھر معطیٰ لہُ قبل قبضے کے مر گیا، تو اس کے وارث اس کے قائم مقام ہوں گے، اگر دینے والا قبل معطیٰ لہُ کے قبضے کے مر گیا تو اب اس کو کچھ نہ ملے گا، کیونکہ قبضہ نہ ہونے کے سبب سے وہ ہبہ لغو ہوگیا، اگر دینے والا اس کو روک رکھے اور ہبہ پر گواہ نہ ہوں تو یہ نہیں ہوسکتا، جب معطیٰ لہُ لینے کو کھڑا ہو جائے تو لے سکتا ہے۔
حدثني حدثني مالك، عن داود بن الحصين ، عن ابي غطفان بن طريف المري ، ان عمر بن الخطاب ، قال: " من وهب هبة لصلة رحم، او على وجه صدقة، فإنه لا يرجع فيها، ومن وهب هبة يرى انه إنما اراد بها الثواب، فهو على هبته يرجع فيها إذا لم يرض منها" . حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ ، عَنْ أَبِي غَطَفَانَ بْنِ طَرِيفٍ الْمُرِّيِّ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ: " مَنْ وَهَبَ هِبَةً لِصِلَةِ رَحِمٍ، أَوْ عَلَى وَجْهِ صَدَقَةٍ، فَإِنَّهُ لَا يَرْجِعُ فِيهَا، وَمَنْ وَهَبَ هِبَةً يَرَى أَنَّهُ إِنَّمَا أَرَادَ بِهَا الثَّوَابَ، فَهُوَ عَلَى هِبَتِهِ يَرْجِعُ فِيهَا إِذَا لَمْ يُرْضَ مِنْهَا" .
حضرت ابو غطفان بن طریف سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص ہبہ کرے کسی ناتے والے کو صلہ رحمی کے واسطے، یا صدقہ کے طور پر ثواب کے واسطے، تو اس میں رجوع نہیں کر سکتا، اور جو ہبہ کرے عوض لینے کے واسطے تو وہ رجوع کر سکتا ہے، جب کہ ناراض ہو۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12023، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3807، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16519، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 5820، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 42»
قال يحيى: سمعت مالكا، يقول: الامر المجتمع عليه عندنا ان الهبة إذا تغيرت عند الموهوب له للثواب بزيادة او نقصان، فإن على الموهوب له ان يعطي صاحبها قيمتها يوم قبضهاقَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنَّ الْهِبَةَ إِذَا تَغَيَّرَتْ عِنْدَ الْمَوْهُوبِ لَهُ لِلثَّوَابِ بِزِيَادَةٍ أَوْ نُقْصَانٍ، فَإِنَّ عَلَى الْمَوْهُوبِ لَهُ أَنْ يُعْطِيَ صَاحِبَهَا قِيمَتَهَا يَوْمَ قَبَضَهَا
امام مالک رحمہ اللہ نےفرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جب موہوب میں کچھ تفاوت ہو جائے کمی بیشی سے، اور وہ ہبہ ایسا ہو جو عوض کے واسطے دیا گیا ہو، تو موہوب لہُ کو اس کی قیمت قبضے کے دن کی دینی پڑے گی۔